"KMK" (space) message & send to 7575

طارق محمود سے احمد شجعان تک

اگر میں خود صاحبِ اولاد نہ ہوتا تو بھلا یہ والا فون کرنا کتنا مشکل ہوتا؟ میں نے گزشتہ چھ روز میں بلامبالغہ فون بیسیوں بار اٹھایا اور پھر رکھ دیا۔ کئی بار تو یوں ہوا کہ پورا نمبر ''کی پیڈ‘‘ پر پنچ بھی کر دیا مگر ڈائل کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ فون پر کیا بات کروں گا؟ بلکہ یہ کہ بات کس طرح کر پاؤں گا؟ سو کبھی آدھے اور کبھی پورے نمبروں کو سکرین پر انگلی سے ٹچ کیا مگر پھر یہ کام ادھورا چھوڑ کر فون بند کر دیا۔
تیس سال ہوئے جب ایک دن گھر کے فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون اٹھایا۔ دوسری طرف بڑے بھائی کے دوست شیخ ایوب تھے۔ کہنے لگے: بھائی طارق کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے، بہاولپور میں ہوا ہے، آپ فوراً ادھر آ جائیں۔ شیخ ایوب کی دکان چوک بی سی جی ملتان پر تھی۔ میں اور ابا جی فوراً موٹرسائیکل پر ادھر روانہ ہو گئے۔ شیخ ایوب نے گاڑی کا بندوبست کر رکھا تھا۔ ابا جی اور میں جب وہاں پہنچے تو بھائی طارق مرحوم کے کئی دوست وہاں کھڑے تھے۔ ابا جی نے بے تابی سے پوچھا: کہاں ایکسیڈنٹ ہوا؟ کس چیز کے ساتھ ہوا ہے؟ طارق کا کیا حال ہے؟ انہوں نے ایک ہی سانس میں سارے سوال کر ڈالے۔ شیخ ایوب نے ابا جی کو کندھوں سے پکڑا اور کہا: چاچا جی! بھائی طارق کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔ابا جی ایک دم زمین پر بیٹھ گئے۔ میری آنکھوں تلے اندھیرا سا چھا گیا۔
ابا جی بڑے حوصلے والے تھے۔ میں نے انہیں اتنا بے بس اور لاچار کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک دو منٹ تک وہ اپنا سر تھامے زمین پر بیٹھے رہے۔ پھر کھڑے ہوئے اور کہا: اچھا بئی اللہ میاں! تیری مرضی، اسی کی کہہ سکدے آں؟ (اچھا بھئی اللہ میاں! تمہاری مرضی۔ ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟) پھر میرے کندھے پر ہاتھ مار کر کہنے لگے: رونا نئیں، اللہ نے منع کیتا اے۔ جب وہ یہ کہہ رہے تھے ان کے آنسو ان کے گالوں پر بہہ رہے تھے۔ میں نے اباجی کو اس سے پہلے ایک بار سولہ دسمبر 1971ء کو روتے دیکھا تھا اور پھر سترہ سال بعد اس دن چوک بی سی جی میں شیخ ایوب کی دکان پر۔ پھر انہوں نے شیخ ایوب سے پوچھا کہ کس چیز سے ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ شیخ ایوب کہنے لگا: چاچا جی! وہ تو آپ کو اس لیے بتایا تھا کہ آپ یہاں تک آ جائیں، ہمیں تو بہاولپور سے اس کے انتقال کی خبر ملی تھی۔ ہم نے آپ کو ایکدم بتانا مناسب نہیں سمجھا۔ ہمارا حوصلہ ہی نہیں پڑ رہا تھا۔ ہم گاڑی پر بیٹھ گئے۔ ڈیڑھ گھنٹے کا یہ سفر گزرنے میں نہیں آ رہا تھا۔ دوران سفر سوائے ابا جی کے ایک جملے کے کسی نے ایک لفظ بھی نہ بولا۔ بس میں اور اباجی بڑی خاموشی سے آنسو بہا رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد اباجی نے کُرتے کے بازو سے آنسو صاف کئے اور مجھے کہنے لگے: حوصلہ کر اور یہ سوچ کہ تیری ماں کو یہ خبر کیسے دینی ہے؟ ماں جی لاہور میں تھیں۔ تین دن پہلے ان کی اکلوتی بہن کا انتقال ہوگیا تھا۔ ابا جی اور ماں جی یہ خبر سنتے ہی رات لاہور روانہ ہو گئے تھے۔ میں اور بھائی طارق اگلی صبح جہاز پر لاہور پہنچ گئے۔ ایئرپورٹ سے ہم دونوں سیدھے مسجد پہنچے جہاں نماز جنازہ تھی۔ وہاں سے قبرستان گئے اور اگلے روز صبح کی فلائٹ سے واپس آ گئے۔ اباجی اگلے دن واپس آئے‘ ماں جی وہیں لاہور میں رہ گئیں۔ بہاولپور پہنچ کر میں نے خالہ جی کے گھر فون کر کے ماں جی کو بتایا کہ بھائی طارق کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ان کی طبیعت ٹھیک نہیں‘ آپ فوراً ملتان آ جائیں۔ ہم بھائی طارق کی میت لے کر شام چھ بجے ملتان پہنچ گئے۔ ماں جی رات گئے ایک بجے ملتان پہنچیں۔ خالو شبیر مرحوم بھی ان کے ساتھ ملتان آ گئے تھے۔
اباجی نے صبح جنازہ اٹھانے سے قبل بھائی طارق کو آخری بار دیکھا۔ دونوں گال تھپتھپائے اور کفن سے منہ ڈھانپ دیا۔ تب اباجی بے حد کمزور لگ رہے تھے‘ صرف ایک دن میں۔ جب جنازہ اٹھانے کا وقت آیا تو وہ بڑے ملال سے کہنے لگے: لے بئی طارق! جیہڑا کم توں کرنا سی اوہ مینوں کرنا پے گیا اے۔ (لے بھئی طارق! جو کام تم نے کرنا تھا وہ مجھے کرنا پڑ گیا ہے) قبرستان سے واپس گھر آ کر وہ کہنے لگے: زندگی میں انسان کو بے شمار صدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماں باپ کو دفن کرنا پڑتا ہے۔ بہن بھائی آنکھوں کے سامنے رخصت ہو جاتے ہیں لیکن ان سب صدمات سے کہیں بڑھ کر، بلکہ شاید روئے ارض پر سب سے بڑا صدمہ یہ ہے کہ باپ اولاد کے کندھوں پر چڑھ کر قبرستان جانے کے بجائے اپنی اولاد کو کندھوں پر اٹھا کر قبرستان لے جائے۔ اباجی کی آنکھیں‘ جو گزشتہ رات کے بعد خشک نظر آ رہی تھیں‘ یہ بات کہتے ہوئے دوبارہ بھیگ گئیں۔ اباجی کو یہ صدمہ دوسری بار پہنچا تھا۔ پہلی بار گیارہ سال قبل، جب میری بڑی بہن کا تیئس سال کی عمر میں انتقال ہوا اور اب جب بھائی طارق کا انتقال ہوا۔ بھائی طارق کی عمر چھتیس سال تھی جب وہ رخصت ہوئے۔اباجی کی بات شاید پوری طرح سمجھ نہ آتی اگر میری بیٹی پیدا نہ ہوئی ہوتی۔ لیکن مجھے اولاد کی محبت کا اندازہ ہو چکا تھا۔ مجھے بعد میں بڑی حیرانی ہوتی تھی کہ ابا جی نے اور ماں جی نے پہلے بڑی بیٹی اور پھر بڑے بیٹے کا صدمہ کیسے حوصلے سے برداشت کر لیا۔ اللہ کا حکم اپنی جگہ مگر انسان کو جذبات بھی تو اسی ذاتِ باری نے عطا کیے ہیں۔
میں اپنے برادرِ نسبتی کے بیٹے کی بارات کے ساتھ مظفر آباد آزاد کشمیر کے لیے روانہ ہوا ہی تھا کہ وسیم یوسف کا فون آگیا۔ وہ پوچھنے لگا :آپ کو گوندل صاحب والے سانحے کا پتا ہے؟ میں نے پوچھا: کیا ہوا ہے؟ وہ کہنے لگا: واٹس ایپ پر میسج چل رہا ہے کہ گوندل صاحب کے بیٹے کا انتقال ہو گیا ہے۔ میں نے کہا: میں سفر میں ہوں اور فون وغیرہ پر پیغامات نہیں دیکھ پا رہا، اس لیے اس خبر کی تصدیق کے لئے ایک دوست کو فون کرتا ہوں۔ میں نے شیخ افضل کو فون کیا۔ وہ خود صدمے کی حالت میں تھا لیکن پوری طرح کنفرم اسے بھی نہیں تھا؛ تاہم وہ بھی میری طرح زاہد سلیم گوندل کو فون کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ بھلا یہ کوئی آسان کام تھا؟گزشتہ چھ روز میں سفر میں رہا اور گزشتہ رات ہی زاہد سلیم گوندل کے پاس پہنچ پایا اور دعا کے چار حرف ادا کر کے زاہد سلیم گوندل سے زیادہ خود کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
زاہد سلیم گوندل سے دوستی مہ و سال کے اعتبار سے زیادہ پرانی نہیں۔ یہی چار پانچ سال پرانی۔ زاہد سلیم گوندل اکتوبر 2013ء میں ملتان ڈی سی او بن کر آئے۔ ادب دوست اور ادب پرور۔ انگریزی ادب میں ماسٹرز گوندل صاحب سے پہلی ملاقات ویسی ہی رہی جیسی کسی سرکاری افسر سے ہو سکتی ہے۔ اس ملاقات میں مَیں نے ان سے کہا کہ ملتان کے ادیبوں اور شاعروں کے لیے کوئی ڈیرہ، کوئی بیٹھنے کی جگہ، ٹھکانہ بن جائے تو کیسی بھلی بات ہو۔ چار پانچ ماہ بعد مجھے ان کا فون آیا۔ کہنے لگے: ملاقات ہو سکتی ہے؟ میں نے پوچھا: خیریت ہے؟ جواب ملا، ملنے پر بتاؤں گا۔ میں کیمپ آفس چلا آیا۔ وہاں سے گاڑی پر ساتھ بٹھایا اور آرٹس کونسل کے ساتھ زیرِ تعمیر عمارت کے پاس لے آئے۔ کہنے لگے: پتا ہے یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ ہنس کرکہا: اتنی جلدی اپنی فرمائش بھول گئے، یہ ملتان ٹی ہاؤس ہے۔ ہماری دوستی اس دن شروع ہوئی بلکہ دوستی بھی کیا، وہ مجھے بڑے بھائی کا احترام دیتے تھے۔ ہم گھنٹوں گفتگو کرتے تھے۔ اکثر شیخ افضل بھی ساتھ ہوتے‘ بلکہ یوں ٹھیک ہوگا کہ میں بھی شیخ افضل کے ساتھ ہوتا۔ بچوں کی، ان کی پڑھائی کی، ان کی کامیابیوں کی۔ غرض ہر موضوع پر بات ہوتی۔ احمد شجعان کی تعلیمی کامیابیوں کا ذکر۔ احمد سلجوق بارے گفتگو۔ احمد شجعان کا ہارورڈ میں داخلہ۔ اعلیٰ تعلیمی مدارج میں کامیابیاں۔ ذکر کرتے ہوئے خوشی زاہد سلیم کے چہرے سے پھوٹتی نظر آتی۔ چوبیس سال کی عمر میں دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے فارغ ہو کر آنے والے ہونہار بیٹے کو ابھی آنکھیں پوری طرح دیکھ کر ٹھنڈی بھی نہ ہوئی تھیں کہ آنسو بہانے پر مامور ہو گئیں۔
ابا جی ایک بار پھر بہت یاد آئے۔ کہتے تھے: روئے ارض پر سب سے بڑا صدمہ یہ ہے کہ باپ اولاد کے کندھوں پر چڑھ کر قبرستان جانے کے بجائے اپنی اولاد کو کندھوں پر اٹھا کر قبرستان لے جائے۔ اب آپ خود بتائیں بھلا زاہد سلیم گوندل سے فون پر احمد شجعان سے متعلق گفتگو کرنا، صرف تسلی دینا ممکن ہے؟جب میں زاہد سلیم گوندل سے گلے ملا تو ویسا ہی صابر اور حوصلہ مند پایا جیسے تیس سال پہلے والد صاحب کو۔ جس طرح میں نے طارق محمود کے چلے جانے کے دکھ کو اباجی کی ذات کے حوالے سے محسوس کیا ہے، اسی طرح احمد شجعان کے جانے کے حوالے سے زاہد سلیم گوندل کے دکھ کو محسوس کر سکتا ہوں، آخر کو میں بھی صاحبِ اولاد تو ہوں ناں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں