پرانے چہرے اور نئی تبدیلی

جب سے ہوش سنبھالا ہے‘ ہم ملک کو ایک نازک دور سے گزرتا دیکھ رہے ہیں۔ اس نازک دور میں ہمیشہ عوام نے مشکلات اور سختیاں دیکھی ہیں اور جن کے پاس طاقت اور اقتدار تھا‘ وہ پھلتے پھولتے رہے‘ ان پر کوئی سختی نہیں آئی۔ وہ چھوٹے گھروں سے محلات اور پرائیوٹ جیٹس تک چلے گئے‘ ان کی دولت و امارت میں ہر دم اضافہ ہوتا رہا اور عوام غربت کی چکی میں پستے چلے گئے۔ جو پہلے تین وقت کی روٹی کھاتے تھے اب ایک وقت کا کھانا بھی ان کو مشکل سے نصیب ہوتا ہے۔ ہمارے مقابلے میں پڑوسی ملک بھارت میں جمہوریت نے قدم جمائے اور وہاں وزیراعظم خودمختار ہوتا اور تمام فیصلے خود کرتا ہے۔ بھارت میں باقاعدگی سے ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے رہے جو پارلیمانی اور جمہوری نظام کی بقا کیلئے بہت ضروری ہے۔ جمہوری تسلسل کی وجہ سے بھارت میں بڑے بڑے منصوبے مکمل کیے گئے یہاں تک کہ وہ ڈیم پر ڈیم بناتے گئے اور دریائے راوی کے پانی کو اب مکمل طور پر پاکستان کے لیے بند کر دیاہے۔ ہمارے ہاں ڈیم کا نام بھی لو تو صوبائی عصبیت آڑے آ جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں غالباً سب سے کمزور کرسی وزیراعظم ہی کی ہوتی ہے جو بیشتر فیصلے کرنے سے قاصر ہوتا ہے اور پھر دو‘ ڈھائی سال میں ویسے ہی کرسی اُس سے چھن جاتی ہے۔ اس کے بعد وزرائے اعظم کے ساتھ جو ہوتا ہے‘ وہ مثالیں بھی سب کے سامنے موجود ہیں۔ جلاوطنی‘ جیل‘ یہاں تک کہ پھانسی بھی سابق وزیراعظم کا مقدر بنی۔ جو تھوڑے سمجھدار ہوتے ہیں وہ ڈیل کرکے باہر چلے جاتے ہیں اور جو جذباتی اور انقلابی ہوتے ہیں وہ کال کوٹھڑیوں کے مکین بن جاتے ہیں۔ میں ڈیلز دینے والوں سے زیادہ ڈیلز کرنے والوں کو قصوروار سمجھتی ہوں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاستدانوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اور اب بھی وہی صورتحال ہے کہ ایک دوسرے کی حکومت چلنے نہیں دیتے۔ نومنتخب حکومت سادہ اکثریت بھی نہیں لے سکی جبکہ دھاندلی کا شور الگ ہے۔ بہت سے اتحادیوں کے ساتھ بنی حکومت مشکل سے چلتی نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اپنے آپ کو بند گلی میں لے گئی ہے۔ توقع سے کم نشستیں جیت کر اور دھاندلی کے شور میں حکومت بنائی گئی ہے۔ وزیراعظم کی ووٹنگ کے نتائج کے وقت شہباز شریف اور مریم نواز کے چہرے پر خوشی تھی لیکن میاں نواز شریف کے چہرے پر بیزاری نظر آئی۔ جس طرح کا سلوک اسمبلی میں ہوا‘ شاید ہی اب دوبارہ وہ اجلاس میں شرکت کریں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اپوزیشن بہت ٹف ٹائم دے گی۔ دوسرا‘ عوام بھی ان کے طرزِ سیاست پر تنقید کر رہے ہیں۔ تمام عہدے خاندان میں بانٹ دیے جاتے ہیں اور دیگر لیڈرز اور کارکنان منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ جن جماعتوں کے اپنے اندر جمہوریت نہیں وہ ملک میں کیا جمہوریت لائیں گی؟ اقتدار حاصل کرنے کیلئے جمہوری اقدار کو فراموش کر دینے سے نقصان پارٹی اور ذاتی سیاست ہی کا ہوتا ہے۔ (ن) لیگ کے مقابلے میں پیپلز پارٹی نے ہوشیاری دکھائی کہ وہ صدر سمیت طاقتور آئینی عہدے لے گی اور کابینہ کا حصہ نہ بن کر مستقبل میں ہونے والی تنقید سے بھی بچ جائے گی۔ سارا الزام وزیراعظم اور کابینہ ہی پر آئے گا۔
اس بار اسمبلی میں کچھ سیاسی خاندان تمام اہلِ خانہ کے ساتھ وارد ہوئے ہیں‘ جن میں شریف خاندان سرفہرست ہے‘ پھر زرداری خاندان‘ گیلانی خاندان‘ جام خاندان‘ چودھری خاندان‘ مخدوم خاندان نمایاں ہیں۔ وزیراعظم منتخب ہونے والے شہباز شریف پہلے بھی وزیراعظم اور تین بار پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ قومی اسمبلی میں سپیکر کا عہدہ سنبھالنے والے ایاز صادق بھی تیسری بار سپیکر بنے ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں میں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے اور ان انتخابات میں بھی کچھ خاندانوں کی سیاسی اجاہ داری قائم رہی۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ اس بار ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ نئے چہرے پارلیمنٹ کا حصہ بنے ہیں۔ بیرسٹر گوہر ان میں ایک ہیں‘ نسیم علی شاہ‘ شیر افضل مروت‘ ڈاکٹر امجد علی‘ عاطف خان‘ احد شاہ‘ اسامہ سرور اور لطیف کھوسہ بھی پہلی بار منتخب ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ پہلی بار قومی اسمبلی میں آنے والوں میں میر جمال خان رئیسانی‘ علیم خان‘ عون چودھری‘ دانیال چودھری اور عطا تارڑ بھی شامل ہیں۔ اسی طرح دو خواتین کے پی میں ثریا بی بی اور بلوچستان میں غزالہ گولہ کا ڈپٹی سپیکر منتخب ہونا بھی خوش آئند ہے۔ ہر رکن اسمبلی کو تنخواہ کے علاوہ کنوینس الائونس‘ سفارتی پاسپورٹ‘ بزنس کلاس ایئر ٹکٹس اور میڈیکل الائونس ملے گا لیکن اگر ہم حکومت کی طرف دیکھیں تو عوام کو کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ وہی تمام پرانے چہرے ہم پر حکومت کرنے جا رہے ہیں‘ اگر یہ گزشتہ تیس‘ چالیس میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکے تو آگے وہ ایسا کیا فارمولا استعمال کریں گے جس سے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی؟
جو خاندان کرسیٔ اقتدار پر تیس‘ چالیس برس سے براجمان ہیں ان کے ذاتی اثاثوں میں اتنا اضافہ ہوا کہ وہ کئی براعظموں تک پھیل گئے‘ دوسری طرف ملک ان کے دور میں بدحال ہو گیا‘ قرضے میں ڈوبی معیشت‘ گروی اثاثے اور ناقابلِ برداشت مہنگائی نے ملکی اقتصادیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضے کے حصول کیلئے شرائط پوری کرتے کرتے عوام کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔ بجلی مہنگی‘ گیس مہنگی‘ پٹرول مہنگا اور اشیائے خور و نوش مہنگی‘ اس کے علاوہ سیاسی تنائو‘ اتنے سارے چیلنجز کا مقابلہ حکومت کیسے کرے گی۔ حکومت تو خود اتحادیوں کے بل پر ہے‘ اگر پیپلز پارٹی ساتھ چھوڑ جائے تو حکومت برقرار نہیں رہ سکے گی‘ ایسے میں کارکردگی کیسے دکھائی جائے گی؟ ایک کمزور حکومت اتنے سارے معاشی و سیاسی چیلنجز کا سامنا کیسے کرے گی؟ ملک میں اس وقت آزادیٔ اظہارِ رائے اور آزادیٔ صحافت کی جو صورتحال ہے‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ایسے میں بہتری کی امید کیسے روشن ہو؟
اس وقت عوام شدید بددل ہیں‘ لوگ سسٹم پر اعتماد کرنے سے قاصر اور اپنے ووٹ اور حکومتی مینڈیٹ پر سوال کررہے ہیں۔ چند روز قبل الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر فارم 45اور فارم 47 اَپ لوڈ کیے‘ جن میں کاٹ پیٹ اور اوور رائٹنگ نمایاں ہے‘ دوسری طرف وہ انتخابی امیدواران‘ جن کے پاس فارم 45 موجود ہیں‘ ان کے اور الیکشن کمیشن کے اپ لوڈ کردہ فارم 45 میں واضح تضاد نظر آ رہا ہے۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی سمیت اپوزیشن کے کئی رہنمائوں نے الیکشن کمیشن کے فارم 45 پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ یہ سب باتیں الیکشن کی شفافیت کو مزید مشکوک بنارہی ہیں۔ ان اعتراضات اور تحفظات کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے سکتا ہے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دے کر بھی غلط روایت قائم کی ہے۔
سیاسی حلقوں کو بھی اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ اقتدار ان کو ہی ملنا چاہیے جن کوووٹ دیا گیا تھا۔ ڈیلز‘دھاندلی اور دھوکے بازی سے وقتی فائدہ تو ہوسکتا ہے مگر طویل مدتی طور پر اس سے صرف نقصان ہوتا ہے۔ نیز موروثی سیاست سے بھی اب جان چھڑانی چاہیے۔ یہ ضروری نہیں کہ سیاستدان کا بچہ بھی سیاستدان ہی ہو یا ایک قابل اور زیرک سیاستدان نکلے۔ عام لوگوں کو بھی یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ سیاست اور ایوان میں آ سکیں۔ مجھے نئی حکومت اور پرانے چہروں سے کچھ خاص امید نہیں کہ وہ ملک کے حالات میں کوئی اچھی تبدیلی لے آئیں۔ انٹرنیٹ کی بندش‘ مہنگائی‘ میرٹ کے قتل اور جبر کے ماحول میں ملک میں ترقی نہیں کرپاتے۔ جو لوگ پہلے بھی ڈیلیور نہیں کرسکے کیااب وہ کچھ کرپائیں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں