اللہ تبارک و تعالیٰ کا لاکھ شکر ہے کہ ہمارا ملک حالتِ جنگ میں نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ایک خبر کے مطابق رواں برس اب تک پاکستان میں دس صحافیوں کا قتل ہو چکا ہے۔ یہ بہت حیران کن بات ہے کہ بظاہر پُرامن نظر آنے والے علاقوں میں صحافیوں کا قتل کیوں ہوا۔ ویسے تو شورش زدہ علاقوں میں یا جو علاقے حالتِ جنگ میں ہوں‘ صحافی گولیوں کی زد میں آجاتے ہیں‘ جیسا کہ غزہ میں ہو رہا ہے‘ مگر پاکستان میں تو کوئی جنگ نہیں چل رہی۔ یہاں معاشی اور سیاسی عدم استحکام ضرور ہے‘ اس وجہ سے معاشرے میں عدم برداشت بڑھ گئی ہے‘ بات کرنے‘ تنقید کرنے کی آزادی بھی پہلے سے کم ہو چکی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ صحافیوں کو اندھی گولیوں کا نشانہ بنایا جائے۔ بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں زیادہ تر صحافیوں کو اُن کے کام کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔ یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ آج بھی صحافیوں کو ہراسانی اور معاشی تنگدستی کا سامنا ہے۔ عالمی صحافتی اداروں کے مطابق فلسطین کے بعد پاکستان صحافیوں کیلئے دوسرا خطرناک ملک ہے۔
''کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ‘‘ کے مطابق رواں برس اب تک غزہ میں 137 صحافی اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2006ء سے 2024ء کے درمیان دنیا بھر میں 1700صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ زیادہ افسوناک بات یہ ہے کہ ان میں سے 85فیصد کیسز عدالت میں رپورٹ ہی نہیں ہو سکے۔ غزہ کے علاوہ رواں برس اب تک پاکستان میں دس‘ بنگلہ دیش میں پانچ‘ میکسیکو میں چار‘ میانمار‘ عراق اور سوڈان میں تین‘ تین اور یوکرین اور کولمبیا میں دو‘ دو صحافی قتل ہوئے ہیں۔ کانگو‘ روس‘ ترکمانستان اور چاڈ میں ایک‘ ایک صحافی قتل ہوا ہے۔ قتل کے علاوہ رواں برس اب تک دنیا بھر میں 111صحافی لاپتا ہوئے۔ جن ممالک میں صحافی لاپتا ہوئے اُن میں شام‘ ایران اور روس سرفہرست ہیں۔ یہ امر شرمندگی کا باعث ہے کہ پاکستان کا شمار نہ صرف صحافیوں کے حوالے سے خطرناک ممالک میں ہوتا ہے بلکہ رواں برس جنگ زدہ غزہ کے بعد سب سے زیادہ صحافی پاکستان میں قتل ہوئے ہیں۔ رواں برس عالمی رینکنگ میں دو درجے تنزلی کے بعد آزادیٔ صحافت انڈیکس میں پاکستان 180ممالک میں 152ویں نمبر پر آیا ہے۔
پاکستان میں صحافیوں کے قتل کے جو واقعات رپورٹ ہوئے ‘ ان میں مارچ میں رحیم یار خان میں جام صغیر احمد کا قتل ہوا‘ وہ مقامی اخبار کے ساتھ منسلک تھے۔ اپریل میں سوہاہ کے مقام پر صحافی طاہرہ نوشین رانا کی مسخ شدہ لاش ملی‘ ان کا تعلق پاکپتن سے تھا۔ عالمی یومِ صحافت‘ تین مئی کوبلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے چمروک میں صحافی محمد صدیق مینگل کو نشانہ بنایا گیا۔ وہ خضدار پریس کلب کے صدر بھی تھے۔ 15مئی کو صحافی اشفاق سیال کو مظفر گڑھ میں قتل کر دیا گیا۔ 21 مئی کو شمالی وزیرستان میں کامران داوڑ کو نشانہ بنایا گیا اور وہ جانبر نہ ہو سکے۔ 24 مئی کو سندھی اخبار کے صحافی نصراللہ گڈانی کو گھوٹکی میں نشانہ بنایا گیا جو بعد ازاں کراچی میں دورانِ علاج دم توڑ گئے۔ 18 جون کو لنڈی کوتل میں لنڈی کوتل پریس کلب کے سابق صدر اور صحافی خلیل جبران اور 20 جون کو لودھراں میں صحافی ظفر اقبال کو قتل کیا گیا۔ 14 جولائی کو نوشہرہ میں صحافی حسن زیب کو قتل کیا گیا۔ 27 اگست کو گھوٹکی میں مقامی صحافی بچل گھنیو کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور چار ستمبر کو صحافی نثارلہڑی کو مستونگ میں نشانہ بنایا گیا۔قتل ہونے والے صحافیوں کے علاوہ من گھڑت مقدمات کا سامنا کرنے والے صحافیوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ ڈیرہ غازی خان میں صحافی شیر افگن بزدار اور صحافی غلام مصطفی کو ڈی جی خان پولیس نے پریس کلب سے گرفتار کیا اور ایک ماہ جیل کاٹنے کے بعد دونوں کو رہائی نصیب ہوئی۔ اس کے علاوہ بٹگرام کے صحافی احسان اللہ نسیم کو بھی گرفتار کیا گیا جن کو حال ہی میں پشاور ہائی کورٹ سے ضمانت ملی ہے۔
پاکستان میں صحافیوں کیلئے حالات کبھی ایسے تو نہ تھے جیسے اب ہو چکے ہیں۔ اگر ماضی میں اندھی گولیوں کا نشانہ بننے والے صحافیوں کو انصاف ملتا تو شاید آج ملک میں صحافی برادری محفوظ ہوتی۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں قاتل بچ کر صاف نکل جاتے ہیں۔ اگر کسی صحافی کے اہلِ خانہ قاتل کے خلاف مقدمہ درج کراتے بھی ہیں تو سالوں بیت جاتے ہیں لیکن مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو پاتا اور انصاف نہیں ملتا۔ اس وقت صحافی طبقہ مشکل حالات میں کام کر رہا ہے۔ ملک کے ابتر معاشی حالات نے صحافیوں کی معاشی سکت کو بھی متاثر کیا ہے۔ فیلڈ میں بھی انہیں دھمکیوں اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین صحافیوں کی کردارکشی کی جاتی ہے اور اس مکروہ مہم میں سوشل میڈیا پیش پیش ہوتا ہے۔ بہت سے مرد اور خواتین صحافیوں نے اسی لیے سوشل میڈیا کا استعمال کم کردیا ہے یا اپنی پوسٹس پر کمنٹ سیکشن کو آف کردیا ہے۔ اسکے علاوہ جلسوں‘ دھرنوں اور عوامی مظاہروں میں بھی صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں ملک کی صحافتی تنظیموں کا کردار بھی رسمی حد تک رہ گیا ہے۔ اسلام آباد یا لاہور میں کسی صحافی کے ساتھ کچھ غلط ہو تو تھوڑی سے جنبش ہوجاتی ہے لیکن دوردراز کے کسی علاقے میں اگر کوئی صحافی قتل بھی ہو جائے تو مقامی پریس کلب ایک پریس ریلیز کرنا بھی مناسب خیال نہیں کرتا۔ صحافی خود بھی دھڑے بندی کا شکار ہیں اور اپنی سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے مختلف گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ اسی لیے اکثر صحافی اپنے ہی کولیگز کیساتھ ہونے والی زیادتیوں پر خاموش رہتے ہیں۔
ارشد شریف ہوں یا سید سلیم شہزاد‘ مشتاق خند ہوں یاثاقب خان‘ عبد الحق بلوچ ہوں یا رزاق گل‘ ملک ممتاز ہوں یا محمود آفریدی‘ سیف الرحمان‘ایوب خٹک‘ عمران شیخ‘ عارف خان‘ مصری خان‘ ولی خان بابر ہوں یا عزیز میمن‘ موسیٰ خان خیل ہوں یا چشتی مجاہد‘ حیات اللہ خان ہوں یا راجہ اسد حمید یا لالہ حمید بلوچ‘ کتنے صحافیوں کو اب تک انصاف ملا ہے؟ ارشد شریف نے اپنی زندگی میں اُس وقت کے چیف جسٹس کو خط بھی لکھا‘ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پٹیشن بھی دائر کی‘ ہر فورم پر آواز اٹھائی لیکن کچھ نہیں ہوا۔ ہاں! اب ان کے قتل کے بعد ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ہم اہلِ خانہ صحافیوں کیلئے بنائے گئے کمیشن سے رجوع کرسکتے ہیں۔ لیکن میری اب تک کی معلومات کے مطابق ایسا کوئی کمیشن وجود ہی نہیں رکھتا۔ ہر سال دو نومبر کو صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن اُن صحافیوں کو یاد کیا جاتا ہے جو اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران جان سے چلے گئے۔ اس دن صحافیوں کو انصاف کی فراہمی کے لیے بھی آواز بلند کی جاتی ہے۔
اس وقت بھی پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں صحافیوں کو مختلف من گھڑت مقدمات میں گرفتاریوں اور ہراسانی کا سامنا ہے۔ صحافی جمہوریت‘ انقلاب اور معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ رواں برس ملک میں دس صحافیوں کا قتل توجہ کا متقاضی ہے۔ آزادیٔ صحافت کے دعوے تو سب کرتے ہیں مگر ان پر عمل بھی کیا جانا چاہیے۔ اس وقت صحافت اور صحافی مشکلات کا شکار ہیں اور اس کی بڑی وجہ معاشی بدحالی‘ سیاسی عدم استحکام اور عدم برداشت ہے۔ عدم برداشت اتنی بڑھ چکی ہے کراچی کے ایک ریستوران میں دو خواتین میں کہنی لگ جانے پر بات دونوں خاندانوں میں ہاتھاپائی تک پہنچ گئی۔ ایسے حالات میں صحافی جب کرپشن کے خلاف رپورٹ دیں گے‘ تنازعات پر رپورٹنگ کریں گے تو ان کو کتنی مشکلات پیش آتی ہوں گی‘ اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ صحافی معاشرے کی آنکھیں ہیں وہ معاشرے کی برائیوں کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ وہ عام آدمی کے مسائل کو اجاگر کرتے اور اشرافیہ کو آئینہ دکھاتے ہیں۔ اس آئینے میں اگر شکل بدصورت نظر آئے تو آئینہ مت توڑیں‘ اپنا چہرہ درست کریں۔