انٹر نیٹ اورسوشل میڈیا کی افادیت

سوشل میڈیا ایپس میں ٹویٹر‘ جو اَب ایکس کے نام سے جانا جاتا ہے‘ کو کچھ زیادہ ہی اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر میں خبر اسی پلیٹ فارم سے بنتی ہے۔ یہ اب طاقت اور سیاست کا محور سمجھا جاتا ہے۔ سیاستدان‘ کھلاڑی‘ کاروباری حضرات اور شوبز سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے بیانات اسی سوشل میڈیا فورم پر جاری کرتے ہیں۔ لوگ اس پر اپنی تصاویر اور وڈیوز پوسٹ کرتے ہیں‘ یہاں سیاسی مباحثے ہوتے ہیں‘سیاستدان‘ کارکنان اور تجزیہ کار اپنی رائے دیتے ہیں۔ صحافی بھی اپنی خبریں اور تبصرے یہاں پوسٹ کرنا پسند کرتے ہیں‘ ان کے قارئین بھی یہاں ان کے ساتھ براہِ راست منسلک ہو جاتے ہیں۔ جن لوگوں سے ملنا عوام کے لیے عام حالات میں ممکن نہیں وہ بھی سوشل میڈیا کے توسط سے عوام کی دسترس میں آجاتے ہیں۔ یہاں بحث و مباحثے ہوتے ہیں جن میں لوگ حکومت میں موجود افراد کو مشورے بھی دیتے ہیں کہ وہ کس طرح سے عوام کی خدمت زیادہ بہتر انداز سے کر سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ٹویٹر پر فالورز‘ ری ٹویٹس اور ٹرینڈز کی بھی خوب ریس لگی رہتی ہے۔ ہر جماعت‘ ادارے اور فردِ واحد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ٹویٹر پر ان کے لاکھوں فالورز ہوں‘ ان کی ٹویٹس ہزاروں کی تعداد میں ری ٹویٹ ہوں اور سینکڑوں لوگ ان کے ٹویٹس پر اپنی رائے کا اظہار کریں۔ ایک طرح ٹویٹر پر مقابلہ بازی کی فضا بھی بنی رہتی ہے۔ ٹویٹر پر اپنی واہ واہ کرانے کے چکر میں بعض اوقات بات گالم گلوچ تک بھی پہنچ جاتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو عالمی سطح پر سیاست میں ٹویٹر نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال امریکی انتخابات ہیں۔ اس سے قبل عرب سپرنگ میں بھی ٹویٹر نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ 2016ء میں ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت کو ناکام بنانے میں بھی ٹویٹر اور سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ کوئی قدرتی آفت ہو‘ کسی شخص کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہو‘ کسی فرد کو کسی مدد کی ضرورت ہو‘ لوگ اپنی ہر بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے اب سوشل میڈیا ہی کا سہارا لیتے ہیں۔ شہری اب اپنے مسائل کے حل کے لیے ٹویٹر کا سہارا لیتے ہیں‘ ٹویٹر پر ٹرینڈ بننے کے بعد ہی متعلقہ حکام مسئلے کا نوٹس لیتے ہیں اور اسے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار بھی سوشل میڈیا ہی پر لڑی جا رہی ہے۔ لوگ ایکٹو ازم‘ حقائق تک رسائی اور تحقیقاتی صحافت کے لیے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا ہی استعمال کرتے ہیں۔
ہمارے ملک میں بھی ٹویٹر یا ایکس کافی اہمیت حاصل کر چکا ہے۔ یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہماری سیاست کا محور بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا میں اتنی طاقت ہے کہ یہ جس کو چاہے چند ہی لمحوں میں ہیرو بنا سکتا ہے اور جس کو چاہے چند ہی لمحوں میں ہیرو سے زیرو کر سکتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ ہم کئی بار دیکھ چکے ہیں۔ بعض اوقات ٹویٹر پر چلنے والے ٹرینڈز کی وجہ سے نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔ لوگ بلاوجہ ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں اور یہ دشمنی ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے حقیقی زندگی تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ ٹویٹر پر بلیو ٹک ملنے اور فالورز کی تعداد زیادہ ہونے سے ایک دوسرے سے حسد کی صورتحال بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ میں نے اس صورتحال کو ڈیجیٹل حسد کا نام دے رکھا ہے۔
گوکہ ٹویٹر کو اب ہمارے ملک میں شہرت اور طاقت کا محور سمجھا جاتا ہے‘ تاہم میرے نزدیک یہ خبر کی نشر و اشاعت کا سب سے تیز ترین ذریعہ ہے۔ اس پلیٹ فارم پر سنسر شپ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ سخت سے سخت بات بھی کہہ سکتے ہیں اور دوسروں پر کھلی تنقید کر سکتے ہیں۔ ایلون مسک کے ٹویٹر خریدنے کے بعد تو اسے مزید اَپ گریڈ کر دیا گیا ہے۔ اس میں مزید کئی فیچر شامل کیے جا چکے ہیں جس سے لوگوں کو اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرنے میں مزید آسانی میسر آ گئی ہے۔ کیبل یا سیٹلائٹ ٹی وی کے علاوہ لوگ حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنے کیلئے بھی ٹویٹر کا رُخ کرتے ہیں۔ ٹویٹر اب ان صارفین کو پیسے بھی دے رہا ہے جن کی رِیچ زیادہ ہے؛ تاہم پاکستانی صارفین اس سے محروم ہیں کیونکہ پاکستان میں ان مالیاتی اداروں کی سہولت موجود نہیں جن کے ذریعے ٹویٹر اپنے صارفین کو رقم ٹرانسفر کرتا ہے۔ ٹویٹر سے آمدن کے مواقع پیدا ہونے کے بعد بجائے اس کے کہ حکومتی سطح پر اس حوالے سے آسانیاں پیدا کی جاتیں‘ گزشتہ کچھ ہفتوں سے ملک میں ٹویٹر کی سروس ڈاؤن ہے۔ پہلے بھی تکنیکی خرابیوں کی بنا پر ایسا ہوتا رہا لیکن اس بار تو کئی ہفتے گزرنے کے باوجود ٹویٹر کی سروس پوری طرح بحال نہیں ہو سکی۔ لوگ اس صورتحال سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ حالیہ عام انتخابات کے روز ہونے والی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور موبائل فون سروس کی بندش بھی عوام میں تشویش پیدا کرنے کا باعث بنی تھی۔ موبائل سروس یا انٹرنیٹ کوئی آسائش نہیں بلکہ اب بنیادی انسانی ضرورت بن چکے ہیں۔ یہ رابطے کا کلیدی ذریعہ ہیں اور اس سے انکار ممکن نہیں کہ انٹر نیٹ نے انسانوں کی زندگی بہت سہل بنا دی ہے‘ لوگ انٹرنیٹ ایپس کے ذریعے گھر بیٹھے خریداری کر سکتے ہیں۔ کھانا ہو یا گروسری‘ ادویات ہوں یا ٹیکسی منگوانی ہو‘ یہ سب اب انٹر نیٹ کی مدد سے انسان کی دسترس میں آ چکا ہے۔ اب لوگ گھر بیٹھے ہر موضوع پر لامحدود تحقیق کر سکتے ہیں۔ لاکھوں پاکستانی انٹر نیٹ سے اپنا روزگار کما رہے ہیں۔ فری لانسنگ میں پاکستان دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے۔ انٹرنیٹ کی بندش کی صورت میں ان لاکھوں‘ کروڑوں لوگوں کا روزگار متاثر ہوتا ہے۔ یہ لاکھوں لوگ گھر بیٹھے ملک میں قیمتی زرِ مبادلہ لا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی معطلی کی صورت میں ان لاکھوں لوگوں کا روزگار تو متاثر ہوتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی ملک میں زرِمبادلہ کی آمدورفت کا سلسلہ بھی متاثر ہوتا ہے۔
گوکہ اسلام آباد ہائیکورٹ ٹویٹر ( ایکس) کی بندش کے خلاف دائر درخواست پر پی ٹی اے اور وزارتِ اطلاعات کو نوٹس جاری کرچکی ہے لیکن یہ سروس پھر بھی پوری طرح بحال نہیں ہوسکی۔ سندھ ہائیکورٹ بھی اس حوالے سے واضح احکامات جاری کر چکی ہے۔ نگران حکومت نے یہ معاملہ نئی حکومت پر ڈال دیا تھا لیکن ٹویٹر کی بندش اب پانچویں ہفتے میں داخل ہو چکی ہے۔ بادی النظر میں یوں دکھائی دے رہا ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ صرف معطل کی گئی تھی وہ پھر بھی حاصل نہیں کیا جا سکا۔ جس نے جو آواز اٹھانی ہے وہ سوشل میڈیا ایپس کی سروس معطلی کے باوجود اٹھا رہا ہے۔ اب تو ایوان میں بھی انتخابی نتائج میں ردو بدل کے حوالے سے کھل کر بات ہو رہی ہے۔
سوشل میڈیا کسی مخصوص جماعت کی ملکیت نہیں کہ اس سے صرف اسی جماعت کو فائدہ ہوگا۔ یہ ایسا پلیٹ فارم ہے جس سے ہر کوئی برابر مستفید ہو سکتا ہے‘ بس اس کا درست استعمال آنا چاہیے۔ پی ٹی اے کو اس حوالے سے متحرک کردار ادا کرنا چاہیے۔ حکومت کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اُن فوائد پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو پوری دنیا اس سے حاصل کر رہی ہے۔ پاکستان پہلے ہی ٹیکنالوجی کی دوڑ میں دنیا کے بیشتر ممالک میں بہت پیچھے ہے‘ اگر اب بھی اس طرف بھرپور توجہ مرکوز نہ کی گئی تو ہم ٹیکنالوجی کے ذریعے ملکی معیشت کو استحکام کی جانب گامزن کرنے کے بہت سے مواقع کھو دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں