"KMK" (space) message & send to 7575

آئین کا آرٹیکل پندرہ پچیس چھبیس اور ساڑھے پانچ

گزشتہ دو دن تکلیف دہ تھے البتہ گزشتہ رات بڑی آرام دہ تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دن کی تکلیف اور رات کی راحت کا ایک ہی سبب تھا۔ ملتان میں وی آئی پی آئے ہوئے تھے۔ ایک چھوڑ تین تین وی آئی پیز۔ وضاحت کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی حوصلہ۔ بس پاکستان میں وی آئی پی‘ وی آئی پی ہوتا ہے اور باقی لوگ مثل کیڑے مکوڑے۔ آئین کے آرٹیکل آٹھ تا اٹھائیس بنیادی حقوق کے متعلق ہیں مگر یہ حقوق صرف آئین کے صفحات تک تو بالکل ٹھیک، عام آدمی کی زندگی میں ان اکیس آرٹیکلز کا کوئی عمل دخل نظر نہیں آتا۔ 
پرسوں شام میں گھر سے نکلا۔ زکریا ٹائون کی مین سٹریٹ سے جب بوسن روڈ پر چڑھ کر دائیں طرف گاڑی موڑنے کا اشارہ لگایا تو ایک ٹریفک سارجنٹ نے اپنی بھاری بھر کم موٹر سائیکل میری گاڑی کے آگے لگا دی اور اپنی موٹر سائیکل پر لگے ہوئے لائوڈ سپیکر سے اعلان کیا کہ دائیں مڑنا منع ہے؛ البتہ بائیں طرف جایا جا سکتا ہے،اس نے مجھے بھی ہاتھ ہلا کر بائیں طرف جانے کا اشارہ کیا۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھے دائیں طرف جانا ہے، اس نے میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال آپ بائیں طرف جائیں۔ میں نے کہا مجھے بائیں طرف کوئی کام نہیں، مجھے دائیں طرف جانا ہے۔ اس نے مجھ سے بحث فضول سمجھی‘ موٹر سائیکل میری گاڑی کے بونٹ سے جوڑکر سٹینڈ پر لگایا اور خود سڑک پرگزرنے والی ٹریفک کو اپنا ہاتھ تیزی سے ہلاتے ہوئے''سپیڈو سپیڈ‘‘گزرنے کا اشارہ کرنا شروع کردیا۔ میں نے دیکھا کہ بوسن روڈ پر میرے سامنے ڈیوائیڈر میں موجود کٹ کے پار زکریا ٹائون میں داخل ہونے والی گاڑیوں کی ایک لمبی قطارکو ایک اور ٹریفک وارڈن نے روک رکھا تھا۔ اس نے دوسری جانب اپنی موٹر سائیکل اسی پوزیشن میں لگا رکھی تھی۔ اسی اثنا میں میرے پیچھے گاڑیوں کی ایک لمبی قطار لگ گئی جس کی وجہ سے زکریا ٹائون میں داخلے کا راستہ بالکل بند ہوگیا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ بوسن روڈ پر یونیورسٹی سے شہرکی جانب آنے والی ٹریفک،جس نے زکریا ٹائون جانا تھا بوسن روڈ پر جمع ہونا شروع ہو گئی۔ چند منٹ کے بعد ہی ہر طرف مکمل ''پھس پھسا‘‘ یعنی ٹریفک جام کی صورت حال پیدا ہو گئی۔ میں نے گاڑی سے نکل کر ٹریفک وارڈن سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ اس نے میری طرف دیکھے بغیر جواب دیا: وی آئی پی موومنٹ ہے۔ 
چند منٹ کے بعد دو موٹر سائیکل‘ پھر ایک نیلی اور لال جگمگاتی بتی والی جیپ‘ پھر پولیس کے دو ڈالے‘ پھر ایک سیاہ کار‘ پھر تین ڈالے‘ پھر ایک ایمبولینس اور آخر میں ایک فائر بریگیڈ کی گاڑی گزری۔ جونہی یہ گاڑی گزری‘ وی آئی پی موٹرکیڈ ختم ہوا۔ دونوں طرف ٹریفک کو روکنے والے ٹریفک وارڈنز سلف سٹارٹ موٹر سائیکلوں پر لپک کر بیٹھے، موٹر سائیکلیں سٹارٹ کیں اور یہ جا وہ جا۔ ان کے روانہ ہوتے ہی دونوں طرف سے ٹریفک کا سیلاب امڈا اور سب کچھ آپس میں اس طرح گڈمڈ ہوا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس نے کس طرف جانا ہے۔ آدھے گھنٹے کی جدوجہد کے بعد جب ہمیں راستہ ملا تو اندازہ لگایا کہ وی آئی پی کو اپنے گھر پہنچے بیس پچیس منٹ ہو چکے ہوں گے۔ 
میں رات دیر سے گھر آیا، قریب بارہ بجے۔ آ کر سو گیا؛ تاہم ارادہ کیا کہ صبح کسی وکیل کو مل کر پوچھتے ہیں کہ عام شہری کو حاصل آئینی حقوق سلب کرنا کیا آئین شکنی کے زمرے میں نہیں آتا؟ کیا صرف حکومتوںکا تختہ الٹنا ہی آئین کا تختہ الٹنا اور آئین شکنی ہے؟ آئین کے آرٹیکل پندرہ کے تحت حاصل نقل و حرکت کی آزادی اور آئین کے آرٹیکل پچیس کے تحت فرد کو حاصل مساوات کی آزادی کو سلب کرنے پر آئین کیا کہتا ہے؟ میں رات یہ مصمم ارادہ کر کے سویا کہ صبح کچہری جائوں گا اور اپنے حقوق کی پامالی پر کسی وکیل سے مشورہ کروں گا اور اگر کسی وکیل دوست نے مفت مقدمہ لڑنے کی ہامی بھر لی تو اس سلسلے میں ایک رٹ دائرکردوں گا۔ صبح اٹھ کر کچہری روانہ ہوا ۔نو نمبر چونگی چوک پر ٹریفک وارڈنز نے بیریئر رکھ کر چوک سے کچہری کی طرف جانے والا راستہ بند کر رکھا تھا۔ وارڈن نے کہا کہ آپ فلائی اوورکے اوپر سے جائیں۔ واپس مڑ کر خانیوال روڈ پرگیا اور وہاں سے فلائی اوور پر چلا گیا۔ نو نمبر چونگی فلائی اوور سے اترکر دوبارہ کچہری کی طرف جانے کی کوشش کی تو دیکھا وہاں بھی بیریئر رکھا ہوا ہے۔کچہری جس بات کا ریلیف لینے جانا تھا خود اس کی جانب جانا دشوار ہوگیا۔ 
دوبارہ اگلے فلائی اوور پر چڑھ گیا۔ وہاں سے اتر کر آگے اولڈ بہاولپور روڈ سے یو ٹرن لیا اور کچہری کی طرف روانہ ہوگیا۔ ڈویژنل سپورٹس گرائونڈز کے سامنے سے کچہری کی طرف جانے والا راستہ بھی بند تھا۔ دوبارہ گاڑی ریورس کی اور پھر اسی فلائی اوور پر چڑھ گیا جس سے اتر کر یہ سارا کشٹ کاٹا تھا۔ فلائی اوور سے پیر خورشیدکالونی کی طرف اترا‘ وہاں سے لودھی کالونی اور ایم ڈی اے چوک کی طرف سے کچہری جانے کی آخری کوشش کی مگر یہ راستہ بھی بند تھا۔ میں ملتان کا پیدائشی رہائشی ہوں اور میرے سامنے اب کچہری جانے کا کوئی اور راستہ موجود نہیں تھا۔ ہاں گھنٹہ گھر سے آیا جا سکتا تھا مگر وہ راستہ بھی کچہری چوک سے گزرتا ہے اور یہی چوک دور دور سے بند تھا۔ ہر اس جگہ سے جہاں سے میں نے داخل ہونے کی کوشش کی ،بیسیوں نہیں سینکڑوں لوگ پھنسے ہوئے تھے اور اس نظام کو ''دعائیں‘‘ دے رہے تھے۔ میں نے آئین کے آرٹیکل پندرہ اور پچیس کے تحت حاصل اپنے حقوق کے حصول کے لیے کچہری میں داخل ہونے کی ہر طرح کوشش کی‘ مگر ناکام رہا۔ مجھے کچہری میں داخل ہونے سے روکنا آئین کے آرٹیکل چھبیس کے تحت شہری کو عام مقامات میں داخلے سے متعلق عدم امتیازکی خلاف ورزی تھی۔ میں یہاں اپنے لیے آرٹیکل پندرہ
اور پچیس کا ریلیف لینے آیا تھا الٹا آرٹیکل چھبیس گلے پڑگیا۔ 
میں نے ہائی کورٹ بارکے صدر اپنے دوست سید اطہر حسین بخاری کو فون کیا اور پوچھا کہ شاہ جی! آئین کی خلاف ورزی یا آئین شکنی صرف حکومت کا تختہ الٹنا ہے یا اس کے کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی آئین شکنی ہو سکتی ہے؟ شاہ جی کہنے لگے یہ ہے تو آئین کی خلاف ورزی۔ میں نے پوچھا کیا اس خلاف ورزی یا آئین شکنی پر آرٹیکل پونے چھ تک کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ شاہ جی نے حسب معمول زوردار قہقہہ لگایا اور کہنے لگے نہیں لگ سکتا۔ چھ کے ساتھ ملتا جلتا کوئی بھی آرٹیکل بہت زیادہ شدید قسم کی صورت حال سے جڑا ہوا ہے، تمہارا معاملہ اس کیٹیگری میں نہیں آتا، ہاں اگر کوئی آرٹیکل ساڑھے پانچ ہوتا تو سوچا جا سکتا تھا۔ میں نے مایوس ہوکر فون بندکردیا۔
البتہ رات آرام دہ اور خوشگوار تھی۔ وی آئی پیزکی آمدکی وجہ سے لوڈشیڈنگ میں خاصی رعایت تھی۔ میں چھ بجے گھر پہنچا تو بجلی موجود تھی۔ رات آٹھ بجے بجلی جاتی ہے مگر نہیں گئی۔ پھر رات دس بجے جاتی ہے مگر نہیںگئی۔ دن تکلیف میں اور رات راحت میں گزری۔ میری وی آئی پیز حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ملتان آتے ہوئے اگر اپنا شیڈول اس طرح بنا لیں کہ دن کے بجائے رات کو آیا کریں تو نہ صرف یہ عاجز بلکہ پورا ملتان ان کا ازحد شکرگزار ہوگا۔ یہ صرف درخواست ہے، قبول کرنا یا نہ کرنا صاحبان اختیارکا اختیار ہے۔ جہاں آئین کے تحت حاصل برابری کے حقوق نہیں مل رہے وہاں اگریہ درخواست مسترد ہو گئی توکون سی قیامت آ جائے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں