نور کو انصاف ملا !

پاکستان میں جہاں ایک بڑا طبقہ خواتین کا بہت احترام کرتا ہے‘ وہیں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو خواتین کے استحصال کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا۔ جہاں معاشرے میں ایسے والد موجود ہیں جو بیٹیوں کی پیدائش پر خوشیاں مناتے ہیں‘ انکی تمام خواہشات پوری کرتے ہیں‘ انکی تعلیم‘ کھانے پینے اور ضروریات کا خیال رکھتے ہیں‘ انہیں کیریئر اور پسند کی شادی کا بھی اختیار دیتے ہیں‘ وہیں دوسری طرف ایسے والد بھی ہیں جو اپنی بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں‘ ان سے نفرت کرتے اور ان کی ہر خواہش کا گلا گھونٹنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اسی معاشرے میں جہاں ایسے بھائی ہیں جو اپنی بہنوں کی تعلیم‘ شادی اور جہیز کی وجہ سے خود شادی نہیں کرتے اور بہنوں کو اپنے گھروں میں آباد کرنے کے بعد بھی ان کی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہوتے‘ وہیں دوسری طرف کچھ ایسے بدبخت بھی ہیں جو اپنی بہنوں کا شرعی وراثتی حق کھا جاتے ہیں‘ کچھ ان کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کر دیتے ہیں۔
میں سمجھتی ہوں کہ بچے بچیوں کو جلدی رشتہ ازدواج میں باندھ دینا چاہیے تاکہ وہ کسی برے شخص کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ لڑکیاں معصوم ہوتی ہیں‘ وہ چکنی باتوں کو سمجھ نہیں پاتیں۔ وہ اچھے گھرانے میں شادی کی خواہشمند ہوتی ہیں لیکن کچھ لڑکے ان کو یہ کہہ کر 'ریلیشن شپ‘ میں آنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ پہلے ایک دوسرے کو جان لیں‘ پھر شادی کا فیصلہ کریں گے۔ اس طرح لڑکی کا استحصال شروع ہو تا ہے۔ وہ سمجھ رہی ہوتی ہے کہ اس تعلق کا انجام شادی ہوگا جبکہ لڑکے بعد میں لڑکی کو دھوکا دے کر کسی اور سے شادی کر لیتے ہیں۔ جس لڑکی نے دھوکا کھایا ہو‘ اس کو مدت لگ جاتی ہے اس بیوفائی اور دکھ سے باہر آنے میں۔ کچھ ڈپریشن میں چلی جاتی ہیں تو کچھ خودکشی تک کر لیتی ہیں۔ کچھ باہمت ہوتی ہیں جو اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاتی ہیں لیکن پھر وہ مرد کے نام سے بھی دور بھاگنے لگتی ہیں۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ بچوں پر یہ نظر بھی رکھیں کہ کوئی ان کے جذبات سے کھیل تو نہیں رہا۔ ان کو اچھے برے میں فرق کرنا سکھائیں۔ ہمارے معاشرے میں کچھ لڑکیاں شادی کے نام پر سنگسار کر دی جاتی ہیں۔ والدین یہ کہہ کر انہیں گھر سے رخصت کرتے ہیں کہ اب وہاں سے تمہاری لاش ہی آئے گی اور اکثر کیسوں میں پھر لڑکی کی لاش ہی واپس آتی ہے۔ کبھی چولہا پھٹ جاتا ہے‘ کبھی کرنٹ لگ جاتا ہے‘ کبھی خودکشی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ لڑکی چپ چاپ سسرال کے مظالم سہتی رہتی ہے اور کسی کو کچھ بتا بھی نہیں پاتی۔ بیوی اور بہو کو ایک نوکرانی بنا دیا جاتا ہے۔ کاموں کی زیادتی اور زچگی کے مراحل میں کچھ جان سے چلی جاتی ہیں۔ اس میں معاشرہ بھی قصوروار ہے جو عورت کو صبر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ خاموشی ظلم کرنے والے کو شیر بنا دیتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ والدین اپنی بیٹیوں پر ظلم وزیادتی کو کسی صورت برداشت نہیں کرتے۔ وہ جب انہیں رشتہ ازدواج میں منسلک کرتے ہیں تو ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر تمہارے ساتھ کوئی ظلم وزیادتی ہو تو چپ مت رہنا اور واپس آ جانا۔ اس گھر کے دروازے تمہارے لیے ہمیشہ کھلے ہیں۔
ازدواجی زندگی میں اگر ایک بار شک‘ مار پیٹ اور ظلم کا سلسلہ شروع ہو جائے تو پھر یہ رکتا نہیں۔ کئی لوگ اپنے بگڑے ہوئے بچوں کا اس لیے بھی رشتہ کر دیتے ہیں کہ جب بیوی بچے کی ذمہ داری سر پر پڑے گی تو خود ہی ٹھیک ہو جائے گا مگر ایسا نہیں ہوتا۔ بیوی بچے کوئی ری ہیب سنٹر نہیں ہیں۔ اگر کوئی شخص شادی سے پہلے بری عادتوں میں پڑ چکا ہے تو ایک نوجوان لڑکی یا شیرخوار بچہ اس کو کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں؟ اس لیے رشتہ کرتے وقت حسب نسب کے ساتھ بچوں کے طور اطوار بھی دیکھیں۔ خواتین اور بچوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے‘ مشاغل کیا ہیں اور کیا لڑکا صوم وصلوٰۃ کا پابند ہے۔ ایسے معاملات کو قسمت پر مت چھوڑ دیا کریں۔ بہنیں بیٹیاں کوئی تجربہ گاہ نہیں جو کسی کے بگڑے بچے کو ٹھیک کر دیں گی۔ آپ کو حیدر آباد کی عینی یاد ہے؟ اس کو نشے میں دھت اس کے شوہر نے بچوں کے سامنے قتل کر دیا تھا۔ قرۃ العین عرف عینی چار بچوں کی ماں تھی۔ ایک خوبصورت لڑکی‘ جس کی زندگی کو گھریلو تشدد نگل گیا۔ پھر اسلام آباد کی سارہ انعام‘ جس نے بظاہر ایک پڑھے لکھے اور امیر شخص سے شادی کی۔ وہ خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خود مختار تھی لیکن اس کو یہ نہیں پتا تھاکہ یہ شادی اس کو موت کی کھائی میں دھکیل دے گی۔ مشہور ماڈل قندیل بلوچ کو دیکھ لیں۔ وہ کماتی تھی تو اس کے گھر کا خرچہ چلتا تھا لیکن اس کے بھائی ہی نے اس کو قتل کر دیا۔ زیادہ تر خواتین کو اپنے شوہر‘ بھائی یا باپ کی طرف سے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر وہ چپ رہتی ہیں تو اس کا نتیجہ موت نکلتا ہے۔ نور مقدم کا کیس بھی جرم کی ایک ایسی داستان ہے جس نے ہر شخص کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں ایک نوجوان لڑکی نور مقدم کو قتل کر دیا گیا۔ یہ قتل کی واردات اتنی خوفناک تھی کہ لڑکی کا سر کاٹ کر دھڑ سے الگ کر دیا گیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ نور کو حبس بے جا میں رکھا گیا تھا۔ اس نے اس قید سے نکلنے کی بہت کوشش کی مگر مجرم ظاہر اور اس کے نوکروں نے یہ کوششیں ناکام بنا دیں۔ 20 جولائی 2021ء کو عید الاضحی سے ایک دن پہلے یہ بہیمانہ قتل ہوا اور اسی روز آلہ قتل کے ساتھ مجرم کی گرفتاری عمل میں آ گئی۔ پورے ملک میں ''جسٹس فار نور‘‘ ٹرینڈ کرنے لگا۔ لوگوں نے دعائیہ تقریبات منعقد کی اور نور کی یاد میں شمعیں روشن کیں۔
ابتدا میں بارہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا‘ جس میں مرکزی ملزم کے والدین‘ گھر کے ملازم اور گھر میں قائم تھراپی سنٹر کے ملازمین بھی شامل تھے۔ بعد ازاں دیگر لوگوں کو ضمانتیں مل گئیں اور صرف مرکزی مجرم اور گھر کے ملازم رہ گئے۔ اس دوران مجرم نے امریکی شہری ہونے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور خود کو پاگل ثابت کرنے کی بھی کوشش کی‘ تاہم یہ حربے اس کے کام نہیں آئے۔ دوسری طرف نور مقدم کی کردار کشی شروع ہو گئی۔ یہ امر اتنا افسوسناک تھا کہ مجھ سمیت بہت سے لوگ اس پر سخت رنجیدہ ہوئے۔ نور کے والدین نے بہت بہادری سے اس کیس کو لڑا اور آخرکار اپنی بیٹی کو انصاف دلانے میں کامیاب ہو گئے۔ آج صرف نور فاتح نہیں ہے بلکہ وہ تمام لڑکیاں‘ وہ تمام خواتین بھی فاتح ہیں جو ظلم کا شکار ہوئیں اور اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ڈٹ گئیں۔ کتنی ہی خواتین نے جب یہ فیصلہ سنا ہوگا کہ ایک بااثر امیر شخص کو سزا سنا دی گئی تو ان میں ہمت آئی ہوگی کہ وہ خود کی طرف بڑھنے والے ہاتھ کو روکیں۔
ظاہر ہے مجرم کا تعلق ایک بااثر اور امیر خاندان سے ہے تو اس کو بچانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن غمگین مگر باہمت ماں باپ اور انصاف جیت گیا۔ تمام تر مشکلات کے باوجود نور کے والد اس کیلئے ڈٹ گئے۔ میری ان سے ایک ایوارڈ فنکشن میں ملاقات ہوئی۔ شوکت مقدم اور ان کی اہلیہ بہت باوقار اور صابر ہیں۔ ان کی اہلیہ مجھے دیکھ کر رو پڑیں اور میری بھی آنکھیں بھر آئیں۔ ہم ایک دوسرے کو ہمت دیتے رہے۔ مجھے یقین تھا کہ ہم سب نور کیلئے انصاف کی یہ جنگ جیت جائیں گے۔ اگر اس کے والدین اتنی ہمت نہ دکھاتے تو یہ کیس جیتنا ممکن نہ تھا۔ اس جیت کا سہرا مرحومہ نور کے والدین کے سر ہے۔
ہمیں معاشرے میں خواتین کو تحفظ دینا ہوگا۔ گھریلو تشدد کے خلاف آواز اٹھائیں اور اس کو روکیں۔ اگر کوئی خاتون ہمت کرکے اپنی داستان بیان کرے تو الٹا اس پر سوال اٹھانے یا اس کی کردار کشی کرنے کے بجائے اس کی مدد کریں تاکہ خواتین پر ظلم کے سلسلے کو روکا جا سکے۔ ریاست جب تک ایسے کیسوں میں خود مدعی نہیں بنے گی یہ معاملات ایسے ہی رہیں گے۔ اکثر مدعی خاندان پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ مجرم کو معاف کر دیں لہٰذا ایسے کیسوں میں ریاست کو مدعی بن کر ان کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اس لیے قاتل کو خون بہا یا دیت دے کر آزاد نہیں گھومنا چاہیے۔ اس کو ہر صورت اپنے کیے کی سزا ملنی چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں