"KMK" (space) message & send to 7575

ملتان سے اسلام آباد تک

گزشتہ کالم میری ملتان کی یادوں پر مشتمل تھا مگر یہ صرف ملتان کے گئے دنوں کی کہانی نہیں تھی۔ یہ ہر شہر کی کہانی تھی اور میری عمر کے ہر شخص کی کہانی تھی۔ جب میں کالم لکھ رہا تھا تو ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ میں یہ اپنی کہانی نہیں بلکہ پوری ایک جنریشن کی کہانی لکھ رہا ہوں۔ ہارون الرشید کا رحیم یار خان‘ ظفر اقبال کا اوکاڑہ اور میرا ملتان۔ سب کچھ بدل گیا ہے حتیٰ کہ محمد اظہار الحق کا کیمبل پور تو سارے کا سارا تبدیل ہو کر اٹک ہو گیا۔ باقی چیزوں کا کیا کہیے‘ اسلم کولسری کا گائوں تو سرے سے غائب ہو گیا۔ کولسر تو اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا بس ایک اسلم کولسری رہ گیا ہے جو کولسر کی یاد دلاتا ہے۔ اس کالم پر بے شمار ای میلز آئیں۔ ملتان سے تو خیر آئیں مگر کم کم‘ زیادہ تر ان کی جو ملتان نہیں رہتے۔ حتیٰ کہ ان کی بھی جنہوں نے کبھی ملتان دیکھا تک نہیں‘ مگر سب نے میرے ملتان میں اپنا اپنا شہر دیکھا۔ اپنی اپنی یادیں تازہ کیں اور اپنی اپنی گم گشتہ چیزوں کو یاد کیا۔ ملتان کے کچھ لوگوں نے بہت کچھ اور یاد کروایا۔ 
کاشف حسین کی میل آئی۔ کاشف کے والد تھانہ حرم گیٹ میں ایس ایچ او تھے اور وہ تھانہ کے کوارٹر میں... جی ہاں! تھانے کے کوارٹر میں رہتے تھے۔ تب ایس ایچ اوز تھانوں کے چھوٹے چھوٹے سرکاری کوارٹروں میں رہتے تھے اور ان کے ساتھ حفاظتی موبائل نہیں چلتی تھی بلکہ وہ لوگوں کی حفاظت کیا کرتے تھے۔ شیخ شہزاد قمر ملتان گیٹ میں رہتے ہیں۔ انہوں نے بہت سی چیزیں یاد کروائیں۔ ایک سکنجبین والا تھا۔ کندھے پر صراحی نما ایک پیتل کا بڑا سا ظرف۔ اللہ دین کے چراغ جیسی کہانیوں میں کسی جن کے کندھے پر رکھی ہوئی چاندی کی بڑی سی صراحی جیسا۔ اس کی ایک لمبی سے نلکی نما ٹونٹی تھی۔ گلاس پکڑ کر رکوع کی طرح جھکتا تھا اور گلاس سکنجبین سے بھر جاتا تھا۔ حرم گیٹ کا پہلوان سوڈا واٹر اور اس کے 
سامنے مچھلی تلنے والا۔ اور ہاں یاد آیا اس کے ساتھ ہی عابد بٹ کی دکان ہوتی تھی۔ تن سازی یعنی باڈی بلڈنگ کا ایشین چیمپئن۔ میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں میں عابد ہیلتھ کلب تھا جہاں عابد بٹ تن سازی کیا کرتا تھا۔ نوجوان وہاں پر ویٹ لفٹنگ وغیرہ کرتے تھے۔ ہم کبھی حرم گیٹ سے عابد بٹ کی دکان کے سامنے سے گزرتے تھے تو دکان کے کائونٹر پر ضرور نظر دوڑاتے تھے۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ میں اپنے بڑے بھائی طارق مرحوم کے ساتھ وہاں سے گزر رہا تھا کہ بھائی نے بتایا کہ وہ سامنے عابد بٹ بیٹھا ہے۔ باڈی بلڈنگ کا ایشیائی چیمپئن۔ مجھے یقین نہ آیا۔ بھائی مجھے لے کر دکان پر چلا گیا۔ مجھے تھوڑا ڈر لگ رہا تھا۔ نجانے کیوں؟ بھائی نے عابد بٹ سے کہا کہ یہ میرا چھوٹا بھائی ہے اور اسے یقین نہیں آ رہا کہ آپ عابد بٹ ہو۔ عابد بٹ مسکرایا۔ آپ یقین کریں مجھے آج بھی وہ مسکراہٹ پوری جزئیات کے ساتھ یاد ہے۔ یہ میری زندگی میں پہلی بار کسی نامور آدمی سے ملنے کا یادگار موقع تھا۔ عابد بٹ نے مجھ سے پوچھا۔ کیوں بیٹے تمہیں یقین کیوں نہیں آ رہا۔ میں گھبرا کر اور کچھ شرما کر کائونٹر کے پیچھے سمٹ گیا۔ عابد بٹ نے قمیض کا بازو مشکل سے اوپر چڑھایا اور مٹھی بند کر کے بازو اوپر اٹھایا‘ کہنی سے اوپر کندھے تک کے مسل پھول گئے۔ ایک پہاڑ سا ابھر آیا۔ عابد بٹ نے مٹھی کو دائیں بائیں گھمایا۔ پہاڑ سا مسل اوپر نیچے ہوا۔ پھر بازو دوبارہ سیدھا کر کے فولڈ کیا۔ اب مسل ایک کے بجائے دو چھوٹے پہاڑوں جیسی شکل میں نظر آیا۔ یہ اس کے ''ڈولے‘‘ تھے۔ عابد بٹ نے مجھے تھپتھپایا اور کہا کہ شام کو سکول 
آنا‘ اور بہت سے بچے وہاں آتے ہیں۔ میں شام کو سکول گیا۔ عابد بٹ شیشے کے سامنے دونوں ہاتھوں میں ویٹ اٹھائے ورزش کر رہا تھا۔ ویسا بدن بعد میں صرف تصویروں میں نظر آیا۔ میں نے پرائمری بعد میں اسی سکول سے پاس کی۔ 
حرم گیٹ کے باہر مالشیئے ہوتے تھے۔ ایک لوہے کے دستی سٹینڈ میں چار تیل کی بوتلیں پھنسائے‘ جنہیں وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ہلکا سا اچھال کر آواز پیدا کرتے تھے۔ سرخ رومال سر پر باندھے کان صاف کرنے والے۔ گلے میں تانبے کے کان اور دانت صاف کرنے کے ''آلات‘‘ بیچنے والے۔ دانت صاف کرنے والا آلہ ٹوتھ پک نما ہوتا تھا اور کان صاف کرنے والا آلہ چھوٹا سا ڈوئی نما۔ ایک بار خریدا اور برسوں چلایا۔ تب شاپنگ بیگ‘ ٹشو پیپر اور ٹوتھ پک جیسی ''عیاشیاں‘‘ کم از کم ہمیں تو ہرگز میسر نہ تھیں۔ حرم گیٹ کے باہر اکبر روڈ کے شروع میں دائیں طرف چاچا عابد شاہ کی کھیس دریوں کی دکان تھی۔ اس کے ساتھ ہی چاچا عاشق کی دکان تھی۔ یہ دونوں اصحاب ہمارے محلے دار تھے بلکہ چاچا عابد شاہ ہمارے بالکل سامنے والے گھر میں اور چاچا عاشق ہمارے گھر کے کارنر کے سامنے رہتے تھے۔ دونوں کے گھروں کے درمیان چاچا نبی بخش کھوجا کا مکان تھا۔ ہر دو چاچا صاحبان تب کے رواج کے مطابق ہمارے چاچا تھے۔ اب دونوں وفات پا چکے ہیں۔ چاچا عابد شاہ کی دکان پر پتہ نہیں کون ہوتا ہے لیکن چاچا عاشق کی دکان پر ان کا بیٹا منور بیٹھتا ہے۔ 
حفیظ احمد نے یاد کروایا کہ گورے اینڈ کالے کپڑوں والے کی دکان پر بیٹھا ہوا خوش باش موٹا پہلوان۔ اور رادھو سینما کے سموسے۔ کویت سے کاشف رضا نے بتایا کہ وہ پسرور کا ہے اور کبھی ملتان نہیں گیا مگر میرے اس کالم کے توسط سے اور پہلے لکھے گئے کالموں کے حوالے سے وہ سارے ملتان کی سیر کر چکا ہے۔ کاشف نے لکھا کہ وہ مجھے پسرور سے روغنی ہانڈی بھجوا سکتا ہے۔ روغنی ہانڈی پسرور میں اب بھی بنتی ہے اور خاص سوغات ہے۔ بھلے آدمی کا شکریہ! مگر میں پہلے والی ہانڈی کون سا سنبھال سکا ہوں جو اب پسرور سے بھیجی جانے والی کو سنبھال سکوں گا۔ المیہ تو یہی ہے کہ اب سنبھالنے والا کوئی نہیں۔ چیزیں میسر بھی ہیں اور چہار سو موجود بھی مگر۔ 
ایک عام خاص باغ ہوتا تھا۔ ایک طرف معصوم شاہ روڈ اور دوسری طرف حافظ جمال روڈ۔ ہم عید نماز پڑھنے یہاں جاتے تھے۔ ایک طرف ایک بارہ دری تھی۔ گھاس اور پھولوں کے تختے۔ تین اطراف چھوٹی چھوٹی دیواریں۔ ایک طرف مدرسہ دارالحدیث محمدیہ۔ پھر میونسپلٹی نے باغ کے ہر طرف سڑک کی جانب دکانیں بنا دیں۔ سارے باغ کا حسن برباد ہو گیا۔ کارپوریشن نے دکانوں کا کرایہ کھرا کر لیا۔ چھوٹا سا باغ تباہ ہو گیا۔ ابھی تو یہاں کرائے بہت زیادہ نہیں تھے مگر سمجھداروں نے اس کو کمرشل کر کے مال کمانا شروع کردیا۔ دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ امریکہ‘ برطانیہ اور مغرب میں لوگ باغوں اور پارکوں کی کس طرح حفاظت کرتے ہیں۔ مین ہیٹن دنیا کی مہنگی ترین جگہوں میں سے ایک ہے۔ یہاں پر مین ہیٹن کے عین درمیان میں سنٹرل پارک ہے۔ آٹھ سو تینتالیس ایکڑ پر محیط۔ یعنی تقریباً چونتیس مربعوں پر مشتمل۔ ایک طرف نیویارک کی معروف ترین ففتھ ایونیو۔ پوری سڑک کے ایک طرف دکانیں‘ پلازے‘ دفاتر اور الابلا ہے اور دوسری طرف پارک ہے۔ اس سائیڈ پر دکانیں پلازے بنائے جا سکتے تھے۔ اسی طرح دوسری طرف بھی مصروف ترین سڑک سنٹرل پارک ویسٹ ہے۔ لمبائی اتنی کہ انسٹھویں سٹریٹ سے لے کر ایک سو دس سٹریٹ تک۔ یعنی اکاون بلاک پر مشتمل۔ پارک کے چاروں طرف کی کل لمبائی ساڑھے نو کلو میٹرسے زیادہ ہے۔ ایک طرف کی لمبائی چار کلو میٹر کے لگ بھگ اور چوڑائی ایک کلو میٹر سے تھوڑی کم یعنی آٹھ سو میٹر۔ اگر دونوں طرف سے سو سو فٹ کمرشل ایریا بنا دیا جائے تو پارک کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا مگر 1857ء میں بننے والے اس پارک میں وقت کے ساتھ تھوڑا سا اضافہ تو ہوا ہے کمی نہیں ہوئی۔ 
شنید ہے اسلام آباد ہائی وے کے دونوں طرف والی گرین بیلٹ ختم کر کے دونوں طرف زیرو پوائنٹ سے لے کر روات کی طرف ایئرپورٹ سے بھی کہیں آگے تک ایک ''کمرشل بلیوارڈ‘‘ کا منصوبہ زیر غور ہے‘ بلکہ زیر غور سے آگے نکل چکا ہے۔ ساری گرین بیلٹ ختم ہو جائے گی۔ پلازے‘ دکانیں اور دفاتر بنیں گے۔ سی ڈی اے کی مالی مشکلات حل ہو جائیں گی۔ افسروں کے مزے ہوں گے۔ حکمران موج میلہ کریں گے۔ چالیس پچاس سال بعد کوئی کالم نویس اس جگہ کی یادیں تازہ کرے گا اور لکھے گا کہ آج جہاں سیمنٹ‘ ریت‘ بجری اور سریے کا جنگل ہے کبھی وہاں گرین بیلٹ ہوا کرتی تھی۔ سارے شہر ہی ترقی معکوس کی طرف گامزن ہیں لیکن جتنی تیزی سے اسلام آباد خوار و خستہ ہوا ہے اس کی تو شاید مثال ہی نہیں ملتی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں