"KMK" (space) message & send to 7575

زمستاں کی بارش اور پروفیسر خرم قادر

مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ اگر دادا مرحوم زندہ ہو کر آ جائیں تو صرف سبزیوں کا موجودہ ریٹ سن کر دوبارہ وفات پا جائیں گے۔ ایک زمانہ تھا دس بارہ روپے کی سبزی خریدتے تھے تو ساتھ پاؤ بھر دھنیا اور ایک مُٹھی سبز مرچوں کی مفت مل جاتی تھی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پانچ سو روپے کی سبزی لیں تو ''کنجڑا‘‘ کانپتے ہاتھوں سے چار پانچ گرام دھنیا ڈال دیتا ہے۔ رہ گئی مفت والی سبز مرچیں تو‘ وہ آج کل بذات خود دو سو روپے کلو فروخت ہو رہی ہیں۔ ''جھونگے‘‘ میں مرچوں کی ترسیل اب قصہ ٔماضی ہے۔ یہ لفظ ''کنجڑا‘‘ بھی اب متروک ہو چکا ہے۔ آخری بار یہ لفظ مرحوم شیخ عبدالخالق کے منہ سے سنا تھا ‘جب وہ پروفیسر عبدالقدوس کا ایک واقعہ سنا رہے تھے۔ بھنڈی‘ مٹر‘ شملہ مرچ‘ لہسن اور اسی قبیل کی درجن بھر سبزیوں کا ریٹ پوچھیں تو سبزی والا اب کلو کے بجائے پاؤ میں بھاؤ سناتا ہے۔
گزشتہ روز پروفیسر ڈاکٹر خرم قادر میرے پاس تشریف لائے۔ برسوں بعد ملاقات ہوئی اور ایسی گفتگو سننے کو ملی جو اب ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ خالص علمی‘ تاریخی‘ زمینی شجرے اور انسانی شیرازے سے جڑی ہوئی گفتگو۔ انسان بھی وہ جو زمین سے جڑے ہوئے ہیں۔ عام لوگ‘ میرے جیسے اور اس دھرتی پر رہنے والے اکثر لوگوں کی طرح والے۔ باتیں کرتے کرتے ایک دم خرم قادر صاحب رکے اور پوچھنے لگے: خالد! تم بازار جاتے ہو؟ گلیوں میںگھومتے ہو؟ لوگوں سے ملتے ہو؟ یہ ایسا سوال تھا جو کسی نے ایک عرصے بعد مجھ سے کیا۔ اب لوگ ایسا سوال نہیں کرتے۔ گاڑیوں کا ماڈل پوچھتے ہیں۔ جائیدادوں اور پلاٹوں کی قیمت بارے دریافت کرتے ہیں۔ ذریعہ آمدنی اور آمدنی کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت کی کارکردگی بارے آپ کی رائے جانچتے ہیں۔ زیادہ توپ چلائیں تو ملکی اور علاقائی صورتحال پر گفتگو کر لیں گے‘ لیکن خاک نشینوں بارے اب گفتگو آؤٹ آف فیشن ہوتی جا رہی ہے۔ گلیوں‘ محلوں اور بازاروں بارے بھلا پوچھنے کا اب رواج کہاں رہ گیا ہے؟ لیکن پروفیسر خرم قادر عام بہاؤ کے ساتھ بہنے والا عالم نہیں ہے۔
پروفیسر خرم قادر کو پہلی بار شاید 1979ء کے وسط میں دیکھا تھا۔ زکریا یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں خرم قادر صاحب نئے نئے آئے تھے۔ شعبہ تاریخ تب یونیورسٹی سے باہر کرائے کی کوٹھی میں قائم تھا۔ یونیورسٹی بھی بھلا تب یونیورسٹی کی اپنی بلڈنگ میں کب تھی؟ میرے قدیمی سکول گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی کی مستعار شدہ عمارت میں قائم تھی۔ اس سکول سے پانچ سال پہلے میں نے میٹرک کیا تھا اور پھر ایمرسن کالج سے گریجوایشن کرنے کے بعد دوبارہ اسی سکول میں آگیا۔ اتفاقاً میری ایم بی اے کی کلاس کا کمرہ بھی وہی تھا جس میں مَیں نے دسویں جماعت کی کلاس پڑھی تھی۔ ہیڈ ماسٹرصاحب والے کمرے میں پہلے پہل تو اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ معراج صاحب بیٹھتے تھے‘ پھر یہ کمرہ شعبہ ایم بی اے کے سربراہ کومل گیا۔ اس کمرے میں ڈاکٹر محمود بودلہ‘ رضا علی بابر‘ ملک ظفراللہ اور ڈاکٹر حیات اعوان بطور سربراہ شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن بیٹھتے رہے۔
میرا شعبہ اولڈ کیمپس والی اسی مستعار شدہ عمارت میں تھا اور شعبہ تاریخ و مطالعہ پاکستان بوسن روڈ کے دوسری طرف گلگشت ہائی سکول کی عمارت سے تھوڑا آگے واقع تھا۔ شعبہ انگریزی بھی اسی طرف تھوڑا پہلے والی کوٹھی میں تھا۔ شعبہ انگریزی میں ہمارا دوست رانا محبوب اختر ہوتا تھا۔ شعبہ تاریخ میں مظفر محمود‘ ظفر اور فقیر اختر نواز ہوتے تھے۔ خرم قادر صاحب سے وہیں سرِراہ ملاقاتیں شروع ہوئیں اور آہستہ آہستہ ہماری ان سے شناسائی قدرے بہتر تعلقات میں بدل گئی۔ خرم قادر ان اساتذہ میں سے تھے پڑھانا جن کا شوق ہوتا ہے۔ شعبہ تاریخ کے سربراہ ڈاکٹر عاشق محمد خان درانی تھے۔ درانی صاحب والد صاحب مرحوم کے دیرینہ دوست اور ایمرسن کالج میں ان کے کولیگ تھے۔ میں انہیں اس رشتے کے حوالے سے ''چاچا بی‘‘ کہتا تھا اور خواہ مخواہ قسم کی بے تکلفی کے مزے لیتا تھا۔ میری ان حرکتوں سے درانی صاحب بھی لطف لیتے تھے اور ان کے طالب علم اور سٹاف بھی۔ اس بے تکلفی کے باعث ان کا چپڑاسی پیر محمد کئی دفعہ ڈانٹ ڈپٹ کا شکار ہوتا تھا۔ ایک دو بار پیر محمد کے پاس درانی صاحب کے گھر سے آئی ہوئی کوئی نہ کوئی کھانے کی چیز ہم کھسکا کر یا چھین جھپٹ کر کھا جاتے تھے۔ ایک بار درانی صاحب بھینس کی ''بوہلی‘‘ لائے۔ غالباً اردو میں ''بوہلی‘‘ کو کھیس کہتے ہیں۔ ہم وہ پوری کی پوری چٹ کر گئے اور جب درانی صاحب نے ٹفن کا ڈبہ کھولا تو اندر کچھ بھی نہیں تھا۔ تب پیر محمد کی بڑی شامت آئی مگر پیر محمد اللہ جنت نصیب کرے رتی برابر ملول نہ ہوا اور ڈانٹ ڈپٹ کے بعد ہمیں ہنس ہنس کر درانی صاحب کی گرما گرمی بارے بتا کر محظوظ ہوتا رہا۔ خرم قادر صاحب سے ہمارے تعلقات کی نوعیت بڑی مزیدار تھی۔ نہ زیادہ بے تکلفی اور نہ ہی سرد مہری۔ کہاں ہمارا شعبہ اور کہاں تاریخ کا مضمون۔ کوئی تعلق یا نسبت نہ تھی مگر دوستی چلتی رہی اور وقت گزرنے کے ساتھ پختہ ہوتی گئی۔ بلکہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد تو مزید پختہ ہو گئی۔ یہ اساتذہ کی وہ نسل ہے جو اب عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ بلکہ شاید یہ اس قبیل کی آخری نسل ہے۔ حصول علم اور تقسیم علم میں ہمہ وقت مصروف۔ آج کل ایک کتاب پر کام کر رہے ہیں۔ ریٹائرڈ لائف کو بیکار گزارنے اور پنشن پر مزے کرنے کے بجائے انسانوں اور ان کے زیر قبضہ ریاستوں یا ممالک کے تاریخی حوالوں سے ارتقا اور تقسیم و تبدیلیوں کے حوالے سے ایک بہت ہی پھیلے ہوئے موضوع کو سمیٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کی اہلیہ محترمہ ثمینہ قادر انگریزی کی استاد تھیں۔ بعد ازاں وہ فاطمہ جناح وومن یونیورسٹی راولپنڈی کی وائس چانسلر بھی رہیں۔
قارئین! معاف کیجئے گا۔ میں تھوڑا بہک گیا تھا۔ اصل میں ماضی سے جڑا ہوا شخص ہوں۔ شاید غلط وقت کی پیداوار ہوں لیکن اس ''مینو فیکچرنگ فالٹ‘‘ کا اب کیا ہو سکتا ہے؟ مینو فیکچرنگ فالٹ والی پراڈکٹ درست نہیں ہو سکتی۔ عموماً ایسی پراڈکٹ کو اس کا مینو فیکچر مارکیٹ سے واپس اٹھا لیتا ہے۔ میرا مینو فیکچر جب مناسب سمجھے گا اپنی اس پراڈکٹ کو مارکیٹ سے واپس اٹھا لے گا۔ فی الحال تو اسی مینو فیکچرنگ فالٹ کے ساتھ میں بھی گزارا کر رہا ہوں آپ سے بھی یہی التماس ہے۔
خرم قادر صاحب نے مجھ سے پوچھا: کبھی بازار جاتے ہو؟ میں نے جواب دینے سے پہلے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک مڑا تڑا کاغذ نکال کر ان کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ پوچھنے لگے‘ یہ کیا ہے؟ میںنے کہا ‘خود دیکھ لیں۔ یہ سبزی کا بل ہے۔ کل خریدی ہے۔ خود بازار جاتا ہوں سبزی‘ دہی‘ دال‘ مصالحے اور گھی شکر خود خریدتا ہوں۔ پہلے یہی کام میری اہلیہ کرتی تھی اب میںکرتا ہوں۔ ہر چیز کا ریٹ معلوم رہتا ہے۔ عام آدمی کی کسمپرسی سے آگاہ رہتا ہوں۔ بجلی‘ گیس ا ور فون کا بل خود بھرتا ہوں۔ اس سے مخلوق کی حالت کا پتا چلتا رہتا ہے۔ خرم قادر صاحب نے کاغذ کو سیدھا کیا اور پڑھنے لگ گئے۔ ایک کلو ٹماٹر 200روپے‘ آدھا کلو ادرک 200روپے‘ دو کلو پیاز 160روپے‘ ایک کلو لہسن 320روپے‘ ایک کلو مولی 50روپے‘ آدھا کلو بتاؤں (بینگن) چالیس روپے۔ خرم قادر صاحب پڑھنے کے بعد ایک آدھ منٹ کے لئے خاموش ہو گئے۔ میں نے کہا مسئلہ مہنگائی کا بھی ہے اور حکومت کی مکمل نالائقی‘ نااہلی اور بے حسی کا بھی۔ سبزیاں اتنی مہنگی ہیں نہیں جتنی مہنگی فروخت ہو رہی ہیں۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ 
شاہ جی بتا رہے تھے کہ منڈی میں گزشتہ روز بینگن ستر روپے دھڑی فروخت ہو رہا تھا۔ ایک دن گھر میں یہ لفظ ''دھڑی‘‘ استعمال کیا تو بیٹی پوچھنے لگی‘ یہ دھڑی کیا ہوتی ہے؟ میں نے کہا‘ پانچ کلو منڈی وغیرہ میں دھڑی کہلاتا ہے۔منڈی میں بینگن ستر روپے کا پانچ کلو ہے اور بازار میں اسی روپے کلو۔ میں اسی والے بازار میں جاتا ہوں۔ حفیظ شیخ اگر اس بازار میں آئیں تو انہیں پتا چلے کہ ٹماٹر سترہ روپے نہیں بلکہ دو سو روپے کلو ہیں۔ میں نے کہا: خرم صاحب! بازار میں پھرتا ہوں۔ بڑی مزیدار چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ آج کل ایک عجیب رواج چل نکلا ہے‘ دکاندار‘ ریڑھی والا‘ پھٹے والا اپنی چیز کی قیمت ڈبل کر دیتا ہے اور پوچھنے پر عمران خان اور حکومت کو چار گالیاں نکالتا ہے۔ چلیں قیمت بڑھنے کا جواز مل گیا۔ دو چار گالیاں اور قیمت ڈبل۔ بھلا حکومت اس سے زیادہ مزے اور کیا کروائے؟ خود گالیاں کھاتی ہے اور نفع بلکہ لوٹ مار والا نفع دکاندار‘ ریڑھی والا اور خوردہ فروش لے رہا ہے۔
اسی دوران باہر بارش شروع ہو گئی۔ سردیوں کی پہلی بارش‘ باہر بارش تھی اور خرم قادر کی گفتگو۔ بھلا اس سے بہتر دن اور کیا ہو سکتا تھا؟ سردیوں کی بارش اور معین نظامی کی نظم۔ اکیس اکتوبر کے کالم کے حوالے سے درجن بھر لوگوں نے معین نظامی کی نظم کے بارے استفسار کیا۔ کسی روز معین نظامی کی بارش والی نظم کے ساتھ دو تین اور نظمیں ہوں گی ‘لیکن فی الحال صرف بارش اور پروفیسر خرم قادر۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں