"KMK" (space) message & send to 7575

ملتان کی پیلی کوٹھی سے زمان پارک تک

پی ٹی آئی کی موجودہ حالت دیکھتا ہوں تو مجھے ایک عشروں پرانا بھولا بسرا واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ ملتان کے ایک بہت بڑے زمیندار نواب مشتاق خان کا انتقال ہو گیا۔ مرحوم کا میلسی‘ وہاڑی اور شجاع آباد میں بہت زیادہ زرعی رقبہ بھی تھا اور جائیداد بھی بے تحاشا تھی۔ سو کنال کی تو صرف شہر کے وسط میں کوٹھی تھی۔ وہ لاولد تھے اور ان کی اس ساری جائیداد اور زرعی رقبے کا کوئی وارث گھر میں موجود نہیں تھا۔ نواب صاحب بڑے کروفر اور رعب دبدبے والے جاگیردار تھے اور ان کی زندگی میں کسی کو ان کے سامنے پر مارنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی تاہم ان کے بہت سے قریبی عزیز ان کی اس دنیا سے رخصت کے منتظر بھی تھے اور عالمِ خیال میں ان کی مختلف چیزوں بشمول زمین‘ جائیداد‘ رہائشی کوٹھی‘ گاڑیوں اور کتوں پر نظریں گاڑے بیٹھے تھے۔ ان کی زندگی میں تو کسی کی مجال بھی نہیں تھی کہ ایسی کوئی بات اشارتاً بھی کر سکے مگر سب دل ہی دل میں اپنی اپنی پسند کی چیزوں کی تقسیم کیے بیٹھے تھے۔
یہ میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے کا واقعہ ہے تاہم اس زمانے کے کئی بزرگ اس واقعے کے عینی گواہ ہیں کہ نواب صاحب کی آنکھیں بند ہوتے ہی ان کے گھر پر بہت سے لالچی اور لوٹ مار کے منتظر رشتہ داروں نے ہلہ بول دیا۔ ابھی نواب صاحب کی میت گھر میں ہی پڑی تھی کہ یار لوگوں نے جو شے ہاتھ لگی اڑانی شروع کر دی۔ ہر لالچی پہلے آؤ‘ پہلے پاؤ کے فارمولے کی عملی تصویر تھا اور ہر وہ شے اُٹھا رہا تھا جو اٹھائی جا سکتی تھی۔ جو رشتہ دار اس لوٹ مار میں شامل نہیں تھے وہ حیران و پریشان تھے اور اس صورتحال میں کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے۔ کئی لوگ تو اپنے ہمراہ اپنے نوکروں اور ڈرائیوروں کو بھی لائے تھے اور ان کو بتا رہے تھے کہ بیوک کو لے جا کر کہاں کھڑا کرنا ہے‘ شیورلے کہاں لے جانی ہے اور ڈاج کہاں پہنچانی ہے۔ چند رشتہ دار میت کے سرہانے بیٹھے تھے جبکہ زیادہ تر اپنی کارروائی میں لگے ہوئے تھے۔ دن ڈھلے گھر میں جو واحد قابلِ ذکر شے بچی پڑی تھی وہ نواب صاحب کی اپنی میت تھی۔
فی الوقت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو نواب مشتاق کی وفات پر ہوا تھا۔ ہر بندہ اور ادارہ اپنا حصہ اپنی استطاعت اور طاقت کے مطابق لوٹ کر‘ چھین جھپٹ کر اور دھمکا کر لے جا رہا ہے۔ کوئی ایم پی اے کھسکا رہا ہے۔ کوئی ایم این اے گھسیٹ رہا ہے۔ کسی کے ہاتھ وزیر لگ رہے ہیں اور کوئی ٹکٹ ہولڈرز سمیٹ کر لے جا رہا ہے۔ ایک پارٹی سے دو پارٹیاں بھی نکل چکی ہیں۔ کئی سمجھدار تو پہلے ہی رخصت ہو گئے تھے۔ بقیہ دوچار مخلصوں کو خان صاحب نے اپنی نام نہاد پاک دامنی اور اصول پسندی کا پرچم بلند کرنے کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ان کے پسندیدہ لیکن ناکام ترین گھوڑے عثمان بزدار اور محمود خان تھے۔ ایک غائب ہے اور دوسرا نئی پارٹی میں رونق افروز ہے۔ بھاگ جانے والوں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے۔ درجن ڈیڑھ درجن لوگ مفرور ہیں۔ پورے پاکستان میں صرف شاہ محمود قریشی اور ان کے فرزند زین قریشی ہیں جو حالتِ امن میں ہیں اور بلا خوف و خطر گھوم پھر رہے ہیں۔ باقی وہ ہیں جو پریس کانفرنس کے طفیل اپنی عزت گنوا کر عزت بچائے بیٹھے ہیں۔
نواب مشتاق اور عمران خان میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ ہر دو حضرات کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں‘ وہ خود تھے۔
راوی گو کہ قابلِ اعتبار نہیں مگر کیا کریں‘ صرف یہی ایک راوی میسر ہے سو اس پر بھروسا کرنا پڑا ہے۔ اُس زمانے میں ملتان کے تہذیبی رواج کے مطابق چوڑیوں والے گلی‘ محلے میں پھیری لگاتے تھے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ یہ چوڑیاں فروخت کرنے والے مرد بھی ہوتے تھے اور خواتین بھی‘ جو رنگدار کھلے گھیروالا گھاگرا پہنے‘ کلائیاں چوڑیوں سے بھرے اور سر پر مخصوص ٹوکری رکھے گلیوں میں آوازیں لگاتیں۔ ونگاں پوالؤ ونگاں (چوڑیاں پہنوا لو‘ چوڑیاں)۔ بالکل اسی طرح ٹوکری سر پر رکھے خواتین گلی محلوں میں میک اَپ کی چیزیں بھی بیچتی تھیں۔ تاہم وہ ''مِسی مُساک لے لؤ‘‘ کی آواز لگاتی تھیں۔ خواجہ غلام فرید کی مشہور زمانہ کافی ''میڈا عشق وی توں‘ میڈا یار وی توں‘‘ جسے مرحوم پٹھانے خان نے گا کر عوامی شہرت بخشی‘ اس کافی سے دو شعر:
میڈے تلک تلولے‘ سیندھاں مانگاں
ناز نہوڑے تان وی توں
میڈی مہندی‘ کجل مُساک وی توں
میڈی سرخی‘ بیڑا پان وی توں
میرے ماتھے کے تلک‘ گالوں کے تل اور بالوں میں کھنچی مانگ‘ میرے ناز نخرے اور ادائیں سبھی تم ہی ہو۔ میری مہندی‘ کاجل دنداسہ بھی تم ہو اور میری سرخی (لپ سٹک) بیڑہ اور پان بھی تم ہی ہو۔
قارئین! ایک بار پھر معذرت کہ نواب مشتاق خان کے موضوع سے بہک کر خواجہ غلام فرید کی کافی کی طرف نکل گیا لیکن کیا کرتا؟ کبھی ملتان کی گلیوں میں ونگاں ڈالنے والے یا والیاں آوازیں لگایا کرتی تھیں اور مسی مُساک گھروں کی دہلیز پر میسر ہوتا تھا۔ میں اس مسی مُساک والے ناپید کلچر کی گواہ آخری نسل سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس نسل کے رخصت ہوتے ہی بانس کی کھپچی کے آخر سرے پر سرخ رنگ کی چپکی ہوئی خشک مروڑی نما لپ سٹک کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے ختم ہو جائیں گے۔ اس چھوٹی سی ڈرم سٹک نما لپ سٹک کو خواتین پہلے تھوک لگا کر گیلا کرتی تھیں اور پھر ہونٹوں پر لگا کر انہیں سرخ کیا کرتی تھیں۔ کیا سادہ اور آسان سا میک اپ ہوتا تھا۔ تبت کریم کی شیشی‘ گالوں پر لگانے کیلئے گلابی رنگ کا پاؤڈر‘ کیکر کی چھال کا دنداسہ‘ تبت کا پاؤڈراور خواتین کے انڈر گارمنٹس ‘ سب کچھ ان پھیری والیوں سے مل جاتا تھا جو گلی میں آوازیں لگانے کے علاوہ اپنے پکے گاہکوں کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر اپنا سودا بیچا کرتی تھیں۔ پھر سب کچھ ایسے معدوم ہو گیا جیسے شہروں میں بارش کے دوران آسمان پر اڑنے والے ابابیل ناپید ہو گئے ہیں۔
اللہ جانے راوی کتنا سچ بتاتے ہیں اور اس میں کتنی رنگ آمیزی کی ملاوٹ کرتے ہیں تاہم ایک روایت یہ ہے کہ نواب صاحب کی کوٹھی کے سامنے سے ''ونگاں پوالؤ‘‘ کی صدا لگاتا ہوا ایک شخص گزرا‘ نواب صاحب کی کسی عزیزہ نے ان کی زوجہ کو کہا کہ تم چوڑیاں پہنوا لو۔ بیگم صاحبہ نے پردے سے ہاتھ باہر نکالا اور چوڑیاں پہنوا لیں۔ شام کو نواب صاحب گھر آئے اور اپنی بیگم کی کلائیوں میں چوڑیاں دیکھ کر پوچھا کہ یہ کس نے پہنائی ہیں؟ بیگم صاحبہ نے بتایا کہ چوڑیوں والے نے پہنائی تھیں۔ پھر پوچھا کہ اس نے تمہارا ہاتھ پکڑا تھا۔ بیگم صاحبہ کی جانے بلا کہ وہ کس مصیبت کو آواز دے رہی ہیں۔ کہہ دیا کہ بھلا ہاتھ پکڑے بغیر چوڑیاں کیسے پہنائی جا سکتی ہیں۔ نواب صاحب کی غیرت نے جوش مارا۔ بندوق اٹھائی اور بیگم صاحبہ پر خالی کر دی۔ پھر نواب صاحب نے ساری عمر شادی نہ کی۔ ان کی وفات پر ایسی لُوٹ پڑی کہ لوگ عشروں تک اس کا تذکرہ کرتے رہے۔
کچہری روڈ پر طویل دیوار کے پیچھے ایک وسیع و عریض قطعے پر ایک پرانی سی پیلے رنگ کی کوٹھی کی ویرانی تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ بعد میں اس کوٹھی کی جگہ پر پوری کالونی بن گئی۔ یہ نواب صاحب کی کوٹھی تھی جو ویران ہوتی تھی‘ بالکل ویسے ہی جیسے آج کل زمان پارک میں ویرانی ہے۔ اس کے ذمہ دار یقینا اور لوگ بھی ہیں مگر اس ویرانی کا سب سے بڑا ذمہ دار بھی اس گھر کا مکین ہے۔ بالکل نواب مشتاق کی طرح۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں