"KMK" (space) message & send to 7575

پٹرول‘ چاول اور پھر وہی موٹروے اور میٹرو

خواہ وہ معاشرہ ہو یا مارکیٹ‘ اس کے توازن کے دو بنیادی عوامل ہیں۔ پہلا‘ مجموعی اخلاقی صورتحال اور دوسرا قانون۔ مارکیٹ سے مراد تجارتی صورتحال ہے۔ اشیاء کی قیمتیں‘ خالص پن‘ دستیابی اور اسی قسم کی دیگر چیزیں۔ ان سب میں توازن کا پہلا فریضہ تو خود معاشرے کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے۔ مثلاً مناسب نفع کا تعین‘ ذخیرہ اندوزی سے اجتناب‘ ملاوٹ سے پرہیز‘ جعلی اشیا کی فروخت اور جھوٹ سے پرہیز۔ اگر معاشرے میں ازخود ذمہ داری اور اخلاقی اقدار کا فقدان ہو تو پھر قانون موجود ہوتا ہے جو درج بالا تمام معاملات پر گرفت کرتا ہے اور مارکیٹ کو متوازن رکھتا ہے۔ پہلا فریضہ عوام اور دوسرا حکومت سرانجام دیتی ہے۔ دونوں عوامل عموماً Reverse proportion یعنی تقابلِ معکوس کے تحت چلتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر معاشرے کی اجتماعی اخلاقی حالت مضبوط ہو تو قانون کا اطلاق بہت کم کرنا پڑتا ہے اور اگر صورتحال الٹ ہو یعنی اخلاقی اقدار کمزور ہوں تو قانون زیادہ سختی اور شدومد کے ساتھ نافذ کرنا پڑتا ہے۔ ملک عزیز کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ نہ اخلاقی اقدار کا نام و نشان ملتا ہے اور نہ ہی قانون کا۔ حقیقتاً دونوں کا نہ صرف جنازہ نکل چکا ہے بلکہ کریا کرم بھی ہو چکا ہے۔ 
جو معاشرہ رمضان کے مقدس مہینے میں سال کی سب سے اندوہناک لوٹ مار کرے۔ مہنگائی اور ملاوٹ کے نئے ریکارڈ قائم کرے اور ذخیرہ اندوزی کے اپنے ہی قائم کردہ سابقہ ریکارڈ توڑدے‘ وہاں قانون اپنی پوری طاقت اور سفاکی کے ساتھ نافذ ہونا چاہیے تھا مگر صورتحال یہ ہے کہ معاشرے اور حکومت میں اخلاقی اور قانون کے انحطاط کے معاملے میں زبردست مقابلہ چل رہا ہے اور کوئی فریق نہ تو ہار ماننے پر ہی تیار ہے اور نہ ہی مقابلے 
سے دستبردار ہو رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر طرف مہنگائی‘ لوٹ مار‘ چور بازاری‘ ذخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ‘ دو نمبر بلکہ چار چھ نمبر اشیاء کی فروخت اور جھوٹ بھرا پڑا ہے۔ اس سلسلے میں ہر قانون برائے فروخت ہے۔ لاکھوں روپے کا ٹیکہ لگانے والے کو زیادہ سے زیادہ اگر قانون کا خوف ہے تو وہ چند سو روپے جرمانہ کا ہے۔ لوٹ مار اور جرمانوں کی یہ نسبت متعلقہ محکموں اور گراں فروشوں‘ ذخیرہ اندوزوں اور ملاوٹ کرنے والوں کے درمیان باہمی بھائی چارے کے سنہرے اصولوں کو مدنظر رکھتے نہایت سہولت سے چل رہی ہے۔ عوام کو لوٹنے والوں نے حساب کر رکھا ہے کہ لوٹ مار میں سے دو چار فیصد جرمانوں اور آٹھ دس فیصد رشوت کی مد میں بھی خرچ ہو جائے تو منافع کے علاوہ اضافی لوٹ میں سے پچاسی چھیاسی فیصد مزید بچ جائے گا۔ لہٰذا وہ اسی کیلکولیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے کھل کھیلتے ہیں۔ باقی سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔ 
جب بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا‘ پبلک ٹرانسپورٹ نے اعلان کے ساتھ ہی اپنے کرایوں میں اسی نسبت سے اضافہ کردیا۔ پھرتیوں کا یہ عالم ہوتا تھا کہ محض اعلان ہی کافی سمجھا جاتا تھا اور ٹرانسپورٹرز حضرات گاڑیوں کی ٹینکیوں میں نئی قیمت والا ڈیزل ڈلوائے بغیر پرانی قیمت والے ڈیزل پر نئے کرائے کا اطلاق کر دیتے تھے۔ اب تیل کی قیمتیں کم ہونے کا چوتھا مہینہ آ گیا ہے۔ پٹرول کی قیمت اکتوبر میں ایک سو تین روپے باسٹھ پیسے تھی اور اب ستر روپے انتیس پیسے فی لٹر ہے۔ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت ایک سو سات روپے انتالیس پیسے سے اسی روپے اکسٹھ پیسے فی لٹر پر آ چکی ہے۔ یعنی پٹرول میں قیمتیں گزشتہ چار ماہ میں بتیس فیصد اور ڈیزل کی قیمتیں پچیس فیصد کم ہو چکی ہیں مگر اس کے اثرات کہیں نظر نہیں آ رہے۔ جب پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا تھا تو گدھا گاڑی والا بھی اپنا کرایہ بڑھا دیتا اور کہتا تھا کہ پٹرول کی قیمت بڑھ گئی ہے گویا اس کا گدھا بھی تب پٹرول سے چلتا تھا مگر اب صورتحال یہ ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ گاڑیاں بھی پٹرول اور ڈیزل سے نہیں چلتیں۔ 
تب سنتے تھے کہ پٹرول کی قیمتوں کا اثر سارے ملک میں فروخت اور استعمال ہونے والی تقریباً ہر شے پر پڑتا ہے‘ بجلی پر پڑتا ہے‘ کارخانوں پر پڑتا ہے‘ ہر امپورٹ ہونے والی چیز پر پڑتا ہے‘ ہر لوکل بننے والی چیز پر پڑتا ہے حتیٰ کہ ہر پٹرول استعمال کرنے والا اس مہنگائی کو جو اس کی زندگی پر مسلط ہوئی ہے آگے ٹرانسفر کر دیتا ہے لہٰذا پٹرول کی مہنگائی کے اثرات قبر تک چلتے ہیں مگر اب صورتحال بالکل مختلف ہے۔ پٹرول کی قیمتیں ملک میں پچیس سے بتیس فیصد کم ہوئی ہیں مگر اس کے اثرات کہیں نظر نہیں آ رہے۔ تاہم یہ چوربازاری صرف انفرادی سطح پر نہیں بلکہ قومی سطح پر نظر آ رہی ہے۔ ملک میں تیل کی قیمتوں میں کمی عالمی منڈی میں ہونے والی قیمتوں میں کمی کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔ 
امریکہ میں پٹرول کی قیمت مئی 2014ء میں چار اعشاریہ بتیس ڈالر فی گیلن تھی۔ اکتوبر 2014ء میں یہ قیمت تین اعشاریہ ستاون ڈالر فی گیلن تھی۔ کل امریکہ میں تیل کی قیمت ایک اعشاریہ چھیاسی ڈالر فی گیلن تھی۔ صرف گزشتہ چار ماہ کا تقابلی جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں اکتوبر 2014ء سے فروری 2015ء تک پٹرول کی قیمت میں اڑتالیس فیصد کمی ہوئی ہے‘ جبکہ پاکستان میں یہ کمی بتیس فیصد ہے۔ تیل کی عالمی منڈیوں میں اکتوبر سے فروری تک تقریباً پینتالیس فیصد کمی ہوئی ہے۔ خام تیل کی قیمت اکتوبر 2014ء میں نوے ڈالر فی بیرل تھی جو اب انچاس ڈالر فی بیرل ہے۔ اس حساب سے ابھی بھی پاکستان میں سرکار چودہ پندرہ فیصد زیادہ منافع کما رہی ہے۔ اب یہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ منافع کن کی جیب میں جا رہا ہے؟ دس پرائیویٹ مارکیٹنگ کمپنیاں ہیں جو تیل درآمد کر رہی ہیں۔ درآمدی تیل کی قیمتوں کا مختصر سا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی لمبا مال کما رہا ہے۔ یہ پتہ نہیں چل رہا کہ یہ کون ہے۔ حکومت یا پرائیویٹ کمپنیاں؟ اگر حکومت ہے تو چلیں پھر بھی قابل برداشت ہے لیکن اگر یہ منافع پرائیویٹ کمپنیوں کی جیب میں جا رہا ہے تو اوگرا وغیرہ کیا کر رہے ہیں؟ 
آج عالمی منڈی میں تیل کی قیمت انچاس ڈالر فی بیرل ہے۔ ایک بیرل میں بیالیس گیلن یعنی ایک سو انچاس لٹر ہوتے ہیں۔ ایک بیرل کی قیمت موجودہ پاکستانی روپے کے حساب سے پانچ ہزار روپے بنتی ہے۔ فریٹ پریمیئم دو اعشاریہ سولہ ڈالر یعنی دو سو سولہ روپے۔ ہینڈ لنگ‘ بنک اور ایل سی چارجز بمعہ میرین انشورنس بحساب اعشاریہ نو فیصد پینتالیس روپے۔ وہارفیج چارجز بحساب تین اعشاریہ پچاسی فیصد ایک سو بانوے روپے پچاس پیسے۔ آئل کمپنیوں کا طے شدہ منافع ساڑھے تین فیصد یعنی ایک سو پچھتر روپے۔ ایک بیرل کی قیمت بنی پانچ ہزار جمع دو سو سولہ جمع پینتالیس جمع ایک سو بانوے روپے پچاس پیسے جمع ایک سو پچھتر روپے۔ کل پانچ ہزار چھ سو اٹھائیس روپے پچاس پیسے۔ اس پر تیل صفائی لاگت دس فیصد یعنی پانچ سو تریسٹھ روپے۔ اب کل قیمت بنی چھ ہزار ایک سو بانوے روپے۔ کروڈ آئل سے تیل کی مقدار اگر ستر فیصد بھی لگائیں تو ایک سو گیارہ لٹر تیل نکلتا ہے اور اس حساب سے فی لٹر قیمت تقریباً چھپن روپے بنتی ہے۔ امریکی گیلن تین اعشاریہ سات آٹھ پانچ لٹر کا ہوتا ہے۔ آج امریکہ میں تیل پاکستانی روپے کے حساب سے پچاس روپے فی لٹر فروخت ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں اوپر والے بیس روپے کون کھا رہا ہے؟ 
یہی حال چاول کا ہے۔ کاشتکار برباد ہو گیا ہے۔ مل مالک لٹ گیا ہے۔ دھان کی قیمت گزشتہ سال سے آدھی ہے۔ مارکیٹ میں چاول کا تھوک کا نرخ گزشتہ کا تہائی رہ گیا ہے مگر خریدار کو چاول گزشتہ سال کے ریٹ پر ہی مل رہا ہے۔ کسان کو دھان کی قیمت نہیں مل رہی۔ مل والے کو منڈی سے ریٹ نہیں مل رہا جبکہ پرچون پر وہی ریٹ ہے۔ سرکار کو ٹکے کی فکر نہیں۔ نہ کاشتکار کی اور نہ عوام کی۔ دونوں سرے یعنی فصل پیدا کرنے والا اور استعمال کرنے والا بری طرح لٹ رہے ہیں۔ مڈل مین دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے اور حکمران موٹروے اور میٹرو بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں