سانحات کے دوران دم توڑتی انسانیت

کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ پاکستان میں نہ جینا آسان ہے نہ مرنا آسان ہے۔ ملک میں انصاف کا نظام سست روی کا شکار ہے۔ لوگ دھڑلے سے ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں اور کردار کشی‘ بہتان تراشی سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔ زندہ تو زندہ‘ مر جانے کے بعد بھی لوگوں کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں انسانوں کو صرف طبعی موت مرنا چاہیے کیونکہ اگر انکی موت غیر طبعی ہو گی تو انکے کردار پر انگلی اٹھائی جا سکتی ہے‘ اور وہ اپنا جواب دینے کیلئے زندہ بھی نہیں ہوں گے۔ طبعی موت پر بھی مگر لوگ کہاں چپ رہتے ہیں۔ کوئی ہارٹ اٹیک سے مر جائے تو کہا جاتا ہے نشہ زیادہ کر لیا ہوگا۔ کوئی گھر میں اکیلا فوت ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ اچھے کردار کا نہیں تھا‘ اس لیے کوئی نہیں ملتا تھا۔ معاشرے کو دوسروں کے کردار کا ضرور پتا ہوتا ہے لیکن اپنے اردگرد ضروریات‘ مجبوریوں‘ بھوک‘ افلاس‘ بیماریوں اور تنہائی سے الجھتے افراد سے کوئی واقف نہیں ہوتا۔ لوگ مدد‘ محبت اور ہمدردی کیلئے ترس جاتے ہیں لیکن کوئی ان کی مدد نہیں کرتا۔ کچھ لوگوں کو مالی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ کو صرف الفاظ کا سہارا چاہیے ہوتا ہے۔ بطور معاشرہ ہم باتیں کرنا تو جانتے ہیں لیکن عملی قدم اٹھانے سے گھبراتے ہیں۔
گزشتہ ماہ معروف سینئر اداکارہ عائشہ خان کی لاش انکے گھر سے ملی‘ ان کو فوت ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا تھا لیکن کسی کو معلوم نہیں ہو سکا۔ جب جسم ڈی کمپوز ہونا شروع ہوا تو محلہ داروں کو خبر ہوئی۔ وہ معروف اداکارہ خالدہ ریاست کی بڑی بہن تھیں۔ ان کے بچے بھی تھے لیکن وہ تنہا رہنا پسند کرتی تھیں۔ مگر کیسے ایک ہفتہ کسی نے ان سے رابطہ نہیں کیا؟ آج کل تو وَٹس ایپ پر فیملی گروپس بنے ہوتے ہیں‘ گلی محلے والوں نے بھی وٹس ایپ گروپ بنا رکھے ہیں کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہیں اور خاندان اور گلی محلے کا نظم وضبط برقرار رہے۔ ان گروپس میں گپ شپ ہوتی ہے‘ باتیں شیئر ہوتی ہیں۔ ایسا کیسے ہوا کہ کسی نے ان کو کوئی میسج نہیں بھیجا۔ دردِ دل رکھنے والے لوگ اس تنہائی کی موت پر افسوس کرنے لگ گئے۔کچھ شوبز انڈسٹری پر تنقید کرنے لگے کہ وہاں لوگ مطلبی اور خود غرض ہیں‘ ایک دوسرے سے صرف اپنے مفاد کے تحت میل جول رکھا جاتا ہے۔ بزرگ اداکاروں کا خیال نہیں رکھا جاتا اور اگر کوئی غربت کا شکار ہو جائے تو اس کی مدد نہیں کی جاتی۔ کوئی ایسی اتھارٹی نہیں جس سے رابطہ کرکے فنکار مالی مدد لے سکیں۔ رپورٹرز اور یوٹیوبرز ایسے واقعات پر اپنے اپنے انداز سے رپورٹنگ کرنے لگتے ہیں۔ رہی سہی کسر 'تھمب نیلز‘ سے پوری ہو جاتی ہے۔ کسی بھی سانحے کے بعد گمراہ کن باتیں معاملے کو مزید الجھا دیتی ہیں۔ میڈیا اور اخبارات پر تو کچھ چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے‘ ایڈیٹرز خبر کی نوک پلک سنوار دیتے ہیں‘ ایسی کوئی چیز نشر یا شائع نہیں ہونے دیتے جس سے اشتعال انگیزی یا نفرت پھیلنے کا خدشہ ہو‘ لیکن سوشل میڈیا تو آزاد ہے۔ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
عائشہ خان کی نعش کو سرد خانے منتقل کیا گیا اور پھر خاموشی سے ان کی تدفین کر دی گئی۔ اللہ تعالیٰ ان کے مغفرت کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ میڈیا انڈسٹری سے شاید ہی کوئی ان کے جنازے میں آیا ہو۔ اس واقعے کے تین ہفتوں بعد اسی قسم کا ایک اور سانحہ سامنے آ گیا۔ کیا کراچی اتنا بڑا شہر بن گیا ہے کہ دیوار سے جڑی دیوار کے مکینوں کو ایک دوسرے کا حال معلوم نہیں؟ جواں سالہ فنکارہ آنکھوں میں بہت سے خواب لیے لاہور سے کراچی گئی تھی۔ وہ شوبز ستاروں کی کہکشاں میں چمکنا چاہتی تھی۔ نام تھا حمیرا اصغر‘ ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق اور بہت ہی دردِ دل رکھنے والی لڑکی‘ جو غریبوں‘ بیماروں اور یتیموں کی داد رسی کرتی تھی۔ معلوم نہیں کہ ایسا کیا ہوا کہ وہ اپنے فلیٹ میں اکیلے دم توڑ گئی۔ وہ گری کیوں‘ اس کو کوئی بیماری تھی یا اچانک ہارٹ فیل ہو گیا‘ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ اس کے فلیٹ کی بجلی‘ کیبل سب کٹ چکے تھے۔ گزشتہ سال اکتوبر سے اس کا فون آف تھا۔ مالک مکان نے کرائے کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اس پر مقدمہ کر دیا مگر کسی کو پتا نہیں چلا کہ وہ دنیا سے جا چکی ہے۔ جب عدالتی بیلف ٹیم وہاں گھر خالی کرانے پہنچی تو معلوم ہوا کہ اداکارہ تو مہینوں پہلے دم توڑ چکی۔ جب پولیس اہلکار اس کی میت کو لینے پہنچے تو نعش‘ جو اس حد تک ڈی کمپوز ہو چکی تھی کہ بالکل شناخت کے قابل نہیں تھی‘ اس دوران ایک اہلکار نے وڈیو ریکارڈ کرنا شروع کر دی۔ تمام انسانوں نے مرنے کے بعد مٹی میں ایسے ہی مل جانا ہے مگر اس اہلکار کی سفاکی دیکھیں کہ اس کو معاملے کی حساسیت کا کچھ علم نہیں تھا۔ پان‘ گٹکا کھاتے ہوئے مرحومہ کا چہرہ اور ہاتھ‘ پائوں فوکس کرکے سب کچھ ریکارڈ کیا گیا اور پھر یہ وڈیو حسبِ منشا تھمب نیلز اور کیپشن کے ساتھ ٹویٹر‘ فیس بک‘ یوٹیوب اور وٹس ایپ پر شیئر ہونے لگی۔ کوئی مہذب معاشرہ ہوتا تو اس اہلکار کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا اور اسے معطل کر دیا جاتا لیکن پاکستان میں زندہ کی کوئی عزت نہیں تو میت کو کون احترام دے گا۔
کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اس کے بعد اداکارہ کے اہلِ خانہ کے خلاف مہم شروع ہو گئی۔ اس معاملے کو لے کر مختلف کہانیاں گھڑی گئیں۔ جو لوگ حمیرا کو جانتے تھے‘ وہ کہتے ہیں کہ وہ بہت نفیس اور خدا ترس انسان تھی۔ معذور بچوں اور خصوصی افراد کے سنٹرز میں جایا کرتی اور ان کی خدمت کرتی تھی۔ سوشل میڈیا پر اداکارہ کی ہر ممکن کردار کشی کی گئی۔ یوٹیوب پر جھوٹی کہانیوں سے ڈالرز اور فالوورز کمائے گئے۔ جب اس کے اہل خانہ مل گئے تو اس کے بھائی‘ والد اور چچا پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ اس کے جنازے اور تدفین کے دوران بھی میڈیا قابض رہا اور رپورٹرز‘ یوٹیوبرز کی بڑی تعداد تدفین کے سارے عمل کو ریکارڈ کرتی رہی۔ اسلامی روایات کے مطابق جب کسی شخص کو دفنایا جاتا ہے تو اس کے ایصال ثواب کیلئے دعا کی جاتی ہے۔ تدفین کے بعد میت کے لیے منکر نکیر کے سوالات کے جواب میں ثابت قدمی اور مغفرت کی دعا کی جاتی ہے۔ حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ میت کی تدفین کے بعد کچھ دیر ٹھہرتے اور فرماتے: اپنے بھائی کے لیے دعائے مغفرت کرو اور اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے منکر نکیر کے سوالات کے جواب میں ثابت قدمی کا سوال کرو کیونکہ اب اس سے سوال کیا جائے گا۔ (سنن ابو دائود) تاہم جب حمیرا کو دفنایا گیا تو بجائے وہاں دعا ہوتی‘ مرحومہ کی قبر کو یوٹیوبرز نے گھیرے میں لے لیا اور اپنے اپنے ڈھنگ سے رپورٹنگ شروع کر دی۔ نجانے کن مسائل کا سامنا کرتے ہوئے وہ دنیا سے رخصت ہوئی‘ کسی نے مہینوں اس کی خبر نہیں لی‘ لاش بوسیدہ ہو گئی مگر اسے مٹی نہیں ملی۔ جیسے ہی اس کی موت کی خبر آئی‘ سب نے ریٹنگ کی خاطر اس کے جسدِ خاکی اور نجی زندگی کا تعاقب شروع کر دیا۔ کیا کوئی ضابطہ اخلاق نہیں بنایا جا سکتا کہ کسی لاش کی تصاویر اَپ لوڈ نہیں ہوں گی‘ جائے وقوعہ کی تصویریں یوں سوشل میڈیا پر شیئر نہیں ہوں گی۔ کسی بھی سانحے؍ حادثے کے بعد متاثرین کا ایڈریس‘ فون نمبر پبلک نہیں کیا جائے گا۔ کسی سانحے پر کہانیاں نہیں گھڑی جائیں گی اور گمراہ کن کیپشن سے گریز کیا جائے گا۔
جب کسی کے جنازے‘ تدفین میں جائیں تو مذہبی رسومات اور آداب کا خیال رکھیں‘ صرف ریٹنگ کے لیے کام نہ کریں۔ کوئی اداکارہ کی قبر پر کھڑا ہو کر انٹرویو کر رہا تھا‘ کوئی فوٹیج بنا رہا تھا‘ کوئی رپورٹنگ کر رہا تھا لیکن دعا کرنے والا کوئی نظر نہیں آیا۔ وہ شوبز انڈسٹری‘ جو حمیرا کی وفات پر بڑے بڑے سٹیٹس پوسٹ کر رہی اور سٹوریز لگا رہی تھی‘ ان میں سے کسی نے بھی جنازے میں شرکت نہیں کی۔ حنا خواجہ بیات پاکستان کی انڈسٹری کا بڑا نام ہیں‘ انہوں نے عائشہ خان اور حمیر اصغر کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کیا اور ایصالِ ثواب کے لیے خود دعا کرائی۔ مگر ایسے لوگ معاشرے میں کم ہیں۔ زیادہ تر بس چند سطریں لکھ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں