پانی زندگی کا ضامن ہے۔ جہاں پانی ہوگا وہاں زندگی جنم لے گی اور پروان چڑھ سکے گی۔ حضرت ہاجرہ جب عرب کے تپتے صحرا میں دوڑ رہی تھیں تو ان کو پانی کی تلاش تھی۔ اللہ کا معجزہ دیکھیں کہ آبِ زم زم کا چشمہ وہاں سے رواں ہوا جہاں ننھے اسماعیل علیہ السلام زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔ ان کی ایڑیوں کے پاس سے اللہ کے حکم سے چشمہ رواں ہوگیا۔ یہاں پر پانی کی موجودگی آبادی کا باعث بن گئی اور آج بھی یہ چشمہ رواں ہے۔ خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہاں بیت اللہ کی بنیاد رکھی۔ یہ صحرا آباد ہوگیا اور آج بھی لاکھوں فرزندانِ توحید اللہ کے گھر کی زیارت کیلئے جاتے ہیں اور آبِ زم زم آج بھی وہاں اللہ کے معجزے کے طور پر موجود ہے۔آب ِزم زم مسلمانوں کیلئے مقدس پانی کا درجہ رکھتا ہے اور اس میں شفا ہے۔
پانی زندگی کی بقا ہے اور زندہ رہنے کیلئے بہت ضروری ہے۔ ہم جس خطے میں رہتے ہیں وہاں بھی پانی کے بڑے ذخیرے موجود ہیں۔ یہاں سے دریاؤں کا آغاز ہوتا ہے جو سارے ملک کے میدانی علاقے کو سیراب کرتے ہوئے بحیرۂ عرب میں جاگرتے ہیں۔ پانی کے اس صاف‘ میٹھے ذخیرے کو محفوظ رکھنا ہم سب پر فرض ہے مگرلوگ پانی کی قدر نہیں کرتے‘ صاف پانی کو گندا کردیتے ہیں۔ صاف پانی کو ضائع کرنا بھی عام ہے۔ اگر اسی طرح چلتا رہا تو صاف پانی کے ذخیرے بہت جلد کم پڑ جائیں گے جبکہ سمندر کا پانی قابلِ استعمال نہیں ہے۔ پہلے تیل اور معدنیات کیلئے لڑائیاں ہوتی تھیں مگر اب شاید پانی کیلئے ہوا کریں گی۔پاکستانی عوام کی پانی کے مسئلے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں ہے ۔ اشرافیہ کا بھی یہی حال ہے۔ ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے۔ عسکری اور سیاسی قیادت میں اعتماد کا فقدان رہتا ہے اور کوئی وزیراعظم اپنی پانچ سال کی مدت پوری نہیں کرپاتا‘اسی لیے ہمارے ملک میں طویل مدتی منصوبے نہ پورے ہوپاتے ہیں اور نہ ہی ان کے حوالے سے مؤثر آواز اٹھائی جاتی ہے۔ کمزور حکومتیں صرف اپنے مفادات دیکھتی ہیں جس سے ملک مزید پیچھے چلا جاتا ہے۔
اس بار پاک بھارت کشیدگی میں وہی ہوا جس کا بہت سالوں سے خدشہ تھا۔بھارت نے اپنے تئیں سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا۔ ہمارے ملک میں اندرونی طور پر پانی کے معاملے پر لڑائی پڑی رہتی ہے۔ پاکستان کی دو بڑی جماعتیں سیاست ہی کالا باغ ڈیم کی مخالفت پر کرتی ہیں‘ مگر جب بھارت کے ساتھ پانی کے مسئلے کی بات آتی ہے تو سب چپ کرجاتے ہیں ‘کوئی کچھ بولتا ہی نہیں۔ نریندر مودی نے چند سال قبل کہا تھا کہ وہ پاکستان کو بوند بوند پانی کیلئے ترسا دیں گے اور وہ ایسا ہی کررہے ہیں۔ ابھی آپ کو یہ بات مذاق لگ رہی ہوگی لیکن چند سالوں میں ایسا ہی ہوگا کیونکہ بھارت ان دریائوں پر مزید ڈیم اور نہریں بنالے گا‘ موجودہ ڈیمز کی سٹوریج میں اضافہ کرلے گا۔ کیا ستلج ‘راوی اور بیاس کا حال ہمارے سامنے نہیں؟ مگر پاکستان میں سیاسی عدم استحکام‘ سیاسی انتقام ‘ اقربا پروری اور کرپشن عروج پر ہے۔ عوام کے مینڈیٹ کی توہین جاری و ساری ہے‘ ایک بڑی تعداد میں سیاسی قیدی جیلوں میں ہیں‘ لکھنے بولنے کی آزادی سکڑ گئی ہے۔ ان حالات میں کیسے کوئی وسیع تر قومی مفاد میں سوچے گا؟عوام تو دو وقت کی روٹی کے چکر میں پس رہے ہیں۔اس لیے پانی کے معاملے سے عوام بھی دور ہیں وہ صرف میمز بنا کر خوش ہورہے ہیں کیونکہ وہ ذرا سی تنقیدکرتے ہیں‘ ٹویٹ کرتے ہیں تو پابند سلاسل ہو جاتے ہیں۔
1960 ء کی دہائی میں بھارت اور پاکستان کے مابین سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت دریائے راوی‘ ستلج اور بیاس بھارت کو ملے تھے۔ بھارت نہ صرف ان پر بلکہ پاکستان کو ملنے والے دریاؤں پر بھی پروجیکٹ بناتا رہا۔ دریائے جہلم پر کشن کنگا ڈیم‘ دریائے چناب پر رتلے ڈیم اور اب راوی پر شاہ پور کنڈی بیراج نے پانی کے بہاؤ پر شدید اثر ڈالا ہے۔ پاکستان سفارتی طور پر کمزور ہے‘ بھارت ہمیشہ عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کرکے اپنی من مانی کرتا آیا ہے۔ اگر ہم نے اپنے دریاؤں پر بڑے اور چھوٹے منصوبے نہ بنائے تو آگے چل کر ہم واقعی بوند بوند پانی کو ترس جائیں گے۔ ہمیں اپنے پانی کو محفوظ کرنا ہوگا۔ عوام کو واٹر مینجمنٹ کا شعور دیں کہ وہ پانی کا ضیاع نہ کریں‘ بارش کے پانی کو محفوظ کرکے لان کو پانی دینے یا گاڑی کی دھلائی کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آبی وسائل میں صنعتی مواد اور انسانی فضلہ پھینکے سے گریز کیا جائے۔ ان کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے۔بھارت ہمارے ساتھ جو آبی جارحیت کررہا ہے‘ اس کو متعلقہ فورمز پر اٹھایا جائے۔ اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو آنے والے وقت میں جنگوں کی وجہ پانی ہوگی۔ پاکستان اور بھارت کی مجموعی آبادی پونے دو ارب کے قریب ہے اور پانی دونوں کی بقا کا ضامن ہے۔ بھارت جب چاہے ان دریائوں کا پانی روک دیتا ہے اور تیز بارشوں کی صورت میں اضافی پانی یکدم پاکستان کی طرف چھوڑ دیتا ہے جس سے دریائوں میں طغیانی آ جاتی اور نشیبی علاقے پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہ اجارہ داری اس کو کیسے حاصل ہوئی؟ ایک تو مسئلہ کشمیر اب تک حل طلب ہے‘ دوسرا بھارت نے دریائوں پر بہت سے ڈیم اور بیراج بنا لیے ہیں‘ اس لیے وہ پانی روکتا ہے۔ بھارت نہ صرف راوی بلکہ چناب کا بھی پانی روک لیتا ہے جس سے یہ دونوں دریا سکڑ رہے ہیں اور پاکستانی کسان بہت نقصان اٹھا رہے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت روزانہ چناب میں 55ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کا پابند ہے‘ تاہم بھارت دریائے نیلم پر کشن گنگا ڈیم‘ دریائے جہلم پر رتلے ڈیم‘ دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم بنا چکا ہے۔ اب شاہ پور کنڈی بیراج سے بھارت نے راوی کا پانی بند کر دیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق جہلم اور چناب پر ہمارا حق ہے۔ راوی کے بیس لاکھ کیوسک پانی پر بھی پاکستان کا حق ہے تاہم شاہ پور کنڈی اور اوجھ ڈیم سے پاکستان کا حق مارا جا رہا ہے۔ اس معاملے میں ورلڈ بینک‘ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ بھارت کے سیاستدان برملا کہہ رہے ہیں کہ ہم راوی‘ ستلج اور بیاس کا پانی ڈیم بناکر مکمل روک لیں گے۔ اس حوالے سے دو ڈیم منصوبے پائپ پائن میں ہیں۔ اگر یہی ہوتا رہا تو پاکستان اپنے قانونی حق سے محروم ہو جائے گا۔ ہمیں اپنے پانی کا حق لینا ہوگا کیونکہ مشرقی دریا ہمارے ملک کے اہم شہروں سے گزرتے اور وہاں کے شہری اور کسان ان پر انحصار کرتے ہیں۔
دریائے سندھ پر سب سے زیادہ حق پاکستان کا ہے۔ پاکستان کی 61 فیصد آبادی اس پر انحصار کرتی ہے۔ انڈس بیسن پر 18495 گلیشیر موجود ہیں۔ یہ خطہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے پہلے بھارت نے سیاچن پر قبضہ کرنے کی کوشش کی‘ اس کے بعد کارگل‘ اب لداخ تنازع کے پیچھے صرف پانی کی جنگ ہے۔ بھارت خطے کا پانی چوری کر رہا ہے اور پانی کے ذخیروں پرقبضہ کرنا چاہتا ہے۔ انڈس بیسن 1.1 ملین مربع کلومیٹر کور کرتا ہے جس میں دریائے سندھ کی لمبائی تین ہزار کلومیڑ ہے۔ پاکستانی عوام کی ذاتی‘ زرعی اور صنعتی ضرورت اس سے پوری ہوتی ہے۔ پاکستان کی فوڈ سکیورٹی کیلئے دریائے سندھ بہت اہم ہے‘ اس کے ساتھ بجلی کی پیداوار بھی اس سے منسلک ہے۔ بھارت نے اب مغربی دریاؤں پر بھی منصوبے شروع کر دیے ہیں۔ نئی دہلی کی جانب سے مسلسل سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے مگر کسی کی اس طرف توجہ ہی نہیں کہ بھارت ہمارے کھیت کھلیان اور دریا بنجر کر رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی صورتحال ابتر ہے‘ جب تک پاکستانی اشرافیہ کی انا کو تسکین ملے گی اور وہ اپنی ذاتی لڑائیوں سے باز آئیں گے‘ بھارت مزید آبی منصوبے شروع کر چکا ہو گا۔ ہمارے ہاں ٹک ٹاک کے شوقین خودنمائی کے شکار موروثی لیڈر سستے آٹے کے تھیلوں کے ساتھ بیٹھے ہیں اور کسان پانی‘ کھاد اور بیج کیلئے ترس رہا ہے مگر کسی کی توجہ نہیں۔ اہم معاملات پر بھی حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھنے کیلئے تیار نہیں۔