زندگی میں کچھ سانحات ایسے ہوتے ہیں کہ جو آپ کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ سانحۂ اے پی ایس پشاور بھی ایسا ہی ایک سانحہ تھا جس نے دردِ دل رکھنے والے افراد کو بہت رنجیدہ کیا۔ تب پاکستانی ماؤں کی گود اُجڑی تھی‘ کوئی ایسی آنکھ نہیں تھی جو اشکبار نہیں ہوئی تھی۔ ہماری قوم کے بچوں کا ایک خوبصورت گلدستہ‘ جس نے جوان ہو کر ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا تھا‘ وہ کم عمری میں ہی ملک پر قربان ہو گیا۔ تب ایک شہید بچے کی والدہ نے مجھے کہا تھا کہ اگر میرے اور بھی بیٹے ہوتے تو میں انہیں بھی مادرِ وطن پر قربان کر دیتی۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ یہ ماں کہاں سے ایسا فولاد کا جگرا لائی ہے۔ ماں اپنی اولاد کے بنا جی نہیں پاتی‘ یہی حال والد کا بھی ہوتا ہے۔ اس سانحے کے بعد کتنے ہی والدین دنیا کے دکھوں کا بوجھ لیے ابدی سفر پر روانہ ہو گئے۔ اولاد کی قربانی بہت بڑی قربانی ہوتی ہے۔ افسوس کہ ہمارا پالا ایسے بزدل دشمن سے پڑا ہے جو ہمارے بچوں پر وار کرتا ہے۔ کیا جنگ میں کبھی بچے بھی ٹارگٹ ہوتے ہیں؟ کبھی نہیں! مگر ہمارا ایک ایسے کم ظرف دشمن سے پالا پڑا ہے جس کا ٹارگٹ ہمارے بچے ہیں۔ بزدل دشمن ہمارے بچوں کو نشانہ بنا کر ہماری نئی نسل کو خوفزدہ کرنا چاہتا ہے‘ ہم سے ہمارے روشن مستقبل کی امید چھیننا چاہتا ہے‘ لیکن وہ کبھی اپنے ان مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
چند روز قبل جب خضدار سے یہ خبر آئی کہ سکول بس پر حملہ ہوا ہے تو میں سولہ دسمبر 2014ء کی اُس سرد صبح کی طرف لوٹ گئی جب پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کی خبریں آنا شروع ہوئی تھیں۔ سکول بس پر حملے کے بعد بزدل دشمن یہ کہتا رہا کہ دیکھو ہم نے پاکستانی آرمی پر حملہ کیا ہے‘ جبکہ بس میں تو سکول جانے والے بچے سوار تھے۔ 2014ء میں بھی ماؤں نے بچوں کو محاذِ جنگ پر نہیں بھیجا تھا بلکہ ان کا سکول ہی میدانِ جنگ بن گیا تھا۔ پورا پاکستان سوگ میں تھا کہ بچوں کو کون نشانہ بناتا ہے۔ دشمنی‘ جنگوں اور لڑائیوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں مگر اس حملے کا مقصد پاکستانی عوام اور مسلح افواج کو ضرب لگانا تھا۔ ہر کوئی شدید رنج و غم میں تھا۔ یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ اس حملے میں 12اساتذہ‘ 10کالج سٹاف کے ممبران اور 122طالب علم لقمۂ اجل بن گئے‘ اور پاک آرمی کے تین اہلکار بھی اس سانحے میں شہید ہوئے جن میں سے دو میڈیکل کور سے تعلق رکھتے تھے جو بچوں کو سکول میں ابتدائی طبی امداد کا طریقہ سکھا رہے تھے۔ یہاں پر میں لانس نائیک محمد الطاف شہید‘ تمغۂ جرأت کے بارے میں بتاتی چلوں کہ وہ آف ڈیوٹی تھے لیکن فائرنگ کی آواز سن کر وہ نہتے ہی سکول کی طرف دوڑ پڑے۔ بچوں اور اساتذہ کو بچانے کی کوشش میں وہ دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے اور جامِ شہادت نوش کیا۔
اس سانحے نے ان تمام افراد کی زندگی بدل دی جو اس سے براہِ راست متاثر ہوئے۔ مائیں روتی رہیں اور باپ سسکتے رہے۔ کوئی بھی ان کیلئے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ ہم کتنے بھی دلاسے دیں‘ کسی کا مرنے والا عزیز واپس نہیں آ سکتا۔ اس سانحے میں کچھ ایسے بھی خاندان تھے جنہوں نے اپنے دو‘ دو بیٹے ہمیشہ کیلئے کھو دیے۔ پندرہ سالہ شموئیل طارق اور تیرہ سالہ ننگیال طارق‘ نور اللہ درانی اور سیف اللہ درانی‘ سید عبداللہ اور سید حسنین‘ ذیشان احمد اور اویس احمد‘ یہ سگے بھائی تھے جو اس سانحے میں شہید ہوئے۔ اسی طرح اس واقعے میں شہید ہونے والے اساتذہ کے بچوں کی بھی درد بھری کہانیاں ہیں۔ افواجِ پاکستان نے اس موقع پر جہاں متاثرین کی داد رسی کی وہیں دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے آپریشن ضرب عضب کو مزید تیز کر دیا جس کے تحت سینکڑوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ میں نے اس سانحے پر 2015ء میں ایک کتاب لکھی تھی اور اس کتاب میں تمام شہدا کی یادیں یکجا کرکے شہدا کے لواحقین کو ایک تحفہ دیا۔ میں بس ان کیلئے دعا کر سکتی تھی یا ان کی یادیں اکٹھی کر سکتی تھی‘ سو میں نے وہ کیا۔ ضربِ عضب کے بعد ملک میں امن لوٹ آیا‘ تاہم وہ جن کے پیارے اس سانحے میں دنیا سے چلے گئے تھے‘ وہ لوٹ کر نہیں آئے۔ اس سانحے کے تمام حقائق سامنے لانے کیلئے شہید بچوں کے والدین آج تک سپریم کورٹ کے چکر لگا رہے ہیں۔
