"KMK" (space) message & send to 7575

اس میں حیرانی کی کیا بات ہے ؟

ہمیں زندگی میں بہت سے لوگ اور دوست جہیز میں ملتے ہیں۔ جہیز میں ملنے سے میری مراد یہ ہے کہ ساری زندگی میں بہت سے ایسے لوگ آتے ہیں جو کسی نہ کسی عزیز اور دوست کی وساطت سے ان کے ساتھ پیکج ڈیل کے طور قبول کئے جاتے ہیں۔ کبھی کسی دوست کا بھائی اس دوستی میں بطور سٹپنی مل گیا اور کبھی دوست کا قریبی دوست ہماری زندگی میں داخل ہو گیا۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں میں جہیز میں ملنے والے شمار کرتا ہوں۔ یہ الگ بات کہ بعض اوقات یہ جہیز میں ملنے والے دوست اس دوست سے بھی زیادہ عزیز ہو جاتے ہیں جو اُن کو ہم سے ملانے کا باعث بنا ہوتا ہے۔ میں اپنے قریب ترین اور عزیز ترین دوستوں سے پہلی ملاقات کو یاد کرتا ہوں تو عجیب حیرانی ہوتی ہے کہ ان میں سے بیشتر دوست پہلی بار مجھے کسی نہ کسی اور دوست کی وساطت سے ملے تھے۔ مزید حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ جس دوست کی وساطت سے پہلی ملاقات یا تعارف ہوا تھا وہ درمیان میں سے ایسے نکل گیا جیسے اس کا کام محض اتنا تھا کہ وہ اس شخص کو ہم سے متعارف کروائے اور بس۔
فلوریڈا کے چھوٹے سے شہر بوکارٹیون کا ہمارا دوست ڈاکٹرعاصم اسد حالانکہ برادر بزرگ اور عزیز ترین دوست اعجاز احمد کا قریبی عزیز ہے مگر وہ بہرحال ہمیں اعجاز بھائی کے ساتھ جہیز میں ہرگز نہیں ملا۔ اس سے ہماری دوست اور تعلقات کی وجوہات میں پرانا نظریاتی تعلق اور امریکہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی اور فعال تنظیم اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (ICNA)کے حوالے سے ہونے والی ملاقاتوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور اب وہ ہمارا دوست ہے۔ حالانکہ میں اسے کہتا ہوں کہ وہ ابھی میرے اے گریڈ والے دوستوں میں شمار نہیں ہوتا مگر بہرحال وہ اس قطار میں ضرور ہے اور کیا خبر وہ کس وقت پروموٹ ہو کر میرے اے گریڈ والے دوستوں میں شمار ہو جائے۔ ایسی صورت میں امریکہ میں ان کی تعداد تین سے بڑھ کر دوبارہ چار ہو جائے گی۔ میں ہنس کر اس سے کہتا ہوں کہ ''پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ شاید ایسے مواقع کیلئے ہی کہا گیا ہے۔ وہ آگے سے قہقہہ لگا کر بات ختم کر دیتا ہے۔ میرے دوستوں میں ملتان کا اجمل خان اور بوکارٹیون کا عاصم اسد زندگی سے بھرپور ایسا قہقہہ لگاتے ہیں کہ سُن کردل کھِل اٹھتا ہے۔ یہ ایسا قہقہہ ہوتا ہے جو آپ کو زندگی سے نئے سرے سے متعارف کرواتا ہے۔
اس بار پاکستان سے چلنے سے پہلے میں نے عاصم اسد کو فون کرکے کہا کہ میرے لئے بوکارٹیون آنا ممکن نہیں ہوگا بہتر ہوگا کہ تم اپنے جوتوں کے کاروبار سے دوچار دن کی رخصت لو۔ تمہارا چھوٹا بھائی احسن اس دوران تمہارا کاروبار بالکل اسی طرح سنبھال لے گا جس طرح وہ تمہاری'' اکنا‘‘ کی تنظیمی مصروفیات میں سنبھال لیتا ہے۔ تم جہاز پر چڑھو اور ادھر اٹلانٹا کے ساتھ کرالٹن میں اعجاز بھائی کے پاس آ جاؤ۔ دو چار دن اچھے گزریں گے۔ پھر میں نے از راہ مذاق اس سے کہا کہ وہ فکر مند نہ ہو۔ ہم مل ملا کر اس کیلئے جوتوں کے کاروبار کا کوئی نہ کوئی مناسب بندوبست کر دیں گے۔ خواہ اس کے ہمیں ذاتی جوتے ہی کیوں نہ فروخت کیلئے عطیہ کرنے پڑیں۔ عاصم اسد نے فلائٹ پکڑی اور دو دن کے لیے کیرالٹن آ گیا۔
یہ دو دن تو ایسے گزرے کہ گویا لمحوں میں ہی گزر گئے۔ دنیا جہاں کی باتیں اور لطیفے۔ قہقہوں کا ایک طوفان سا تھا جو گاڑی میں‘ ڈیرے پر اور اعجاز بھائی کے گھر میں برپا رہا۔ بلاشبہ سب سے بلند اور جاندار قہقہہ عاصم اسد کا ہی ہوتا تھا۔ باتوں ہی باتوں میں ہمارے مشترکہ دوست طاہر جاوید کا ذکر چل نکلا۔ عاصم اسد کا خیال تھا کہ کیونکہ میں پاکستان سے آیا ہوں اس لئے مجھے طاہر جاوید کے وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے سرمایہ کاری کے عہدے سے اچانک ہی ہٹائے جانے کی وجوہات کا علم ہوگا۔ جواباً میں نے کہا: میں تو یہ بات آپ سے پوچھنا چاہتا تھا کیونکہ آپ میری نسبت طاہر جاوید سے کہیں زیادہ قریب بھی ہیں اور زیادہ رابطے میں بھی ہیں۔ آپ الٹا مجھے سے پوچھ رہے ہیں۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں میری طاہر جاوید سے جب پہلی ملاقات ہوئی تب اس کے ذاتی دوستوں کے علاوہ پاکستان میں شاید اس کا نام بھی کم ہی لوگوں نے سنا ہوگا۔ کامیاب بزنس مین طاہر جاوید ایک عرصے سے امریکی سیاست میں سرگرم ہے اور ڈیموکریٹ پارٹی کی طرف سے بہت زیادہ فعال ہے۔ اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ہلیری کلنٹن کی الیکشن مہم میں وہ امریکہ کی تین ریاستوں میں اس کی ایکشن مہم کا انچارج تھا اور نہ صرف اس سلسلے میں بہت متحرک تھا بلکہ اس نے اس الیکشن مہم میں اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے بہت چندہ بھی اکٹھا کیا جو کئی ملین ڈالرز پر مشتمل تھا۔ میرا ذاتی خیال ہے اور یہ غلط بھی ہو سکتا ہے تاہم وہ شاید ڈیموکریٹک پارٹی کیلئے سب سے زیادہ چندہ اکٹھا کرنے والا پاکستانی تھا۔
میں ہمیشہ سے ہی اس بات کا قائل ہوں کہ بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانیوں کو پاکستان سے زیادہ اُس ملک کی سیاست میں متحرک اور فعال ہونا چاہئے جہاں وہ اب رہ رہے ہیں کیونکہ نہ انہوں نے واپس آنا ہے اور ان کی اولاد نے تو ہرگز بھی پاکستان واپس نہیں آنا۔ ایسی صورت میں وہ اپنی آنے والی نسل کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں انہیں اس ملک میں سیاسی طور پر مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں ابھی سے اس سلسلے میں عملی کام شروع کرنا چاہئے نہ کہ وہ پاکستان کی سیاست میں بہت زیادہ دخیل ہو جائیں جہاں ایک دو عشرے بعد ان کا رابطہ ہی نہیں رہنا کہ ان کی اگلی نسل کو اس قسم کی بیکار اور ناکارہ مصروفیت سے کوئی غرض نہیں ہوگی۔
طاہر جاوید کے امریکی حکومتی عہدیداروں سے تعلقات کے پیش نظر پاکستانی حکمرانوں میں اور خاص طور پر مقتدرہ میں اس کے ذریعے لابنگ کرنے کی کوششوں نے اسے ہر دو حلقوں کے قریب کردیا اور وہ یوں پاکستانی مقتدر حلقوں میں اہمیت اختیار کر گیا۔ بیشتر اوور سیز پاکستانیوں کی طرح وہ بھی عمران خان کے بخار میں مبتلا ہوا تاہم میرا خیال ہے کہ اس کی زیادہ انڈر سٹینڈنگ ان کے ساتھ تھی جو پردے کے پیچھے ملک کے اصل حکمران ہیں۔ نگران حکومت نے اس کی فنڈریزنگ کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کیلئے اسے وزیراعظم کا مشیر برائے سرمایہ کاری بنا دیا جو اس کی صلاحیتوں کے حوالے سے بہترین میدان تھا مگر چند روز ہی گزرے تھے کہ اسے اس عہدے سے فارغ کردیا گیا۔ اس پر حیرانی تو بنتی تھی۔ اس طرح غیر مناسب انداز میں فراغت کے بعد مناسب نہیں لگتا تھا کہ میں اس سے اس بارے میں دریافت کرتا۔ سو! اسلام آباد میں اپنے ایک دوست سے پوچھا تو وہ کہنے لگا: میں خود حیران ہوں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ طاہر جاوید کو اس عہدے سے شتابی سے فارغ تو کر دیاہے اور وہ دفتر بھی نہیں جا رہا۔ تاہم عملی طور پر وہ اب بھی اسی حیثیت سے مصروف ِعمل ہے۔ گاڑی اور گھر تو اس نے پہلے بھی نہیں لیا تھا اور اب بھی وہ اپنے ہی دفتر سے سارا کام کر رہا ہے اور اس کے بھی سارے کام اسی طرح ہو رہے ہیں۔ میں نے پوچھا مجھے اس بات کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کیا ڈرامہ چل رہا ہے۔ اس دوست نے پوچھا :پاکستان میں جو کچھ ہو رہا اس کی تمہیں سمجھ آ رہی ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ تو وہ کہنے لگا: اگر ایک یہ بات سمجھ نہیں آرہی تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں