بھارت کے لیڈر بار بار یہ دھمکیاں دے چکے ہیں کہ ہم پاکستان کو بوند بوند پانی کیلئے ترسا ئیں گے۔ اسی ارادے پر عمل پیرا ہو کر بھارتی حکومت نے انڈس بیسن پر مختلف پروجیکٹس پر کام شروع کر دیا۔ ان میں بگلیہار‘پکاڈل‘ڈل ہستی‘نیمو باز گو‘ رتلے‘ اوڑی‘ کشن گنگا اور Dumkhar سمیت مغربی دریائوں پر بھارت کے چھوٹے بڑے 155ہائیڈرو پاور منصوبے شامل ہیں۔ مشرقی دریا تو سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے پہلے ہی بھارت کے زیر تصرف ہیں‘اب مغربی دریائوں پر بھی اتنے منصوبے شروع کیے جا چکے ہیں کہ جوپاکستان کی زرعی معیشت کیلئے شدید خطرہ ہیں اور یہ بھارت کی کھلی آبی جارحیت ہے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق بھارت نے کشن گنگا ڈیم سے 22 کلومیٹر طویل نہر نکال کر اسکے قدرتی بہاؤ میں فرق ڈال دیا ہے۔ آگے چل کر شاید یہ دریا کے بہائو میں کمی اور وادیٔ نیلم کے قدرتی ماحول کو متاثر کرے گی۔ کشن گنگا ڈیم سے پاکستان کے پانی میں 27 فیصد کمی ہو گی اور اسکے نتیجے میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی پیداواری صلاحیت میں بھی واضح کمی کا امکان ہے۔ اسلئے وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم پانی کو محفوظ کرنے کی طرف توجہ دیں۔ اس حوالے سے آواز بلند کریں اور دنیا کو باور کرائیں کہ بھارت ہمارے دریائوں کا پانی چوری کر رہا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت راوی‘ بیاس اور ستلج پر بھارت کاحق تسلیم کیا گیا ہے اورسندھ‘ جہلم اور چناب پر پاکستان کا۔ معاہدے کے تحت بھارت ان دریائوں کا صرف30 فیصد پانی استعمال کر سکتا ہے۔ بھارت اس وقت بھرپور کوشش میں ہے کہ وہ مغربی دریاؤں کے پانی سے نہریں نکالے اور ان کا پانی ذخیرہ کرنے کے نئے منصوبے شروع کرے۔ دونوں ممالک میں متعدد بار کشیدگی پیدا ہو چکی ہے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا گیا ہو۔ پہلگام کے فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارت نے بنا ثبوت پاکستان پر الزام لگا یا حالانکہ حکومت پاکستان سمیت سب لوگوں نے سیاحوں کے قتل کے سانحے کی مذمت کی لیکن پاکستانی اس وقت ششدر رہ گئے جب پاکستان کی جانب سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی آفر اور ثبوت مانگنے کے جواب میں بھارت نے جنگ کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ سندھ طاس معاہدے کو جلد بازی میں منسوخ کرنے کا اعلان اس کے جنگی عزائم کو واضح کرنے کیلئے ضروری تھا۔ مودی سرکار برملا یہ کہہ رہی ہے کہ جو پانی بھارت میں ہے‘ ہم پاکستان نہیں جانے دیں گے۔ ماضی میں اس قسم کے اعلانات عملی اقدامات تک نہیں پہنچے مگر اب مودی سرکار جوش میں ہوش کھو چکی ہے۔ پہلگام کے بعد جیسے ہی دونوں ملکوں میں کشیدگی کا آغاز ہوا‘ بھارت نے پاکستان کو اشتعال دلانے کیلئے چناب کا پانی بند کر دیا اور بہانہ یہ بنایا کہ ڈیم کی سالانہ صفائی کے بعد اسے بھرا جا رہا ہے‘ حالانکہ اس کیلئے جولائی اگست کا مہینہ چُنا جاتا ہے جب شدید گرمی کے باعث گلیشیرز پگھلنے میں تیزی آتی ہے اور پانی کا بہائو تیز ہوتا ہے۔ اس وقت پانی کا بہائو پہلے ہی کم ہے جبکہ بھارت کی اس حرکت سے چناب کے پانی میں 90ہزار کیوسک تک کی کمی ہو گئی ہے۔ یہ سندھ طاس معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا بھارت طویل المدت تک پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟ فی الحال تو ایسا ممکن نہیں ہے لیکن بہائو میں کمی پاکستان میں زراعت کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے کیونکہ یہ پاکستان میں چاول کی بوائی کا سیزن ہے۔ ایسے میں فصلوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری جانب بھارت نے نئے آبی منصوبوں کی بھی منظوری دے دی ہے اور ان پر کام تیز کر دیا ہے۔ بھارت چار سال سے واٹر کمشنر کی میٹنگ بھی نہیں ہونے دے رہا کیونکہ اس طرح اس کی پانی چوری صاف پکڑی جائے گی۔ یہ بات واضح ہے کہ نہ تو بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل کر سکتا ہے اور نہ ہی اس میں ترامیم کر سکتا ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ سلال ڈیم کے سپل ویز بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ پاکستان کو اس معاملے کو فوری طور پر سلامتی کونسل میں اٹھانا چاہیے تاکہ یہ آبی کشیدگی کسی طویل مدتی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے۔ اس کیساتھ ملک میں نئے آبی ذخیروں پر بھی کام کرنا چاہیے۔ ہمارا قیمتی سرمایہ ضائع ہو کر سمندر برد ہو رہا ہے اور بڑے شہروں میں پانی کا مسئلہ سنگین سے سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ کسان بھی پانی کی قلت سے نقصان برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان صرف 13 سے 15 فیصد پانی ذخیرہ کرتا ہے اور باقی تمام پانی بحیرۂ عرب میں گر جاتا ہے۔ پانی کے ضیاع اور ماحولیاتی تنوع کے سبب صاف پانی کا بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے‘ خاص طور پر کراچی جو ملک کا معاشی حب ہے‘ اس کے شہری صاف پانی کو ترس رہے ہیں اور ٹینکر مافیا کی بلیک میلنگ کا شکار ہیں۔لاہور‘ فیصل آباد اور راولپنڈی میں بھی صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ اسکے باوجود ہمارے ملک میں ڈیمز اور کینالز کے منصوبے سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں جبکہ بھارت اب تک ڈھائی ہزار سے زائد ڈیم مکمل کر چکا ہے۔ پاکستان کی قومی سکیورٹی کیلئے واٹر سکیورٹی بہت اہم ہے۔ فوڈ سکیورٹی اور انسانی بقا بھی اس کیساتھ منسلک ہیں۔ پاکستان میں پانی کے وسیع وسائل ہونے کے باوجود ہم ان کو صحیح طرح استعمال میں نہیں لا سکے۔
پاکستان کا سالانہ فریش واٹر فلو تقریباً145 ملین ایکڑ فٹ ہے اور ہم صرف 13ملین ایکڑ فٹ تک ذخیرہ کرتے ہیں۔ یہ شرح بہت کم ہے‘ اس لیے ضروری ہے کہ ہم پانی کا ذخیرہ بڑھائیں اور اس سے سستی بجلی پیدا کریں جو ہماری صنعتوں‘ کسانوں اور عوام کو ریلیف دے۔ اس وقت بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک طرف پاکستان کے حصے کا پانی چوری کر رہا ہے اور دوسری طرف جب بارشیں ہوتی ہیں تو اضافی پانی پاکستان کی طرف چھوڑ دیتا ہے۔ پاکستان کے پاس چھوٹے بڑے آبی ذخیروں کی ناکافی تعداد کے سبب مون سون کی بارشوں کے ساتھ مل کر یہ پانی سیلاب بن کر عوام پر مسلط ہو جاتا ہے۔ اس وقت ایک بڑے‘ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر جاری ہے جبکہ دریائے سوات پر پشاور سے 37 کلومیٹر شمال کی جانب ضلع مہمند میں مہمند ڈیم بن رہا ہے۔ یہ ڈیم ایک لاکھ 60 ہزار ایکڑ رقبے کو سیراب کرے گا۔ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کے ساتھ ہمیں کالا باغ ڈیم بنانے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے بیشتر منصوبے سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں جبکہ بھارت دھڑا دھڑ اپنے منصوبے مکمل کرتا جا رہا ہے۔ آج وہ ہمارا پانی زیادہ دیر تک نہیں روک سکتا لیکن جس ڈگر پر وہ چل رہا ہے‘ آٹھ دس سال بعد صورتحال بہت حد تک تبدیل ہو چکی ہو گی۔ وہ مزید آبی ذخیرے بنا چکا ہو گا‘ اس لیے ہمیں اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اپنے آبی ذخائر کو محفوظ کرنے کے لیے ہر قدم اٹھانا چاہیے۔
پاکستان کو اسوقت ایک فعال اور جامع واٹر پالیسی اور واٹر مینجمنٹ کی اشد ضرورت ہے۔ جس وقت میں یہ سطور لکھ رہی ہوں‘ رات کی تاریکی میں بزدلی سے بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے اور پاکستان کی شہری آبادی کو ٹارگٹ کیا ہے۔ شہید ہونے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ بھارت کا جنگی جنون اور آبی جارحیت خطے کے امن کو برُی طرح متاثر کر رہی ہے۔ بھارت کے اس بزدلانہ اقدام نے جنگ کے نقارے بجا دیے۔ کیا دو ارب آبادی والا یہ خطہ کسی جنگ کا متحمل ہو سکتا ہے؟ عالمی برادری کو فوری طور پر بھارت کو لگام ڈالنی چاہیے کہ وہ خطے میں تھانیدار بننے کی کوشش نہ کرے۔ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں اور اپنا دفاع کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ جس طرح ہماری فضائیہ نے بھارتی طیارے تباہ کیے ہیں‘ جن میں فرانسیسی ساختہ رافیل بھی شامل ہیں‘ اس میں بھارت کیلئے بڑا سبق ہے کہ وہ پاکستان پر میلی نظر ڈالے گا تو دندان شکن جواب پائے گا۔ جیسے ہمارے شاہینوں نے ان کو دھول چٹائی ہے ویسے ہی ہمیں سفارتی جدوجہد بھی تیز کرنا ہوگی۔ اس ضمن میں اوورسیز پاکستانی بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