چند روز قبل بلوچستان کے علاقے خضدار میں جو حملہ ہوا وہ بھی اسی طرز کا تھا‘ جس میں ہمارے بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ سکول بس معمول کے مطابق بچوں کو پِک کر رہی تھی کہ اچانک بی ایل اے کے دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی اس بس سے ٹکرا دی۔ یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ اس گاڑی اور بس دونوں کے پرخچے اُڑگئے۔ دس افراد نے اس سانحے میں جام شہادت نوش کیا‘جن میں سات طالبات اور ایک طالبعلم شامل ہیں۔ میں نے انسٹاگرام پر حمزہ شفقات کی پوسٹ دیکھی‘ وہ کمشنر کوئٹہ ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ یہ سانحہ بہت دلخراش تھا اور اس کا نشانہ بننے والے بچے دس سال کی عمر سے بھی کم ہیں۔ کوئی بچہ جھلس گیا‘ کسی کی بینائی چلی گئی تو کسی کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ دھماکا اتنا شدید تھا کہ سکول بس کی چھت اُڑ گئی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دھماکے کی نوعیت کیا ہو گی۔ بہت سے بچے شدید زخمی حالت میں زیر علاج ہیں۔ میری دعا ہے کہ یہ سب بچے جلد صحت یاب ہوں۔ حکومت کو زخمیوں کی مکمل سرپرستی کرنی چاہیے اور ان کے علاج کے مکمل اخراجات برداشت کرنے چاہئیں۔ اس سانحے میں جو بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر شہید ہوئے ہیں‘ ان کے خاندانوں کی مکمل کفالت کی جائے۔ اسی طرح سیاسی قائدین کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اس سانحے کے متاثرہ افراد کو ملیں‘ انہیں دلاسا دیں۔ بی ایل اے کی ان کارروائیوں کے پیچھے مکمل طور پر بھارت کا ہاتھ ہے۔ حکومت اپنے شہید بچوں کی تصاویر دنیا کو دکھائے اور بھارت کا جھوٹا اور مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرے۔ بی ایل اے دشمن ملک کے ایما پر ہمارے بچوں کو نشانہ بنا رہی ہے‘ ہم اسے ہرگز معاف نہیں کریں گے۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایک اور آپریشن کی ضرورت ہے۔ مگر بلوچستان میں موجود سماجی کارکنان اور سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر اس معاملے کو طے کیا جائے۔ یہ امن و امان اور قومی یکجہتی کیلئے بہت ضروری ہے۔ دہشت گردوں اور سیاستدانوں میں بہت فرق ہوتا ہے‘ ناراض بہن بھائیوں کو منا کر قومی دھارے میں واپس لائیں۔
جن والدین نے اپنے بچے حالیہ بھارتی حملے اور خضدار واقعہ میں کھوئے ہیں‘ انہیں میں بس یہی کہوں گی کہ آپ کا غم بہت بڑا ہے‘ میرے پاس وہ الفاظ نہیں جو آپ کے زخموں کا مداوا کر سکیں۔ ہمارا دین ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ قیمتی چیز پر مومن کو آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں۔ ہم سب تو بہت عام انسان ہیں‘ اگر اللہ نے ہمیں آزمائش کیلئے چن لیا ہے تو اس میں اس کی ضرور کوئی مصلحت ہے۔ جن والدین نے اپنے بچے کھوئے ہیں وہ یہ سوچ کر اللہ سے صبر مانگیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام جیسی بزرگ و نیک ہستیوں پر بھی آزمائش آئی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی مانگی گئی‘ جس پر وہ فوراً تیار ہو گئے۔ حضرت یعقوب اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہما السلام کی جدائی میں اتنا روئے کہ ان کی بینائی چلی گئی۔ ہمارے نبی کریم حضرت محمدﷺ نے بھی اولاد کا غم دیکھا‘ ان کی بیشتر اولاد آپﷺ کی حیات ہی میں وفات پا گئی۔ آپﷺ کی تسکین کیلئے سورۃ الکوثر نازل ہوئی۔ جب انبیاء کرام اولاد کی آزمائش سے محفوظ نہیں رہے تو ہم تو بہت عام انسان ہیں۔ بس ایک دوسرے کیلئے یہ دعا کر سکتے ہیں کہ صبر کا دامن تھامے رکھیں اور اس آزمائش پر پورا اتریں۔ پاکستانی قوم بہت بہادر اور غیور ہے۔ پہلے بھی دہشت گردی کو حوصلے اور عزم کے ساتھ شکست دی اور اب بھی ہمارے حوصلے بہت بلند ہیں۔ اس مشکل گھڑی میں سب شہدا کے لواحقین کے ساتھ کھڑے ہوں۔ دعا ہے کہ ہمارے ملک سے دہشت گردی کا جلد از جلدمکمل خاتمہ ہو جائے اور ہمارا مزید کوئی بچہ دہشت گردی کا نشانہ نہ بنے۔