"KMK" (space) message & send to 7575

سید علی شاہ گیلانی

سید علی شاہ گیلانی اپنے مالک کے ہاں حاضر ہوگئے اور یہ عاجز لمحۂ موجود میں اپنے آئیڈیل سے محروم ہو گیا اورہاں! اس کیساتھ ہی مقبوضہ جموں و کشمیر میں پاکستان کی سب سے توانا آواز ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئی۔ شوکت علی انجم قرنطینہ کے باعث گھر کی چاردیواری میں پابند ہے وگرنہ وہ میرے کمرے میں آکر شکایت کرتا کہ وہی ہوا ناں جس کا مجھے ڈر تھا‘ تمہیں بیسیوں بار کہا تھاکہ شاہ جی چراغِ آخرِ شب ہیں ان کی زندگی میں ہی کچھ لکھ لو مگر تم ہربار کہتے کہ شاہ جی پر کیا لکھوں؟ کہاں سے شروع کروں اورکہاں ختم کروں؟ اس قلم میں اتنی تاب کہاں اور اس عاجز کے پاس وہ الفاظ کہاں کہ قبلہ سید علی شاہ گیلانی پر لکھنے کا حق ادا کر سکوں؟ اور آج بھی لکھنے کو بھلا کیا ہے؟ اس درد، محبت، عقیدت اور ملال کا اظہار الفاظ میں ممکن ہی کہاں ہے؟
کسی شخص کی رحلت پر ہمارے پاس بڑے روایتی اور گھڑے گھڑائے جملے ہوتے ہیں کہ مرحوم کی کمی تادیر محسوس کی جائے گی۔ مرحوم کا خلا کبھی پورا نہیں ہوسکے گا اوریہ کہ مرحوم جیسی شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں، لیکن یہ سارے روایتی جملے شاہ جی مرحوم کیلئے سچ کے علاوہ اورکچھ نہیں۔ سید علی گیلانی جیسا مردِ درویش اور ثابت قدم شخص نہ اس سرزمین نے پہلے کبھی دیکھا اور نہ ہی دورونزدیک تک اس کا امکان نظر آرہا ہے۔ جرأت، حریت، بہادری، حوصلہ مندی، برداشت، قربانی، اولوالعزمی اور اس قبیل کے سارے الفاظ اگر اکٹھے کر لیے جائیں تووہ اس جذبے کا عشر عشیر بھی نہیں بنتے جو جنت مکانی سید علی شاہ گیلانی کی شخصیت کا احاطہ کرسکیں۔ چشمِ فلک نے الحاقِ پاکستان کا ایسا دلدار بھلا کب دیکھا ہوگا؟
میں خوش گمان شخص ہوں مگر مجھے شاہ جی کے چلے جانے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب کی صورت میں پاکستان سے الحاق کیلئے اب کوئی ایسی آواز اور کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو مرحوم شاہ جی کی پاکستان سے محبت، وابستگی اور سپردگی کے پاسنگ بھی ہو۔ 1929 میں کشمیر کے شہر بانڈی پورہ میں پیدا ہونے والے سید علی گیلانی ایک طویل ترین جدوجہد، اور آزادی کیلئے قیدوبند سے گزرنے کے بعد بانوے سال کی عمر میں زندگی کی قید سے خود تو آزاد ہوگئے مگر کشمیر کی آزادی تورہی ایک طرف وہ دمِ رخصت ہماری اجتماعی بے حسی اور بزدلی کے باعث بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کے تحت کشمیرکو حاصل خصوصی حیثیت کی بحالی بھی نہ دیکھ سکے۔ شاید انہیں ہم سے جو امیدیں تھیں وہ اپنی تمام تر خوش گمانی کے باوجود دم توڑ چکی تھیں، تبھی تو انہوں نے گزشتہ سال تحریک حریت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ تحریک حریت کو چھوڑنا کوئی آسان کام تھا؟ اپنی محبت اور مقصدِ زندگی سے ہاتھ اٹھا لینا کوئی معمولی بات نہیں اور وہ بھی ایسے شخص کیلئے جو کبھی مایوسی کے قریب سے بھی نہ گزرا ہو اور جسے جھکانے یا بہکانے کے تمام تر حربے ناکام ہوچکے ہوں۔
جماعت اسلامی سے وابستہ سید علی گیلانی کو جب جماعت اسلامی جموں و کشمیر نے ایک تنظیمی معاملے کی بنیاد پر جماعت سے نکال دیا تو سید علی گیلانی نے کہا: یہ جماعت اسلامی کا اختیار ہے کہ مجھے نکال دے مگر وہ میرے اندر سے جماعت اسلامی نہیں نکال سکتی‘ جماعت مجھے دروازے سے نکالے گی تو میں کھڑکی سے اندر آ جائوں گا۔ بھلا ایسا شخص اپنی قائم کی ہوئی حریت کانفرنس سے کس طرح لا تعلق ہو سکتا تھا؟ لیکن ایسا ہوا، یہ ان کا پاکستان کی کشمیر پالیسی پر عدم اعتماد کا نتیجہ تھا‘ اس کے باوجود وہ پاکستان سے الحاق کے بارے میں اتنے ہی پُرجوش اور پُرعزم تھے جتنے ہمیشہ سے تھے۔
شاہ جی گزشتہ گیارہ سال سے تقریباً نظربندی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اس سے قبل سید صاحب تہاڑ، جودھ پور، رانچی، اودھم پور، بنگلور، کوٹ بھلوال، کٹھوعہ، ریاسی، مٹن، بارہ مولا، کپواڑہ اور سنٹرل جیل سری نگر کے درودیوار کو بارہ سال سے زائد عرصہ تک اپنی ثابت قدمی کے گواہ بنا چکے تھے۔ سید علی گیلانی نے اپنی جوانی اور بڑھاپے کا ایک حصہ جیل میں گزارا۔ ان کی اپنی اسیری کے بارے میں خود نوشت ''رودادِ قفس‘‘ دراصل ثابت قدمی، حریت، جرأت، بہادری اور قربانیوں کی ایسی داستان ہے کہ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے‘ پاکستان سے محبت کا جو جذبہ سید علی گیلانی کے دل میں موجزن ہے‘ ہم پاکستانی آج اس جذبے سے کوسوں دور ہیں۔
سید علی گیلانی کو ان کی غیر متشددانہ جدوجہدِ آزادی کے ''جرم‘‘ میں طویل قید پر ''ضمیر کا قیدی‘‘ قرار دیا گیا اور انہوں نے جتنا عرصہ جیل میں قیدوبند کی صعوبتیں، تشدد اور قید تنہائی برداشت کی، اگر وہ کسی مغربی ملک میں ہوتے تو دنیا بھر کے آزادی کے متوالوں کے سرخیل اور سردار قرار پاتے‘ مگر ان کے جرائم بہت سنگین تھے۔ وہ مسلمان تھے، کشمیری تھے اور پاکستان سے الحاق اور بھارت کی غلامی سے آزادی کے علمبردار تھے۔ بھلا عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کو وہ درجہ کیسے دے سکتی تھیں جو نیلسن منڈیلا وغیرہ کو حاصل ہوا۔ جدوجہد کی طوالت، جیل، قیدوبند اور نظر بندی کا عرصہ، اپنے مقصد سے اخلاص اور بھارت سے آزادی کے لیے ان کا غیر لچکدار رویہ انہیں دنیا بھر کے حریت پسند لیڈروں میں سب سے ممتاز کرتا تھا مگر دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ روا دوہرے معیار سید علی گیلانی کے پائوں کی بھی زنجیر تھے۔
جہاں یکم ستمبر بھارت کے لیے ایک پُرمسرت اور خوشیوں بھرا دن ہے، وہیں یہ دن کشمیر کے الحاقِ پاکستان کی طویل اور صبرآزما جدوجہد کیلئے ایک سیاہ دن ہے۔ میں نہیں سمجھتاکہ کشمیر میں پاکستان سے محبت رکھنے والا کوئی ایسا شخص موجود ہے جو سید علی گیلانی کا متبادل ثابت ہو سکے بلکہ متبادل تو رہی دور کی بات، ان کا عکس ہی بن سکے۔ روئے ارض نے ایسا نحیف و نزار لیکن ایسا بہادر اور جری شخص بھلا کب دیکھا تھا جو اسے آئندہ دیکھنا نصیب ہو۔
گزشتہ سے پیوستہ سال جب مقبوضہ کشمیر کو آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد مودی سرکار نے دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا کروہاں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند کردی تو کشمیریوں کے ساتھ دنیا بھر کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ اس پابندی کے باعث کشمیری خاندانوں کا دنیا بھر سے رابطہ کٹ گیا۔ متاثرین میں سید علی گیلانی صاحب کا نواسہ روا شاہ بھی تھا۔ 2020 کے آخر میں وہ ترکی میں زیر تعلیم تھا جب اسے ایک دوست کی جانب سے ٹیکسٹ میسیج ملا ''میں نے ابھی آپ کے نانا جان کے بارے میں سنا ہے، مجھے بہت افسوس ہے‘‘۔ یہ پیغام پڑھ کر گیلانی صاحب کے نواسے کا پریشان ہو جانا قدرتی امر تھا‘ مگر اس خبر کی فوری تصدیق ممکن نہ تھی؛ تاہم کسی طرح والدہ سے رابطہ ہوا تو پتا چلا کہ نانا‘ جنہیں وہ ''ابا‘‘ کہتا تھا‘ شدید بیمار ہیں۔ زندگی کی بے ثباتی کو دیکھتے ہوئے روا شاہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس مقبوضہ کشمیر چلا جائے گا۔ اگلے روز وہ سرینگر کے لیے روانہ ہو گیا۔ سخت سردی میں جب وہ اپنے ''ابا‘‘ سے ملاقات کے لیے حیدر پورہ روانہ ہوا تو سڑک کی ہر طرف مسلح اہلکار مستعد کھڑے تھے تاکہ کسی ناخوشگوار واقعے کی صورتحال میں حالات کو کنٹرول کر سکیں۔ بقول روا شاہ‘ جب میں کمرے میں داخل ہوا تو ابا کمبلوں کے ڈھیر کے نیچے تھے۔ انہوں نے جب اپنا ہاتھ باہر نکالا تو وہ محض ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا جس پر کھال منڈھی ہوئی تھی۔ ابا نے مجھے پہچاننے میں تھوڑا توقف کیا‘ پھر بولے: تم وہی ہو جو میرے لیے تحفے لاتا ہے اور ترکی میں ہوتا ہے؟
93 سال کا بوڑھا شیر رخصت ہوا اور کشمیر میں پاکستان کی توانا آواز خاموش ہوئی۔ پورے عالمِ اسلام میں دور دور تک کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو اس خلا کو پُر کر سکے جو سید علی گیلانی کی رحلت کے ساتھ پیدا ہوا ہے مگر زندگی ایک بے رحم حقیقت ہے یہ رواں دواں رہے گی۔ ویسے بھی بے حسوں پر ایسی باتیں اثر نہیں کرتیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں