"KMK" (space) message & send to 7575

احتساب کی کسمپرسی

کرپشن کیا ہے؟۔ کرپشن وہ ہے جو مخالفین کر رہے ہوں۔ احتساب کیا ہے؟۔ جو دوسروں کا ہو رہا ہو۔ اپنا احتساب دراصل احتساب نہیں زیادتی ہوتی ہے۔ اسی فارمولے کے تحت فی الوقت ملک میں سب سے بڑی کھپ یہ پڑی ہوئی ہے کہ نیب کیا کر رہا ہے؟۔ میاں نواز شریف اور ان کے ''جھولی چک‘‘ فرما رہے ہیں کہ نیب اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہا ہے جبکہ عام آدمی کا خیال ہے کہ نیب اپنے اختیارات سے کام ہی نہیں لے رہا۔ اگر نیب کچھ کر رہا ہوتا تو ملک میں رشوت کم ہوئی ہوتی۔ دفتروں میں کرپشن کم ہو گئی ہوتی۔ کہیں کسی دفتر میں جائز کام مفت ہو رہا ہوتا۔ کسی سرکاری افسر کو پکڑے جانے کا خوف ہوتا۔ کوئی وزیر ادھر ادھر ہاتھ مارنا بند کر دیتا۔ ایک آدھ فیصد کو چھوڑ کر کسی سرکاری افسر کا طرز زندگی اس کی تنخواہ کے مطابق ہو گیا ہوتا۔ کیا ایسا ہوا ہے؟۔ جواب یقیناً نہیں میں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نیب کا ہونا نہ ہونا تقریباً برابر ہے۔
میاں نواز شریف اینڈ کمپنی کا فرمان ہے کہ نیب اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہا ہے اور بقول میاں نواز شریف ''معصوم‘‘ لوگوں کو تنگ کر رہا ہے۔ میاں صاحب کا فرمان سو فیصد درست ہے۔ نیب نے سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا امیر حیدر ہوتی کے معاون خصوصی یعنی سپیشل اسسٹنٹ سید معصوم شاہ کو اگست2015ء میں پکڑ لیا تھا۔ نہایت ہی معصوم سید معصوم شاہ نے دوران تفتیش نہ صرف یہ کہ حیات آباد، ریگی ماڈل ٹاؤن، ڈیفنس ہاؤسنگ کراچی اور راولپنڈی وغیرہ میں اپنی اوپر والی آمدنی سے بنائی گئی جائیداد کی نشاندہی کی بلکہ اس کے لاکر سے نیب نے کئی کلو گرام سونا بھی برآمد کیا۔ ظاہر ہے محنت و مشقت کی کمائی کو اس طرح بندے پکڑ کر ، ذلیل و خوار کر کے ان سے برآمد کروانا نہایت ہی قابل اعتراض حرکت ہے اور اس طرح نہ صرف یہ کہ معصوم لوگوں کو تنگ کیا جا رہا ہے بلکہ مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اس محکمے کی وجہ سے ملک چھوڑ جائیں۔ نیب کی انہی حرکتوں کی وجہ سے ملک میں ''برین ڈرین‘‘ کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ سو کے لگ بھگ سرکاری افسر نیب کی ان گھٹیا حرکتوں اور متوقع گھٹیا حرکتوں سے تنگ آکر ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ان حالات میں ملک کیسے چل سکتا ہے؟۔ نیب کے خوف و ہراس کی وجہ سے سرکاری کام ٹھپ ہو گئے ہیں اور جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ لہٰذا نیب کو چاہئے کہ وہ معصوم لوگوں کو تنگ کرنا بند کر دے۔
عام آدمی کا خیال ہے کہ ملک میں اب کرپشن نہ تو برائی ہے اور نہ ہی جرم۔ ہاں سیاسی مخالف اگر اس میں ملوث ہے تو پھر یہ جرم بھی ہے اور برائی بھی ہے۔ نیب کو اسی مقصد کیلئے بنایا گیا تھا کہ وہ حکومتی مخالفین کو ''آنّے والی جگہ‘‘ پر رکھ سکے۔ طبیعت صاف کر سکے اور بوقت ضرورت بازو مروڑ کر اوقات یاد دلوا سکے۔ ڈاکٹر عاصم کو پکڑ سکے، رینٹل پاور کے سلسلے میں راجہ پرویز اشریف کو فکس کر سکے، ''ٹڈاپ‘‘ سکینڈل کی تفتیش کر سکے اور شرجیل میمن کو خوفزدہ کر کے دوبئی بھاگنے پر مجبور کر دے۔ یہ سب کچھ نیب کے دائرہ اختیار میں بھی ہے اور اس کا جائز اختیار بھی۔ اس کے علاوہ اگر وہ رانا مشہود کی طرف دیکھے تو خرابی ہے۔ رانا ثناء اللہ پر نظر دوڑائے تو معصوم لوگوں کو تنگ کرنا ہے۔ اسحاق ڈار کی منی لانڈرنگ پر سوال اٹھائے تو باقاعدہ گناہ ہے۔ اورنج ٹرین اور میٹرو پر سوال اٹھائے تو یہ باقاعدہ اعلانِ جنگ ہے۔
جیسا کہ میں ابتدا میں کہہ چکا ہوں اس ملک میں جب حکمران کرپشن کا لفظ استعمال کریں تو اس کا مطلب ہے پچھلے والوں کی کرپشن۔ مخالفین کی کرپشن۔ گذری حکومت کی کرپشن۔ اگر احتساب کا نعرہ لگائیں تو اس کا مطلب ہے کہ پچھلے والوں کا احتساب۔ مخالفین کا احتساب اور گذری حکومت کا احتساب۔ اپنی کرپشن تو خیر کسی نے مانی ہی کبھی نہیں۔ زرداری ہو، گیلانی ہو، راجہ ہو، ڈار ہو، رانا ہو، گوندل ہو، میمن ہو، مرزا ہو یا ڈاکٹر ہو۔ اس لیے ایک بات تو طے ہو گئی کہ کرپش صرف وہ ہے جو دوسر ے کریں۔ اب رہ گیا احتساب! تو احتساب دوسروں کا ہوتا ہے۔ اگر اپنی باری آئے تو یہ انتقام ہے، سیاسی غنڈہ گردی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے اور اس سے قومی مفاہمت کو خطرہ ہے اور غیر جمہوری طاقتیں فائدہ اٹھائیں گی۔ وزیراعظم کا فرمانا ہے کہ نیب معصوم لوگوں کو تنگ کر رہی ہے۔ تا ہم میاں شہباز نے تو معاملہ سرے سے ہی ختم کر دیا اور فرمایا کہ ہماری حکومت میں کوئی کرپٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ اب اس دعوے کے بعد پنجاب میں کرپشن پر بات کرنے کی کوئی گنجائش رہ جاتی 
ہے؟۔ چھوٹے میاں صاحب نے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ وہ خدا اور عوام کی عدالت میں جوابدہ ہیں۔ نیب وغیرہ جیسے ادارے اور ملکی عدالتیں ان سے اس قسم کی کوئی بازپرس نہیں کر سکتے کہ انہوں نے بتا دیا ہے کہ وہ صرف دو فورمز کے سامنے جوابدہ ہیں۔ باقی سب کچرا ہے۔
چلیں میاں نواز شریف کی بات مان لیتے ہیں کہ نیب معصوم لوگوں کو تنگ کر رہی ہے۔ یعنی نیب زدگان تمام لوگ معصوم ہیں، بے گناہ ہیں، ا یماندار ہیں اور صاف ستھرے ہیں۔ تو اس ملک میں کرپشن کون کر رہا ہے؟ اربوں روپے کون لوٹ رہا ہے؟۔ کک بیکس کون لے رہا ہے؟۔ کمیشن کون کھا رہا ہے؟۔ رشوت کن کی جیبوں میں جا رہی ہے؟۔ اگر درج بالا تمام لوگ ان ''معصوموں‘‘ کے علاوہ ہیں تو ان کو کس نے پکڑنا ہے؟۔ ہمارے ہاں عجب رواج ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے طرز عمل میں رتی برابر فرق نہیں۔ حکومت بھی عملی اقدامات کیلئے اسی طرح کسی اور سمت دیکھتی ہے جس طرح عوام اور اپوزیشن۔ احتساب اگر نیب کر نہیں سکتی اور حکومت کرنا نہیں چاہتی تو اس سارے پاکھنڈ کو ختم کرے اور کرپشن کو قانونی شکل دے دے۔ ویسے ہی جیسے نیب کے ساتھ پلی بارگین کا معاملہ ہے کہ اگر پکڑے جائیں اور ثابت ہو جائے تو لوٹ مار کی رقم کا کچھ حصہ نیب کو دے کر باقی ساری رقم کو جائز کروالیں۔ جیسے حکمران کچھ عرصہ بعد اپنے پیاروں کو فائدے پہنچانے کی غرض سے ٹیکس ایمنسٹی سکیم شروع کر دیتے ہیں کہ اپنے کالے دھن پر ایک دو فیصد ٹیکس دیں اور سب کچھ قانونی کر لیں۔ مناسب یہ ہے کہ حکومت کرپشن کے بارے بھی ایسا ہی کوئی قانون بنائے کہ کسی بھی منصوبے پر دس فیصد کمیشن، رشوت، کک بیک اور بھتہ جائز ہے اور ٹینڈر وغیرہ میں اس کا باقاعدہ خانہ رکھ دیا جائے۔ دس فیصد سے بیس فیصد تک دو فیصد دے کر جائز کروا لیا جائے اور اس سے اوپر پانچ فیصد پر۔ یہ معاملہ کافی آگے تک جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں لمبی چوڑی قانون سازی کی ضرورت نہیں، بس ہر لوٹ مار کو قانونی شکل دے کر نیب وغیرہ جیسی فضولیات سے جان چھڑوالی جائے تا کہ معصوم لوگ عزت اور چین کی زندگی بسر کر سکیں۔
ایک دوست کا فرمانا ہے کہ میاں صاحبان کا نیب پر گرمی کھانا دراصل ان کے پیاروں پر پڑنے والی متوقع احتسابی افتاد ہے جس کو وہ اور ان کے پیارے افورڈ نہیں کر سکتے۔ جب تک احتساب سندھ میں تھا میاں صاحبان کو پیپلز پارٹی سے اپنی مفاہمت کے پیش نظر پریشانی تو تھی مگر ساتھ ہی ایک اطمنان تھا کہ ان کے اس سلسلے میں معاون از قسم سابق صدر و وزیراعظم وغیرہ بہر حال اس ساری پکڑ دھکڑ سے محفوظ ہیں۔ بڑے میاں صاحب نے ایف آئی اے کی طرف سے ٹڈاپ سکینڈل میں سید یوسف رضا گیلانی کو خاصا ریلیف فراہم کر رکھا تھا لیکن بہر حال یہ بات نا قابل برداشت تھی کہ پنجاب کے معصوم الخطا قسم کے لوگوں کو بھی اسی لاٹھی سے ہانکا جائے جس سے سندھ میں ہانکا جا رہا ہے۔ سندھ کے قریب سو سرکاری افسران ملک سے بھاگ چکے ہیں۔ اگر اسی طرح پنجاب اور مرکز میں کام شروع کیا گیا اور دو اڑھائی سو افسران بھاگ گئے تو ملکی معاملات کو نیب والے چلائیں گے؟۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف دونوں فرماتے ہیں کہ ''نیب خود کو اپنے مقاصد تک محدود رکھے‘‘۔ اب اس عاجز کو بالکل سمجھ نہیں آرہی کہ کرپشن پر لوگوں سے پوچھ کچھ اور تفتیش وغیرہ کے علاوہ نیب کے اور ''مقاصد‘‘ کیا ہیں؟۔ اس دوست کا کہنا ہے کہ نیب کا اصل قصور یہ ہے کہ اس نے حکمرانوں کے پیاروں اور ان کے منصوبوں پر انگلی اٹھائی ہے۔ وزیر خزانہ یعنی وزیراعظم صاحب کے سمدھی کی منی لانڈرنگ کے بارے میں سوالات کیے ہیں اور تفتیش کی ہے۔ اورنج ٹرین اور میٹرو کے پراجیکٹ ڈائریکٹر عامر لطیف کو گرفتار کیا ہے۔ رائے ونڈ روڈ اور ایف آئی اے میں بھرتیوں کا کیس بذات خود میاں صاحبان پر درج ہے اور اس میں تھوڑی ہلچل ہوئی تھی۔ ایم سی بی کے میاں منشاء کے خلاف برطانیہ میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری بارے پوچھ کَچھ ہو رہی ہے۔ ہارون اختر کے شوگر ملز کے سکینڈل پر معاملات میں پیش رفت ہو رہی ہے۔ ایل این جی ٹرمینل کا معاملہ بھی زیر تفتیش ہے اور میٹرو راولپنڈی کے سلسلے میں دو پیارے مشکل میں ہیں۔ وڈیوفیم رانا مشہود بھی ایک انگریزی محاورے کے مطابق ''گرم پانی میں ہے‘‘۔ سو فیصد اصلی وڈیو کے بارے رانا مشہود کا فرمان ہے کہ وہ نقلی ہے۔ اگر نقلی ہے تو اس کا فرانزک ٹیسٹ کروا لیا جائے، دودھ کا دودھ پانی کا پانی بھی ہو جائے گا اور پنجاب حکومت کی کروڑوں روپے لاگت سے بننے والی فرانزک لیبارٹری کی کارکردگی کا بھی پتہ چل جائے گا۔ زکریا یونیورسٹی کے لاہور کیمپس کے سلسلے میں رانا مشہود کے ساتھ زعیم قادری کے نام کی گونج بھی سنائی دیتی رہی ہے اور میاں شہباز شریف کا فرمان ہے کہ ان کی حکومت میں کوئی کرپٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسا دعویٰ دنیا بھر میں کرپشن کے سلسلے میں نیک نام ترین حکومت یا ملک نہیں کر سکتا۔ گو کہ کرپشن ٹیبل میں عالمی سطح پر ٹرانسپیرنسی کے جائزے کے مطابق ایک سو پینسٹھ ممالک میں پاکستان کا ایک سو سترہواں نمبر ہے۔ یعنی ہم سے زیادہ کرپشن صرف اڑتالیس ممالک میں نوٹ کی گئی ہے جبکہ ایک سو سولہ ممالک میں صورتحال ہم سے بہتر ہے۔ میں روزانہ کی بنیاد پر اپنی آنکھوں سے رشوت کا لین دین دیکھتا ہوں اور پنجاب میں دیکھتا ہوں جبکہ میاں شہباز شریف کا فرمان ہے کہ ان کی حکومت میں کوئی کرپٹ ہے ہی نہیں تو یہاں کرپشن آسمان سے اتر کر آنے والے کر رہے ہیں؟۔
شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ یہ سارا ٹوپی ڈرامہ ہے۔ زرداری صاحب فائلیں غائب کر دینے کے ماہر ہیں اور میاں صاحب ''مدا‘‘ غائب کر دینے کے ماہر ہیں۔ یعنی کیس کو قانونی طور پر صاف کر دیتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل تیرہ کی رو سے کسی شخص کو ایک جرم میں دوبار سزا نہیں دی جا سکتی یعنی ایک کیس دوبار ٹرائل بھی نہیں ہو سکتا کہ ایک بار فیصلہ ہو گیا ہے۔ میاں صاحب اسی پریشر اور شور شرابے میں احتجاج کی آڑ میں بری ہو جائیں گے کہ اس سارے ہنگامے کا مقصد ہی یہی ہے۔ لڑائی بھی نظر آئے اور کام بھی ہو جائے۔ میاں صاحبان کا اس سلسلے میں سابقہ ٹریک ریکارڈ بھی خاصا روشن ہے اور ملک میں احتساب کی کسمپرسی کا ریکارڈ بھی خاصا پرانا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں