"KMK" (space) message & send to 7575

گڈی مالکاں دی، نخرے لوکاں دے

زکریا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ایم بی اے کے سابق طلبہ نے ایک واٹس ایپ گروپ بنا رکھا ہے جس کا میں بھی ممبر ہوں۔ گزشتہ دنوں اس گروپ میں حیدر بخاری نے ایک پوسٹ شیئر کی۔ وہ کسی ریٹائرڈ بریگیڈیئر بشیر ارائیں کی پوسٹ تھی جو اس گروپ میں فارورڈ کی گئی تھی۔ پہلے یہ پوسٹ ہو جائے، باقی باتیں بعد میں ہوں گی۔ بشیر ارائیں لکھتے ہیں:
''پچھلے دنوں ایک دوست نے تجویز دی کہ نیشنل ہائی وے پر سٹیل ملز سے آگے گلشن حدید کے بعد بائیں جانب بہت غریب سی بستی ہے۔ ان کے لیے بھی کچھ کریں۔ ہم نے حسب توفیق کچھ راشن، بستر اور جوتے خریدے اور پوری ٹیم کے ساتھ اتوار کی صبح اس بستی میں جا پہنچے۔ 100 سے زیادہ کچے پکے مکانوں اور جھگیوں پر مشتمل اس بستی کے مرد حضرات چارپائیوں پر بیٹھے چائے، سگریٹ پینے یا خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ عورتیں اور نوجوان بچیاں ادھر اُدھر بیٹھی تھیں۔ وہ ہماری ویگنوں پر ایسے حملہ آور ہوئیں جیسے سامان ہم سے لیں گی نہیں بلکہ چھین لیں گی۔میں نے سوچا‘ سامان بانٹنے سے پہلے ان سے بات کرنی چاہیے اور مسائل پوچھنے چاہئیں۔ مجھے خیال آیا کہ اگر ان لوگوں کو کام پر لگایا جائے تو ان کی غربت ختم ہو جائے گی اور اس بستی میں خوشحالی بھی نظر آئے گی کیونکہ ہر گھر میں دو دو، تین تین بچیاں اور اسی عمر کے لڑکے اور مرد نظر آ رہے تھے۔
میں جہاںرہتا ہوں‘ اس کالونی میں بہت سارے بزرگ اکیلے رہتے ہیں۔ ان کے بچے روزگار کیلئے کراچی سے باہر ہیں‘ کچھ تو ملک سے ہی باہر ہیں۔ بہت ساری نوکری پیشہ خواتین ہیں اور ان سب کو گھر میں آیا، میڈ، مالی اور ڈرائیور کی تلاش رہتی ہے۔ میں نے سامان بانٹنے سے پہلے جیپ پر چڑھ کر تقریر کر ڈالی کہ ہم آپ کی مدد کرنے آئے ہیں اور نوکری کا بندوبست بھی کررہے ہیں۔ آج ہی بچیوں اور عورتوں کو گھروں میں نوکریاں دیں گے اور اگر کوئی ڈرائیونگ جانتا ہے یا مالی کا کام جانتا ہے تو تیار ہو جائے نوکری پکی۔
آپ یقین کیجیے کہ اندازاً 1000 نفوس والی اس بستی سے کسی ایک مرد، کسی لڑکے، کسی عورت یا بچی کو نوکری یا کام کرنے پر راضی نہ کر سکا۔ عورتوں اور بچیوں کا جواب تھاکہ ہمارے خاندان میں باہر نوکری یا کام کرنے کی اجازت نہیں۔ اور نوجوان لڑکے کہہ رہے تھے کہ ہم گھروں کیلئے پانی بھر کر لاتے ہیں، اس لیے کام پر نہیں جا سکتے۔ یہ سب بظاہر انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سب فارغ ہیں، شہر جاتے ہیں، گھومتے ہیں، امداد لیتے ہیں، دسترخوانوں پر مفت کھانا کھاتے ہیں۔ آتے جاتی گاڑیوں میں چڑھ کر مانگتے ہیں۔ یہ سب ان کا اصل پیشہ ہے۔ میں نے اس صورتحال میں سامان کس دل سے بانٹا یہ خدا جانتا ہے۔
دوسری طرف بہت سے سفید پوش ضرورتمند لوگ کبھی میرے آفس آئیں اور میں کوئی مدد کرنا چاہوں تو انکار کر دیتے ہیں کیونکہ ان کے آنے کا مقصد اور ہوتا ہے۔ کہتے ہیں: کسی جاب پر لگوا دیں تو مہربانی ہوگی۔ ہمارے اردگرد اصل ضرورت مند اور امداد کے حقدار یہی لوگ ہیں۔ خدارا سڑکوں، چوراہوں اور شاپنگ سینٹرز کے باہر کھڑے پیشہ ور فقیروں کو ثواب اور جنت کے لالچ میں پیسے اور امداد دینا بند کر دیں‘ ورنہ ہمارے شہروں کے اندر نکمے، کام چور اور ہڈ حرام لوگوں کی بستیوں کو تیزی سے پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ میری اس گزارش کی سچائی رمضان میں سڑکوں پر مزید واضح شکل میں نظر آنے والی ہے‘‘۔
رمضان آ چکا ہے اور درج بالا تحریر کی سچائی پوری تلخی کے ساتھ سامنے ہے۔ سڑکیں فقیروں، پیشہ ور مانگنے والوں، عادی منگتوں سے اور کام چوروں سے بھری پڑی ہیں۔ ادھر خان صاحب لنگر پر لنگر کھول رہے ہیں۔ موبائل دسترخوانوں کا اہتمام کررہے ہیں اور روزگار کے وسائل بڑھانے کے بجائے لوگوں کو کام چوری اور مفت کے کھانے پر لگا کرمنگتوں، فقیروں، مفت خوروں اور ہڈ حراموں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔
معاف کیجیے، ممکن ہے میں شاید زیادہ سخت الفاظ استعمال کر گیا ہوں۔ بہت سے لوگ مستحق بھی ہوں گے، لیکن کیا تھوڑے سے مستحق لوگوں کو مفت کے کھانے کے بندوبست کی آڑ میں پیشہ ور فقیروں، بھک منگوں، نکموں اور کام چوروں کو سہولت نہیں دی جا رہی؟ سستی شہرت اور سیاسی دکانداری کے علاوہ اس عمل کے کوئی دور رس نتائج نکل سکتے ہیں؟ ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ سابق حکومت نے میٹرو بس اور ٹرین کی شکل میں مستقل سبسڈی پر چلنے والے ان پروجیکٹس کے نام پر قوم کے اوپر ایک بوجھ لاد دیا ہے تو دوسری طرف کیا قومیں لنگروں سے ترقی کرتی ہیں؟ کیا دن بدن بڑھتے ہوئے بیروزگاروں کو کھانے کھلانے سے ملک و قوم میں کوئی بہتری آ سکتی ہے؟ حکومت کب تک ان مستحقین کو مفت کھانا کھلاتی رہے گی؟ ویسے بھی انسان کی کھانے کے علاوہ بیشمار بنیادی ضرورتیں ہیں۔ وہ کہاں سے پوری ہوں گی؟ نتیجہ یہ نکلے گا کہ دسترخوان سے اٹھ کر ان لوگوں کی اکثریت دوبارہ سڑکوں کے کنارے، شاپنگ سنٹروں کے سامنے اور چوراہوں پر آپ سے بھیک مانگنے لگ جائے گی۔ کیا یہ غربت کا حل ہے؟
حکومت کی نہ کوئی واضح پالیسی ہے اور نہ ہی حقائق پر مبنی ترجیحات ہیں۔ حکومت نے تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کو پوچھ تاچھ سے معافی دے کر گویا احسان کیا ہے۔ اور تعمیراتی شعبے سے سوائے وقتی مزدوری کے عام آدمی کو کیا مل سکتا ہے؟ اگر یہ ایمنسٹی صنعتکاری پر دی جاتی تو کارخانے لگتے، ملز چلتیں اور لوگوں کو آئندہ کیلئے مستقل روزگار کی صورت میسر آتی، لیکن ہوا کیا ہے؟ لوگوں نے پلازے بنانے شروع کر دیئے ہیں۔ صرف ملتان میں اس وقت دس بارہ پلازے بن رہے ہیں جبکہ صورتحال یہ ہے پہلے سے بنے ہوئے پلازے خالی پڑے ہیں۔ لوگوں کے پاس کالا دھن پڑا تھا‘ انہوں نے اسے اِدھر اُدھر چھپانے کے بجائے اب پلازہ بنا کر سفید کر لیا ہے اور پلازہ بھلے سے خالی کھڑا رہے ان کو کوئی فکر نہیں کہ یہ پیسہ پہلے بھی تو لاکروں وغیرہ میں بند پڑا تھا۔ اب پلازے کی صورت میں محفوظ ہو گیا ہے۔ بینک کا فرض تو ہے نہیں کہ ادائیگی کی یا سود کی مد میں کوئی بوجھ پڑے۔ اس کو کاروباری زبان میں کرپشن منی پارکنگ کہتے ہیں۔ یعنی کرپشن کے پیسے پلازے کی صورت میں پارک کر دیئے گئے۔ نظروں کے سامنے ہیں، محفوظ ہیں اور جائز ہو چکے ہیں۔ بھلے سے پلازہ خالی پڑا ہے۔ آہستہ آہستہ کرائے پر چڑھ ہی جائے گا یا دکانیں بک جائیں گی‘ کون سی آگ لگی ہوئی ہے؟ کہیں پڑھا کہ نواب سراج الدولہ کے دور میں بنگال میں قحط کے بعد بیروزگاری پھیلی تو نواب سراج الدولہ نے بیروزگاروں اور شرفا کو محلات کی تعمیر پر لگا دیا۔ دن کو جو تعمیرات ہوتی تھیں رات کی شفٹ والے اسے توڑ دیتے تھے۔ صبح والوں کو تعمیر کرنے اور رات والوں کو توڑنے کی مزدوری ملتی تھی۔ نواب سراج الدولہ سے پوچھا تو کہنے لگے اس طرح لوگوں کو محنت اور عزت سے روزی کمانے کی عادت رہتی ہے نہ کہ ہڈحراموں، مفت خوروں اور نکمے لوگوں کی فوج ظفر موج پیدا کی جائے۔
جب خان صاحب ہمیں بتاتے تھے کہ قومیں کیسے ترقی کرتی ہیں، تو اس وقت انہوں نے کبھی لنگروں، دسترخوانوں، موبائل کینٹینوں کا ذکر نہیں کیا تھا۔ تب انڈسٹری، تعلیم، روزگار اور اداروں کی بحالی اور کروڑ نوکریوں کی بات کرتے تھے، اب صورتحال یہ ہے کہ قوم کو آہستہ آہستہ مفت خوری، ہڈ حرامی اور کام چوری پر لگا رہے ہیں۔ کیا عجب ملک ہے جہاں بجلی چوری کرنے والوں کا بل وہ ادا کرتے ہیں جو پہلے سے بجلی کی ادائیگی کر رہے ہیں اور مفت خوروں کا لنگر چلانے کا خرچہ وہ لوگ اٹھائیں گے جو پہلے سے اپنی آمدنی پر ٹیکس دے رہے ہیں۔ نام حکومت کا اور ذمہ داری کام کرنے والوں کی۔ گڈی مالکاں دی، نخرے لوکاں دے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں