"KMK" (space) message & send to 7575

خادم اعلیٰ صاحب! یہ نظام ایسے نہیں چلے گا

چار روز قبل ملتان اور مظفر گڑھ میں ایک بنت حوِا اور ایک خاک نشین پولیس گردی اور انصاف کی فراہمی میں ناکامی سے تنگ آ کر جل مرے۔ مظفر گڑھ کی سونیا پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں بے آبرو ہونے، شادی کا جھانسہ دے کر بلیک میل ہونے اور تھانے میں تذلیل کے باعث خود کو آگ لگانے پر مجبور ہوئی۔ ملتان کا شہباز، جو دو معصوم بچوں کا باپ اور تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا، ملتان پریس کلب کے سامنے خود کو آگ لگا کر جل مرا۔ حسبِ معمول خادم اعلیٰ سرکاری ہیلی کاپٹر پر مظفر گڑھ آئے، خاندان کی خواتین کو انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی۔ ظالموں کو الٹا لٹکانے کا دعویٰ کیا، سرکاری خزانے سے پانچ لاکھ کا چیک عنایت فرمایا اور شتابی سے لاہور روانہ ہو گئے۔
لوگوں کا جل مرنا، خود کشی کرنا اور زور آوروں کے ہاتھوں قتل ہو جانا، وزیر اعلیٰ کا مظلوموں کے گھر آنا، انصاف کی یقین دہانی کرانا، ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے کرنا اور سرکاری خزانے سے مظلوم خاندان کو امدادی چیک دینا اب معمول کی بات بن چکی ہے، لیکن کیا حکومتیں اس لیے تشکیل پاتی ہیں؟ کیا لوگ حکمرانوں کو اس لیے ووٹ دیتے ہیں؟
مسئلہ ہیلی کاپٹروں پر مظلوموں اور مقتولوں کے گھر پہنچنا، دلاسے دینا، وعدے کرنا اور مالی امداد کرنا نہیں بلکہ نظام کی اوور ہالنگ کا ہے۔ ہمیں اس گلے سڑے نظام کو تبدیل کرنا ہے، جہاں کوئی شخص عدم انصاف کے باعث اپنی زندگی ختم کرنے پر مجبور نہ ہو۔ جہاں پولیس خوف کی علامت نہ ہو بلکہ عوام کے تحفظ اور مظلوم کی داد رسی کی علامت ہو، لیکن ایسا ہونا موجودہ نظام میں ممکن نہیں جہاں تھانیدار علاقے کے ایم این اے، ایم پی اے کی سفارش پر تعینات ہوتے ہوں۔ تھانہ ممبر اسمبلی کی ذاتی خواہشات کا غلام ہو۔ ایس ایچ او اپنے مربی ممبر اسمبلی کی خدمت کرنے کے بعد یہ گمان کرتا ہو کہ اسے ہر طرح کی کھلی چھوٹ ہے۔ جہاں ایسا ہوتا ہو وہاں شہباز بھرے شہر میں خود کو آگ لگا لیتے ہیں اور سونیا تھانے کے عین سامنے جل مرتی ہے۔ اور خادم علیٰ ''عید کے بعد تمبا پھونکنے‘‘ مظفر گڑھ پہنچ جاتے ہیں۔
اسی مظفر گڑھ کے قصبہ جتوئی میں گزشتہ سال ایک اور سونیا نے بھی اسی طرح خود کشی کی تھی۔ ایف ایس سی کی طالبہ آمنہ مائی، جو اپنے خاندان کی واحد پڑھی لکھی لڑکی تھی اور علم کی روشنی سے منور ہونے کے طفیل آنکھوں میں ڈاکٹر بننے اور اپنے غربت بھرے ماحول کو بدلنے کے خواب سجائے ہوئے تھی،اپنے خوابوں کے چکنا چور ہونے پر جان دینے پر مجبور ہو گئی تھی۔ کالج جاتے ہوئے روزانہ ایک بدمعاش کے ہاتھوں ہونے والی ذلت اور تھانے میں شکایت کرنے کے جرم میں ہونے والی بے عزتی پر آمنہ مائی نے بھی خود کشی کرلی تھی۔ تب ذمہ داران، جو پولیس افسر اور اہلکار تھے، اپنے علاقے کے ممبر قومی اور صوبائی اسمبلی کے پالتو اور زرخرید تھے۔ آمنہ مائی کی خود کشی پر بھی وزیر اعلیٰ بڑے برہم ہوئے، مجرموں کو الٹا لٹکانے کے نعرے لگاتے رہے۔ وہ انصاف کی فراہمی اور نظام کی تبدیلی کے دعویدار تھے۔ پولیس والے معطل ہوئے، خبریں چھپیں اور پھر ٹھنڈ پڑ گئی۔ وقت کی دھول نے سب برابر کر دیا۔ دو چار ماہ بعد تھانیدار کہیں اور، کسی دوسرے شہر ، کسی دوسرے قصبے میں کسی اور ایم پی اے، ایم این اے کی خدمت کر رہا ہو گا۔ ڈی ایس پی کسی اور علاقے میں لوگوں کو دھمکاتا ہو گا کہ میں تو فلاں فلاں کام کر کے بھی بچ جاتا ہوں، مجھ سے ماتھا مت لگانا۔ ڈی پی او وغیرہ کے لیے اب سرزنش بے معنی ہو چکی ہے کہ تھوڑی سی دیر کی بے عزتی اور اس دوران ڈھٹائی اور بے شرمی کے مظاہرے سے اگر نوکری کا معاملہ چلتا ہے تو اس چار چھ منٹ کی بے شرمی اور بے حیائی میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس خرابی کی جڑ یعنی ایم پی اے اور ایم این اے اسی جگہ دندناتے پھرتے ہیں اور اپنے تھانیدار کی ٹرانسفر کی صورت میں اگلا تھانیدار بھی اپنی مرضی سے تعینات کرواتے ہیں، اور معاملات پھر وہیں سے شروع ہو جاتے ہیں جہاں سمجھا جاتا ہے کہ ان کا اختتام ہو گیا ہے۔ جب تک پولیس اہلکار اور افسروں کی ٹرانسفر پوسٹنگ ''عوامی نمائندے‘‘ کرواتے رہیں گے، عوام اسی طرح ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ شہباز اور سونیا اسی طرح خود کو آگ لگا کر اس نظام کے منہ پر طمانچے مارتے رہیں گے، وزیر اعلیٰ اسی رقیق القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً مظلوموں کے گھر پہنچتے رہیں گے اور اسی طرح سخاوت فرماتے ہوئے سرکاری خزانے سے مقتولین کے ورثا کو چیک عطا فرماتے رہیں گے۔
چند دن ہوتے ہیں، میرے ایک عزیز نے،جنہوں نے ساری عمر دبئی میں محنت کر کے کچھ کمایا تھا، پاکستان میں کاروبار شروع کیا۔ کاروبار ٹھیک جا رہا تھا۔ کراچی میں جس شریف آدمی سے کاروبار کرتے تھے اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بیٹے بے ایمان ہو گئے اور کہا کہ دوائیوں کی چھوٹی چھوٹی کنسائنمنٹ منگوانی ممکن نہیں لہٰذا بڑی رقم بھجوائیں۔ انہوں نے ادھر ادھر سے اپنی ساری واجب الوصول رقومات اکٹھی کیں اور کراچی بھجوا دیں۔ مال آج آتا ہے کل آتا ہے والا معاملہ ہو گیا۔ کاروبار کی بیشتر رقم صاحب کراچی پھنس گئی۔ زیادہ بھاگ دوڑ کی تو موصوف نے چیک پکڑا دیئے۔ چیک بینک سے ڈس آنر ہو گئے۔ عدالت میں دعویٰ کیا اور پرچے کا حکم لیا۔ تھانیدار نے کہا کہ رقم 
بڑی ہے اس لیے ایس پی صاحب اجازت دیں گے تو پرچہ درج کرونگا۔ ایس پی کے پاس پہنچے تو وہاں ایک پڑھا لکھا نوجوان افسر بیٹھا ہوا تھا۔ میرے عزیز کو خوشی ہوئی کہ کسی روایتی پولسیے کے بجائے پڑھا لکھا روشن خیال افسر بیٹھا ہے جو طریقے سے بات سنے گا اور کرے گا۔ ایس پی نے وجہ آمد دریافت کی۔ بتایا کہ اس طرح چیک مسترد ہو گئے ہیں، عدالت نے پرچہ درج کا حکم جاری کیا ہے۔ ایس پی نے پوچھا کہ رقم کتنی ہے۔ جب بتایا کہ اتنی رقم ہے تو ایس پی چھوٹتے ہی بولا کہ حرام کی کمائی اسی طرح حرام جاتی ہے۔ میرے ٹھنڈے مزاج کے عزیز کو اس بات پر شدید صدمہ ہوا کہ اس کی ساری عمر کی محنت کی کمائی کو ایک پڑھا لکھا افسر بغیر جانے، بغیر تصدیق کیے حرام کی کمائی کہہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اس طرح ایک دم بغیر کسی ثبوت کے کہہ رہے کہ یہ کمائی حرام کی ہے؟ ایس پی بجائے شرمندہ ہونے یا معذرت کرنے کے انتہائی ڈھٹائی سے کہنے لگا کہ ظاہر ہے اتنی رقم حلال طریقوں سے تو نہیں کمائی جا سکتی۔ اس بات پر گرما گرمی ہو گئی۔ پرچہ کیا درج ہونا تھا الٹا بدمزگی ہوگئی اور میرے عزیز وہاں سے اٹھ کر آ گئے۔ ابھی تک پرچہ درج نہیں ہوا۔ یہ وہ رویہ ہے جو لوگوں میں اشتعال پیدا کرتا ہے اور یہ بے سود اشتعال اور غصہ بالآخر ''قہر درویش برجان درویش‘‘ کے مصداق مظلوم اور مجبور شخص خود پر نکالتا ہے۔ وہ سونیا ہو یا شہباز یا اس طرح کے اور بے شمار لوگ اس نظام کے طفیل اپنی جان سے جا چکے ہیں مگر نظام کی تبدیلی کے دور دور تک آثار نظر نہیں آ رہے۔
کسی کو معلوم نہیں کہ آمنہ مائی کو خود کشی پر مجبور کرنے والے پولیس اہلکار کو کیا سزا ملی؟ جتوئی سے ٹرانسفر ہونے والے پولیس افسروں نے 
کس کس علاقے میں جا کر اپنی عادتیں جاری رکھتے ہوئے کتنے مظلوموں کو تھانے سے دھتکارا اور ذلیل کیا؟ علاقے کے ممبران اسمبلی، جن کے بل بوتے پر پولیس نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا، کی بھی کسی نے سرزنش کی یا نہیں؟ کسی کو پتہ نہیں کہ جتوئی کے تھانے میں اگلے پولیس افسر کی تعیناتی میرٹ پر کی گئی تھی یا علاقے کے ممبر اسمبلی نے ہی حسبِ سابق اپنی مرضی کا بندہ تھانیدار لگوایا ؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ بے شمار کیسز ہیں جن میں وزیر اعلیٰ متاثرہ خاندان کے گھر گئے، انصاف کا وعدہ کیا، مجرموں کو الٹا لٹکانے کا دعویٰ کیا، لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ہر روز کسی جگہ، کسی شہر، کسی قصبے یا کسی گائوں میں لوگ انصاف کی فراہمی میں ناکامی پر جان لے بھی رہے ہیں اور دے بھی رہے ہیں لیکن مجال ہے جو نظام میں رتی برابر بہتری آئی ہو۔
ما تحت عدلیہ کے منصفوں کی تنخواہیں بڑھائی گئیں کہ انصاف کی خرید و فروخت بند ہو مگر نتیجہ ؟ انصاف مزید مہنگا ہو گیا ہے ۔حکومتیں اس لیے نہیں ہوتیں کہ وہ لوگوں کے مرنے کے بعد ان کے گھر جا کر ان کو تسلیاں دے، ان کے سروں پر ہاتھ پھیرے، مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے نعرے لگائے اور سرکار کے خزانے سے چیک جاری کرے۔ حکومتیں اس لیے ہوتی ہیں کہ نظام وضع کریں، لوگوں تک عدل و انصاف کا حصول ممکن بنائیں۔ محکموں کو قانون کا تابع بنائیں نہ کہ اسمبلی کے ممبران کا اور لوگوں کو عزت سے زندہ رہنے کا حق فراہم کریں۔
خادم اعلیٰ سے گذارش ہے کہ وہ پٹوار اور پولیس کا نظام بدلیں اور عدل و انصاف لوگوں کے حق کی طرح فراہم کریں، نہ کہ احسان کی طرح۔ ہر چوتھے دن ہیلی کاپٹر پر مظلوموں کے گھر جانا، فوٹو سیشن کروانا، بڑھکیں مارنا اور سخاوت کرتے ہوئے سرکاری خزانے کی رقوم کے چیک جاری کرنا کسی طور گڈگورننس اور اچھی حکومت کی نشانیاں نہیں۔ یہ معاملات در اصل اس چیز کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حکمرانوں سے نظام چل نہیں رہا اور انہیں اس کی کوئی امید بھی نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں