"KMK" (space) message & send to 7575

ملتان کی سیاست

برطانیہ سے ایک دوست کا فون آیا۔ پوچھنے لگا‘ جاوید ہاشمی کا مستقبل کیا ہے؟ میں نے جواب دیا‘ یہاں تو کسی کے مستقبل کا پتہ نہیں تم کس کس کا پوچھو گے۔ وہ کہنے لگا‘ میرا مطلب ہے کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ جاوید ہاشمی کیا کرے گا؟ میں نے اپنے دوست کو کہا کہ میری گزشتہ دس بارہ دن سے جاوید ہاشمی سے بات تک نہیں ہوئی۔ ملاقات کا امکان یوں نہیں تھا کہ جب وہ اسلام آباد تھا میں ملتان تھا اور جب سے وہ ملتان آیا ہے میں ملتان سے باہر ہوں۔ فون پر رابطہ بھی نہیں کہ بہت سی باتیں فون پر نہیں ہو سکتیں۔ وہ دوست کہنے لگا‘ سنا ہے جاوید ہاشمی اپنے مستعفی شدہ حلقے سے دوبارہ انتخاب میں حصہ لے رہا ہے۔ میں نے کہا‘ میں نے بھی یہی سنا ہے اور میرا خیال بھی ہے کہ جاوید ہاشمی ملتان کے حلقہ 149 سے الیکشن لڑے گا۔ شہر کا حلقہ جاوید ہاشمی کا خواب تھا۔ 
جاوید ہاشمی کا آبائی حلقہ انتخاب این اے 148 ہے۔ یہاں اس کا مقابلہ روایتی حریف شاہ محمود سے ہوتا تھا۔ دونوں اس حلقے سے گزشتہ اکیس سال سے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑتے رہے ہیں۔ گزشتہ اکیس سالہ سیاسی لڑائی کے دوران شاہ محمود اس حلقے سے تین بار جیتا جبکہ جاوید ہاشمی ایک بار منتخب ہوا۔ اس سے قبل دونوں حریف ایک دوسرے کے حلیف تھے۔ شاہ محمود 1985ء میں پہلی بار ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوا۔ یہ غیر جماعتی انتخابات تھے؛ تاہم بعد میں وہ مسلم لیگ میں شامل ہو گیا۔ 1993ء تک شاہ محمود مسلم لیگ ن میں رہا اور پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گیا۔ اس کی وجہ بھی جاوید ہاشمی سے مقامی سیاسی چپقلش تھی۔ ضلع کونسل کے انتخابات تھے اور شروع شروع میں جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی اکٹھے تھے۔ شاہ محمود قریشی اپنے بہنوئی احمد محمود کو چیئرمین بنوانا چاہتا تھا جبکہ غلام حیدر وائیں نے محمد رضا گیلانی کو سرکاری امیدوار نامزد کردیا۔ جاوید ہاشمی نے سرکاری امیدوار کی حمایت کا اعلان کردیا۔ یونین کونسل مخدوم رشید سے ضلع کونسل کا ممبر چودھری اقبال گجر تھا جو ہاشمی قریشی اتحاد سے جیتا تھا مگر بعدازاں جاوید ہاشمی کے ساتھ مل گیا۔ شاہ محمود قریشی شجاعباد کے سیدوں سے مل گیا اور 1992ء کے بلدیاتی انتخابات میں سرکاری امیدوار کے معاملے میں مجاہد علی شاہ چیئرمین ضلع کونسل ملتان منتخب ہو گیا۔ 1993ء کے انتخابات میں شاہ محمود جاوید ہاشمی کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹ کا امیدوار تھا۔ میاں نوازشریف نے اس حلقے سے (تب اس حلقے کا نمبر این اے 120 تھا) جاوید ہاشمی کے مقابلے میں شاہ محمود کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دینے سے انکار کردیا۔ اس دوران شاہ محمود قریشی میاں نوازشریف جو تب وزیراعلیٰ پنجاب تھے کی صوبائی کابینہ میں وزیر خزانہ تھا۔ اس سے قبل وہ 1988ء سے 1990ء تک میاں نوازشریف کی کابینہ میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کا وزیر تھا۔ ٹکٹ سے انکار پر شاہ محمود بذریعہ ناہید خان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گیا اور 1993ء کا الیکشن حلقہ این اے 120 سے جاوید ہاشمی کے خلاف لڑا اور کامیاب ہوا۔ 1997ء میں جاوید ہاشمی نے شاہ محمود کو شکست دی۔ 2002ء میں شاہ محمود کامیاب ہوا۔ 2008ء میں جاوید ہاشمی چار حلقوں سے الیکشن لڑا۔ مخدوم رشید والے آبائی حلقے کے علاوہ وہ تینوں حلقوں سے یعنی راولپنڈی‘ لاہور اور ملتان سے کامیاب ہوا۔ لاہور اور راولپنڈی کی سیٹیں اس نے چھوڑ دیں اور ملتان حلقہ این اے 149 کی سیٹ اپنے پاس رکھی۔ میری ایک بار جاوید ہاشمی سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا کہ ملتان شہر سے الیکشن لڑنا مرا خواب تھا۔ میں درمیانے درجے کے معاشی پس منظر کا حامل سیاستدان ہوں۔ نہ جاگیردار ہوں اور نہ سرمایہ دار۔ لہٰذا دیہاتی حلقے کی سیاست کرنا میرے لیے بڑا مشکل ہے۔ میں جب گورنمنٹ کالج ملتان کی یونین کا صدر تھا‘ تب سے میری خواہش تھی کہ میں شہر سے الیکشن لڑوں۔ میرا بھی حلقہ انتخاب ملتان شہر میں ہو۔ اب کہیں جا کر میری دلی خواہش پوری ہوئی ہے۔ جاوید ہاشمی 2008ء میں مسلم لیگ ن کی طرف سے اور پھر 2013ء میں تحریک انصاف کی طرف سے حلقہ این اے 149 سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوا۔ دو ستمبر کو جاوید ہاشمی نے اسمبلی میں جا کر سپیکر کو استعفیٰ پیش کیا جو قبول ہو گیا۔ اب جاوید ہاشمی اسی حلقہ این اے 149 سے آزاد امیدوار ہے۔ 
میرے دوست نے پھر پوچھا کہ کیا جاوید ہاشمی الیکشن لڑے گا؟ میں نے کہا‘ وہ ایسا کیے بغیر شاید رہ ہی نہیں سکتا۔ میرے اس دوست نے پھر پوچھا کہ کیا جاوید ہاشمی کی صحت اس بات کی اجازت دے گی؟ میں نے کہا‘ وہ گزشتہ الیکشن بھی صحت کی اسی خرابی کے ساتھ لڑا تھا۔ میرے دوست کا خیال تھا کہ جاوید ہاشمی کو اپنی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن جیسی پُرمشقت چیز سے پرہیز کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ وہ سیاسی ندی کی مچھلی ہے۔ اسے ندی کے پانی سے نکال دیا گیا تو شاید چار دن بھی نہ گزار سکے۔ یہ مشقت بھری زندگی‘ اس کی مرضی کی زندگی ہے اور اب وہ اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس کی صحت کی بحالی کے لیے یہ مشقت ضروری ہے‘ بلکہ میں تو کہوں گا کہ اس کی زندگی کے لیے سیاست لازمی امر ہے۔ یہ اس کے لیے آکسیجن ہے۔ وہ دوست پوچھنے لگا‘ تمہارا کیا خیال ہے نتیجہ کیا ہوگا؟ میں نے کہا‘ برادرم یہ ملتان ہے‘ یہاں کی سیاست میں منافقت نہ ہو تو مزا نہیں آتا۔ ابھی تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔ ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ الیکشن کی صورتحال کیا بنتی ہے؟ مقابلے میں کون کون ہوگا۔ ساتھ کون دے گا؟ منافقت کون کرے گا اور مخالفت کون کرے گا۔ 
وہ دوست پوچھنے لگا‘ سنا ہے اس حلقے سے شاہ محمود قریشی کا بیٹا زین قریشی امیدوار ہوگا۔ میں نے پوچھا‘ کیا تحریک انصاف نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ کیا اسمبلیوں سے استعفے دے کر‘ الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کر کے‘ اسمبلیوں کو جعلی قرار دے کر‘ وزیراعظم کو دھاندلی کی پیداوار کہہ کر‘ وہ اسی سسٹم کے تحت‘ اسی پرانے الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی انتخاب لڑ کر اور اسی جعلی اسمبلی میں جانے کا ارادہ ظاہر کر کے دوہرے معیار کا مظاہرہ نہیں کریں گے؟ اگر بفرض محال وہ الیکشن لڑیں بھی تو میرا نہیں خیال کہ اس حلقے سے زین قریشی امیدوار ہوگا۔ ملتان کے حلقہ این اے 148سے شاہ محمود خود الیکشن لڑ کر ہار چکا ہے۔ این اے 150 سے وہ خود ممبر قومی اسمبلی ہے اور اب اگر این اے 149 سے زین قریشی الیکشن لڑتا ہے تو پھر نوازشریف کی بادشاہت اور تحریک انصاف کی جمہوریت میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ کیا پورے ملتان میں آل قریش کے علاوہ اور کوئی سیاسی شخصیت باقی نہیں بچی؟ 
گزشتہ دنوں ایک مسلم لیگی وزیر نے مجھ سے پوچھا کہ اگر جاوید ہاشمی آزاد الیکشن لڑے اور مسلم لیگ ن اپنا امیدوار نہ کھڑا کرے تو کیا صورتحال ہوگی؟ میں نے کہا‘ مسلم لیگ ن کے سارے ووٹ جاوید ہاشمی کو نہیں ملیں گے۔ طارق رشید الیکشن کے لیے تُلا کھڑا ہے۔ وہ جاوید ہاشمی کے استعفے کے بعد میاں نوازشریف کو جا کر مل چکا ہے۔ وہ پکا امیدوار ہے۔ اگر وہ کھڑا ہوا تب بھی ہارے گا اور اگر اسے بٹھا دیا گیا تو وہ جاوید ہاشمی کے خلاف اندرخانے مہم چلائے گا۔ بھلا وہ یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ پہلے جاوید ہاشمی مخدوم رشید سے آ کر شہر کی سیٹ ہتھیا لے‘ پھر تحریک انصاف کی طرف سے اسے شکست سے دوچار کرے اور اب آزاد امیدوار ہو اور مسلم لیگ اس کی حمایت کرے اور وہ جاوید ہاشمی کے لیے ووٹ مانگتا پھرے۔ موجودہ صورتحال میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کا بہت بڑا رول ہوگا۔ عامر ڈوگر مضبوط امیدوار ہے۔ مخدوم شہاب الدین اور یوسف رضا گیلانی ملتان سے پیپلز پارٹی کا امیدوار ہر حال میں کھڑا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر ایسا ہوا تو نتیجہ غیر متوقع ہو سکتا ہے۔ اگر فیصلہ زرداری نے کیا تو نتیجہ بالکل مختلف ہوگا۔ یوسف رضا کی خواہش ہوگی کہ وہ علی موسیٰ کو امیدوار بنائے۔ ان کی خواہش ہے کہ گیلانی خاندان کسی نہ کسی طرح اسمبلی میں پہنچ جائے۔ کھلاڑی پتے شو کریں گے تو پتہ چلے گا کہ گیم کیا ہے اور گیم پلان کیا ہے۔ الیکشن کے نتیجے میں بنیادی کردار ورکروں کا نہیں‘ منافقوں کا ہوگا۔ ملتان اور منافقت لازم و ملزوم ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں