"KMK" (space) message & send to 7575

ٹولیڈو، طلیطلہ اور پھر ٹولیڈو

میں اپنی بڑی بیٹی کے پاس آج کل ٹولیڈو میں ہوں۔ یہ امریکی ریاست اوہائیو کا شہر ہے۔ بے شمار امریکی شہروں کی طرح یہ بھی کسی اور شہر کے نام کا چربہ ہے۔ امریکہ میں ان گنت شہروں کے نام پہلے سے موجود شہروں کے نام پر ہیں۔ خصوصاً برطانوی شہروں اور قصبوں کے نام پر۔ جہاں جہاں سے تارکین وطن یہاں آئے اپنے شہر یا قصبے کا نام اپنے ساتھ لے کر آئے۔ نئی دنیا تھی۔ پہلے سے شہر موجود نہ تھے سو جسے آباد کیا آنے والوں نے اسے اپنی جنم بھومی یا سابقہ رہائشی شہر کے نام سے منسوب کر دیا۔ ویسے ہی جیسے میاں نواز شریف نے اپنی رائے ونڈ روڈ پر جاگیر کو ''جاتی امرا‘‘ کا نام دے دیا ہے۔ امریکہ میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
امریکی ریاست ورجینیا میں ایک قصبہ ہے جس کا نام لاہور ہے۔ لندن نام کے کئی شہر اور قصبے امریکہ میں ہیں۔ ایک عدد اوہائیو میں، دوسرا ریاست کینٹکی میں اور تیسرا ریاست ارکنساس میں۔ مانچسٹر نام کے دو شہروں سے تو میں بھی واقف ہوں۔ گلاسگو کے نام کی مقبولیت نے تو حد ہی مکا کر رکھ دی ہے۔ امریکہ میں گلاسگو نام کے اکیس شہر اور قصبے ہیں۔ یہی حال برمنگھم، لیور پول اور ساؤتھمپٹس وغیرہ کا ہے۔ یہ تو خیر سے برطانوی شہروں کے نام ہوئے۔ یورپ کے دیگر بڑے شہروں کے ناموں کا بھی یہی حال ہے۔ تین عدد روم ہیں۔ دو عدد برلن ہیں۔ چھ عدد پیرس ہیں جو مختلف ریاستوں میں ہیں۔ میڈرڈ بھی موجود ہے۔ حتیٰ کہ شنگھائی بھی ہے۔ دو عدد دہلی ہیں۔ دمشق نام کا شہر ورجینیا میں، بغداد اریزونا میں، قاہرہ الی نوائے اور انڈیانا میں موجود ہے۔ حتیٰ کہ ریاست مسوری میں کابول، کیلی فورنیا میں باکو، الی نوائے میں سویز، اوہائیو میں کلکتہ، پنسلوانیا میں لکھنؤ، نیو یارک میں ممبئی، مشی گن میں سنگا پور، کیلی فورنیا میں خرطوم، نیو یارک میں بابل اور ریاست کینٹکی میں قلات نام کا شہر موجود ہے۔ یہ تو صرف معمولی سا جائزہ ہے۔
ٹولیڈو دراصل سپین کے شہر ٹولیڈو کے نام کا چربہ ہے۔ سپین کا ٹولیڈو اندلس کا طلیطلہ (Tulaytulah) ہے۔ یہ شہر کم از کم بھی دو ہزار سال سے زیادہ پرانا ہے جبکہ امریکہ والا ٹولیڈو 1833ء میں بنا۔ رومن تاریخ دان لیوی (Livy) نے ٹولیڈو کا تذکرہ عیسوی سن کے حساب سے اس کے پہلے عشرے کے لگ بھگ کیا تھا‘ کیونکہ سترہ عیسوی میں تو خود لیوی اس دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔ ٹولیڈو پر عربوں کی حکمرانی کا آغاز اموی دور حکومت میں ہوا‘ جب موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد نے سپین میں فتوحات کا سلسلہ شروع کیا۔ ٹولیڈو بھی اسی دور میں فتح ہوا اور قرطبہ میں مقیم امویوں کے نامزد کردہ اندلس کے گورنر کے زیر انتظام تھا۔ عربوں کے دورِ اقتدار میں گریناڈا غرناطہ میں تبدیل ہوا، سیویا کا عربی نام اشبیلیہ قرار پایا۔ کارڈوبا قرطبہ میں بدل گیا اور تبھی ٹولیڈو بھی طلیطلہ ہو گیا۔
742ء میں بربروں نے بنو امیہ کے نامزد کردہ گورنر کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ ایک ماہ کے محاصرے کے بعد قرطبہ کے گورنر عبدالمالک ابن کتان کے فوجی دستوں نے بربر باغیوں کو تو پیچھے دھکیل دیا‘ مگر خود گورنر عبدالمالک ابن کتان اپنے عرب اتحادیوں کے ہاتھوں قرطبہ میں قتل ہوا اور قرطبہ پر تلابہ ابن سلامہ نے قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں یوسف الفہری نے اندلس کی حکومت سنبھال لی۔ اسی دوران دمشق میں بنو امیہ کا اقتدار اختتام کو پہنچا۔ 756ء میں عبدالرحمان الداخل اندلس آن پہنچا۔ یوسف الفہری کو شکست ہوئی؛ تاہم قرطبہ پر اس کی حکومت کے عوض اس سے صلح کا معاہدہ ہوا‘ جو اس کی خلاف ورزی کے باعث ختم ہو گیا۔ یوسف کو جنگ میں شکست ہوئی اور وہ بھاگ کر اپنے کزن حاکم طلیطلہ ہشام ابن عروہ کے پاس چلا گیا‘ مگر دو تین سال بعد وہیں قتل ہو گیا۔ ہشام کئی سال تک عبدالرحمان کے خلاف مزاحمت کرتا رہا لیکن 764ء میں عبدالرحمان نے طلیطلہ پر قبضہ کر کے اسے اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔
طلیطلہ اور بغاوتوں میں چولی دامن کا ساتھ رہا۔ 764 عیسوی سے 857 عیسوی تک طلیطلہ اموی سلطنت کا حصہ رہا اور اس نے بہت ترقی کی۔ ہشام ابن عروہ کی بغاوت کے قریب بیس سال بعد یوسف کے بیٹے عبدالاسود نے 785ء میں بغاوت کر دی۔ اس بغاوت کو عبدالرحمن نے کچل دیا اور اپنے بڑے بیٹے سلیمان کو طلیطلہ کا گورنر بنا دیا۔ عبدالرحمان نے اپنا جانشین اپنا چھوٹا بیٹا ہشام بنایا تو سلیمان نے اپنے بھائی عبداللہ سے مل کر بغاوت کر دی مگر جلا وطن ہو کر منظر نامے سے غائب ہو گیا۔ 789ء میں عبداللہ نے ہتھیار ڈال کر معافی نامے کے عوض جان بخشی طلب کر لی۔ 792ء میں ہشام کا بیٹا الحکم طلیطلہ کا گورنر بن گیا جو ہشام کی وفات کے بعد 796ء میں اندلس کا امیر مقرر ہوا۔ 
853ء میں عبدالرحمان دوم کی وفات کے ساتھ ہی طلیطلہ والوں نے ایک بار پھر بغاوت کر دی۔ محمد اول کے حکومت سنبھالتے ہی طلیطلہ والوں نے گورنر کو یرغمال بنا لیا اور قریبی کالا ٹراوا پر حملہ کر دیا۔ اس کی فصیل توڑ دی اور قتل عام شروع کر دیا۔ محمد اول نے بمشکل بغاوت تو ختم کر دی مگر طلیطلہ پر قبضہ نہ کر سکا۔ اس دوران طلیطلہ والوں نے قریبی عیسائی ریاست اسٹورپاس سے معاہدہ کر لیا۔ 858ء میں خود امیر محمد اول نے لشکر کی قیادت کی مگر شہر پر قبضہ نہ ہو سکا۔ طلیطلہ قریب بیس سال عملی طور پر خود مختار رہا اور بالآخر 873ء میں محمد اول اس پر دوبارہ قبضہ کر سکا۔
920ء میں بنو قاسی کے موسیٰ ابن موسیٰ نے طلیطلہ پر قبضہ کر لیا جو عبدالرحمان سوم نے بارہ سال بعد 932ء میں ختم کروایا۔ 1009ء میں بنو امیہ کے آخری حکمرانوں میں سے ایک محمد دوم المہدی قرطبہ میں بربروں کی بغاوت کے بعد طلیطلہ آ گیا۔ المہدی نے اورگل اور بار سلونا کے کاؤنٹس کی مدد سے قرطبہ پر دوبارہ قبضہ حاصل کیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اندلس میں اموی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ پوری سلطنت طائفہ ریاستوں میں بٹ گئی۔ طلیطلہ بھی طائفہ ریاست بن گئی۔ یہ زوال کا آغاز تھا۔ 1062ء میں طلیطلہ کے حاکم المامون نے عیسائیوں کو خراج کے عوض اپنی حکومت بچائی۔ 1065ء میں المامون نے ویلنشیا پر قبضہ کر لیا جو اس کی وفات تک قائم رہا۔ اسی دوران الفانسو چہارم نے المامون کی مدد سے غرناطہ پر قبضہ کر لیا۔ المامون نے جنوری 1075ء میں قرطبہ پر قبضہ کر لیا۔ 1076ء میں المامون قرطبہ میں قتل ہو گیا۔ المعتمد نے دوبارہ قرطبہ پر قبضہ کر لیا۔ المامون کے بعد اس کا بیٹا القادر حکمران بنا۔ اس کے بعد وہ گنجلک دورِ حکمرانی شروع ہوا کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ روزانہ بغاوتیں، روزانہ نئے اتحادی اور الفانسو اور المعتمد کی ہر چوتھے دن مراجعت اور پیش قدمی۔ بالآخر المعتمد نے طلیطلہ پر قبضہ کر لیا مگر یہ قبضہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ 1084ء کی سردیوں میں الفانسو نے شہر کا محاصرہ کر لیا جو 24 مئی 1085ء کو طلیطلہ پر قبضے کے ساتھ ختم ہوا۔
طلیطلہ ابتدا تھی۔ المیریا 11 اکتوبر 1147ئ‘ قرطبہ 7 فروری 1236ئ‘ اشبیلیلہ 23 نومبر 1248ئ‘ مالقہ 18 اگست 1487ء اور آخری طائفہ ریاست غرناطہ 2 جنوری 1492ء کو ختم ہوئی۔ اندلس سپین قرار پایا۔ قرطبہ دوبارہ کارڈوبا، اشبیلیہ پھر سے سیویا (Seville) مالقہ ایک بار پھر مالاگا، غرناطہ گریناڈا اور طلیطلہ دوبارہ ٹولیڈو ہو گیا۔
میں ٹولیڈو میں ہوں لیکن یہ 1833ء میں آباد ہونے والا ٹولیڈو ہے‘ جو اندلس والے طلیطلہ کے پرانے یا نئے نام، جو بھی کہہ لیں‘ کا ہم نام ہے اور امریکہ میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں