"KMK" (space) message & send to 7575

مستقل ملال

دس سال! پورے دس سال گزر گئے۔ اب یہ مت پوچھیں کہ کیسے گزرے‘ بس گزر گئے۔ ان دس سالوں میں ہم لوگوں نے اپنی زندگی کو کسی نہ کسی طور نئے ڈھب پر ڈال لیا اور کوشش کی کہ اسی طرح گزر جائے اور زندگی گزر تو گئی مگر تقریباً ویسے ہی جیسے جیل میں قید بامشقت کے قیدی کی گزر جاتی ہے۔
ان دس سالوں کا کیا کہوں؟ کبھی تو لگتا ہے کہ دو پل میں گزر گئے ہیں اور کبھی لگتا ہے کہ یہ مدت گزرنے میں اتنا وقت لگا ہے کہ شمار سے باہر ہے۔ زندگی کو مصروفیت کے سپرد کیا‘ خود کو سفر کے حوالے کیا‘ کتابوں میں دل لگانے کی سعی کی‘ مخلوقِ خدا کی خدمت میں من لگا کر صبح سے شام کرنا سیکھ لیا‘ مگر شام کو صبح کرنے کا کوئی ڈھنگ ہاتھ نہ آیا۔ سب کچھ انسان کے ہاتھ میں یا بس میں ہوتا تو بھلا یہ دنیا جنت نہ بن جاتی۔ اس دوران وہ کام سیکھنے اور کرنے کی کوشش بھی کی جو میرے کرنے کے نہیں تھے یا میرے مزاج کے ہی نہ تھے۔ مالکِ کائنات نے بڑا کرم کیا اور اس عاجز پر بہت سی مشکلیں آسان فرما دیں مگر جب کوشش کے باوجود کچھ کاموں میں ناکامی ہوئی تو سمجھ آیا کہ یہ کام دراصل میرے کرنے کے ہی نہیں تھے۔ یہ اسی نیک بخت کے کرنے کے تھے جو اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ یہی مشّیتِ الٰہی ہے۔
اس کے ہوتے ہوئے میرا خیال تھا کہ گھر کا انتظام اصل میں تو میں چلاتا ہوں وہ تو صرف اس کی نوک پلک درست کرتی ہے اور اب لگتا ہے کہ معاملہ الٹ تھا بلکہ میں تو نوک پلک بھی درست طریقے سے نہیں سنوار سکتا تھا۔ اس کے ساتھ گزرے چھبیس سال چھ ماہ اور سترہ دن کا حساب کروں تو دل کو مطمئن پاتا ہوں کہ اس دوران اُس کی کوئی فرمائش ایسی نہ رہی جو میرے بس میں ہو اور میں نے پوری نہ کی ہو مگر اس میں بھی زیادہ دخل اُسی کا تھا کہ اُس نے کوئی ایسی فرمائش ہی نہ کی جو میرے بس سے باہر ہوتی لیکن اگر میں ان کاموں کا حساب کروں جو میرے اور اس کے دل میں تو تھے مگر زبان تک نہ آئے تو ایک لمبی فہرست ہے اور ملال کا نہ ختم ہونے والا احساس۔
کل امریکہ سے کومل نے چند سیکنڈز کی ایک وڈیو بھیجی ہے جس میں ایمان نے پہلے دو قدم اٹھائے ہیں۔ اس سے پہلے سیفان اور ضوریز نے یہی سارے مرحلے عبور کیے۔ ان تینوں کی پیدائش پر میں نے امریکہ جا کر وہ سب کچھ کرنے کی کوشش کی جو وہ زندہ ہوتی تو کرتی مگر وہ جو میں نے کہا ہے کہ میں باوجود اپنی پوری کوشش کے جو کئی کام پوری طرح نہ نبھا سکا‘ یہ بھی اُنہی کاموں میں سے ایک تھا۔ بھلا ایسے موقع پر میں ماں کی کمی کیسے پوری کر سکتا تھا؟ میں نے گھر سنبھالا‘ باورچی خانے کا انتظام چلایا۔ ضوریز کی پیدائش پر کومل ہسپتال گئی تو پونے دو سال کے سیفان کو اپنے ساتھ سلایا‘ یہ ایسا پہلا بچہ تھا جسے میں نے اپنے ساتھ سلایا۔ اس کو فیڈر تیار کرکے دیے‘ اس کے ڈائپر بدلے۔ اسے پراٹھا بنا کر شکر کے ساتھ کھلایا مگر پھر بھی ایک کمی سی رہ گئی‘ یہ وہ کمی تھی جسے صرف ایک ماں ہی پورا کر سکتی تھی۔ میں تو اس کام کے لیے بنا ہی نہیں تھا۔
اب گھر میں داخل ہوتا ہوں تو وہ زندگی ہی مفقود ہے جو اس کے ہوتے ہوئے اس گھر کی پہچان تھی۔ بچے مہمانداری کے معاملے میں ماں پر گئے تو ہیں مگر بہرحال ویسے نہیں ہیں۔ اسے صفائی کا خبط اور یکسانیت سے چڑ تھی۔ جاتے ہوئے ہسپتال میں صرف چار دن رہی مگر اس دوران بھی ایک بار کمرے کی ساری ترتیب تبدیل کرائی کہ بیڈ صحیح جگہ پر نہیں رکھا اور صوفہ بھی غلط پڑا ہے۔ گھر کو حتیٰ المقدور صاف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ جو ایک آنچ کی کمی ہے وہ کیسے دور ہو؟ رہ گئی بات ہر سیزن میں کمرے کی ترتیب کو اُلٹنے پلٹنے کی تو گزشتہ دس سال سے کمرے کی ایک ایک چیز وہیں پڑی ہے جہاں وہ چھوڑ کر گئی تھی۔ بیڈ‘ صوفہ‘ سائیڈ ٹیبلز‘ کارنر ٹیبل اور اُن پر پڑی ہوئی ساری چیزیں اُسی طرح پڑی ہیں حتیٰ کہ ڈریسنگ روم میں لٹکا ہوا اس کا جوڑا بھی وہیں لٹکا ہوا ہے۔ ساتھ والا باتھ روم بننے لگا تو اس پر کپڑا ڈال دیا۔
کئی باتوں اور چیزوں کے نہ کر سکنے کا ملال ہے اور اُس میں سرفہرست برآمدہ تھا لیکن اب میں نے برآمدے کا خیال دل سے نکال دیا ہے۔ ان دس سالوں میں اَن گنت بارشیں ہوئیں مگر اس کے بغیر نہ تو بارش کا لطف آیا اور نہ ہی کبھی پورچ میں بیٹھ کر برستی بارش کو دیکھنے کو دل کیا تو اب اس برآمدے کا کیا کروں گا؟ اس کے بغیر برآمدہ میرے کس کام کا ہے؟ حالانکہ اب یہ طے کر لیا ہے کہ برآمدہ نہیں بنوانا مگر یہ ملال نہیں جاتا کہ اگر اس کے ہوتے یہ کام کر لیتا تو کیا تھا۔
جاتے ہوئے کہہ کر گئی کہ اب آپ نے بچوں کے بارے میں باپ بن کر نہیں ماں بن کر سوچنا ہے۔ اب بندہ اس سے کیسے پوچھے کہ ماں ہونا کیسا ہوتا ہے اور ایک باپ کس حد تک ماں بن سکتا ہے؟ میں نے اپنے تئیں پوری کوشش کی مگر مجھے پتا ہے کہ میں بہرحال ماں نہیں بن پایا۔ جب میں کومل کو دیکھتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو کس صبر‘ حوصلے اور خوشدلی سے سنبھالتی ہے اور پھر خود کو اس کی جگہ رکھتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ ماں بننا تو کجا‘ میں تو ماں کا پاسنگ بھی نہیں بن پایا۔ میں ماں بننا بھی چاہوں تو بھلا کس حد تک بن سکتا ہوں؟ ماں ہونا تو قدرت کا وہ انعام ہے جو صرف ماں کا ہی نصیب ہے۔ تبھی تو مالک کائنات نے اپنا موازنہ صرف ماں کی محبت اور شفقت سے کیا ہے۔
دس سال قبل آج کے روز جب اُس نے ہسپتال میں آخری سانسیں لیں اور اُس پر جھکے ہوئے ڈاکٹر نے اُس کے منہ سے آکسیجن ماسک ہٹا کر اپنا سٹیتھوسکوپ کانوں سے اتار کر گلے میں ڈالا اور خاموش نظروں سے ہم سب کو اُس کے چلے جانے کا پیغام دیا تو ہم سب گھر والوں نے بڑے صبر کا مظاہرہ کیا۔ خاص طور پر بچوں نے میری توقع سے کہیں زیادہ حوصلے کا مظاہرہ کیا اور کسی کی آواز کسی دوسرے کو سنائی نہ دی۔ اُسی ہسپتال میں ہم نے ایسی ایسی آہ و بکا بھی سنی تھی اور کہرام مچتے دیکھا تھا کہ یہ خاموشی بڑی عجیب لگ رہی تھی۔ جب ہم اُسے گھر لے جانے کے لیے نیچے لا رہے تھے تو ساتھ والے کمروں کے مکینوں نے بچوں سے پوچھا کہ خیر ہے‘ آپ جا رہے ہیں؟ کسی نے بتایا کہ ماما چلی گئی ہیں۔ لیکن اب سوچتا ہوں بھلے تب صبر کیا مگر صبر تو اب تک نہیں آیا۔ کسی میں اب بھی حوصلہ نہیں کہ کھل کر اُس کے بارے میں بات کر سکے۔ کتنے ہی دن ہو گئے ہیں فہمی بدایونی کی غزل کے تین اشعار دل کے ملال میں اضافہ کرتے ہیں۔
ذرا محتاط ہونا چاہیے تھا
بغیر اشکوں کے رونا چاہیے تھا
اب اس کو یاد کرکے رو رہے ہیں
بچھڑتے وقت رونا چاہیے تھا
چلا آتا یقینا خواب میں وہ
ہمیں کل رات سونا چاہیے تھا
مجھے اس بات کا ادراک بڑی دیر سے ہوا کہ محبت کا صرف کرنا ہی کافی نہیں اس کا بروقت اظہار بھی بڑا ضروری ہے۔ ہم چاروں بہن بھائیوں میں ابا جی سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرتے تھے اور میں اُن سے۔ لیکن کبھی اُن سے اُس طرح لپٹ کر اس کا اظہار نہ کر سکا جس طرح مجھے کرنا چاہیے تھا۔ شاید یہ ہماری ساری جنریشن کا مسئلہ تھا مگر اس سے تو وہ اظہار اور اقرار کرنے میں کچھ مانع نہ تھا‘ سوائے میری شرمیلی طبیعت کے۔ اب شرمندہ ہوں کہ کاش میں نے یہ کام وقت پر کر لیا ہوتا۔ یہ کالم صرف اس بات کی یاد دہانی کے لیے ہے کہ جس کے پاس بھی وقت ہے وہ یہ کام بلاتاخیر کرلے ورنہ ایک مستقل ملال ہوگا جو ساری زندگی آپ کے ساتھ رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں