"KMK" (space) message & send to 7575

جس کی کمر پر انگلی‘ رکھو وہی سردار ہے…(3)

ویسے تو ساری کی ساری سوسائٹی ہی تحمل اور برداشت سے عاری ہوتی جا رہی ہے مگر سیاسی اختلافات تو اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ معاملہ ''مارویا مر جاؤ‘‘ کی عملی تصویر پیش کر رہا ہے۔ ہر پارٹی نے اپنے اپنے لیڈر کی محبت میں گرفتار مغلوب الغضب رضاکاروں اور سوشل میڈیا ٹیم کے تنخواہ داروں کے بل پر مخالفین کو رگیدنے اور ذلیل کرنے کا جو رواج ڈالا ہے اس نے معاشرے میں رہی سہی مروت اور روایات کو قصۂ ماضی بنا دیا ہے۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ اس ساری مارا ماری اور دشنام طرازی میں جو ملکہ پی ٹی آئی کے کھلاڑیوں کو حاصل ہے وہ کسی دوسری پارٹی کے نصیب میں نہیں۔ ایمانداری سے اگر تجزیہ کیا جائے تو بدکلامی کے وکٹری سٹینڈ پر پیپلزپارٹی کی تیسری‘ مسلم لیگ( ن) کی دوسری جبکہ تحریک انصاف کی پہلی پوزیشن ہے۔
گمان تھا کہ پی ٹی آئی کے حامی اور عمران خان کے شیدائی کیونکہ نسبتاً زیادہ تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے ہیں اوپر سے اچھے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے نہ صرف یہ کہ لیڈر سے عقیدت کے بجائے اپنی عقل سے کام لیں گے اور جہالت پر مبنی اندھی تقلید کے بجائے معاملات کو عقلی سطح پر پرکھتے ہوئے منطقی نتائج اخذ کر کے نہ صرف اپنا درست سیاسی رُخ متعین کریں گے بلکہ اپنے لیڈر کو دیگر پرانے پاپی لیڈروں کے برعکس عقیدت کے تخت پر بٹھا کر پوجنے کے بجائے اسے انسان سمجھیں گے اور اس کی غیر مشروط پیروی کرنے کے بجائے اس کا احتساب کرتے رہیں گے‘ مگر سب گمان نقش برآب ثابت ہوئے اور پی ٹی آئی کے ورکرز نے اخلاقیات کے وہ معیار قائم کئے جس کی مثال ہمارے پاس اپنی سیاسی تاریخ میں تو ہرگز نہیں ہے۔
آپ خان صاحب کی شخصیت پر کوئی سوال اٹھائیں تو آپ کی ایسی طبیعت صاف کی جاتی ہے کہ آپ آئندہ کیلئے ایسی حماقت کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔ خان صاحب کی ذات کے بارے میں بات کرنا تو دور کی بات ہے، آپ صرف خان صاحب کے وعدوں‘ تقریروں اور ان کے یوٹرنز پر ہی بات کر لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ پی ٹی آئی کے ورکرز اور عمران خان کے متوالے اپنے لیڈر کی عقیدت اور اندھی تقلید میں ذہنی غلامی کی کس حد تک پہنچ چکے ہیں۔ آپ ان سے پوچھ لیں کہ خان صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے ہمیں بتایا کرتے تھے کہ ہالینڈ کا وزیراعظم سائیکل پر آتا ہے۔ انہوں نے پوری قوم کو ہالینڈ کے وزیر اعظم کی سائیکل کی بتی کے پیچھے لگا دیا اور خود ساڑھے تین سال تک ہیلی کاپٹر سے نہیں اترے۔ ایک کلپ موجود ہے جس میں وہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ توشہ خانہ سے ملنے والے تحفے کسی کی باپ کی ملکیت نہیں بلکہ ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں۔ بعد میں جب خود کو ملنے والے تحفوں کو نفع پر بیچ دیا تو بیان دیا کہ میرے تحفے تھے۔میری مرضی کہ انہیں بیچوں کہ اپنے پاس رکھوں‘ جب اس بات کی اخلاقیات کا تذکرہ کیا جائے تو پی ٹی آئی والے ہتھے سے اُکھڑ جاتے ہیں اور اخلاقیات کا بھاشن دینے میں یدطولیٰ رکھنے والے لیڈر کے متوالے اخلاقیات کا دامن ہی ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔گھڑیوں کی فروخت سے ملنے والی رقم کے بارے میں پوچھیں تو جواب ملتا ہے کہ اس سے خان صاحب نے بنی گالا کی سڑک بنوائی ہے۔ اگر آپ کہیں کہ گھڑی کروڑوں میں فروخت کی جبکہ اس سڑک کے لیے انہوں نے صرف تیس لاکھ روپے دیے تھے تو آپ کی عزت کی خیر نہیں۔
خان صاحب کے دو عشروں پر محیط سیاسی کیریئر کا بنیادی بیانیہ کرپشن کے خلاف تھا اور وہ انہی دو سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کی کرپشن کی کہانیاں سنا سنا کر مقبولیت کے ایسے درجے پر فائز ہوئے جو بالآخر انہیں وزارت عظمیٰ تک لے گیا۔ اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران وہ قوم کو بتاتے تھے کہ جمہوری حکمران کیسے ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں کس قسم کے جمہوری حکمران آتے رہے ہیں۔ جب خود حکمران بنے تو مطلق العنانیت کی خواہش ان کے انگ انگ سے ٹپکتی تھی۔ کبھی چین کے ماڈل کی باتیں کرتے تھے اور کبھی بادشاہوں کی مثالیں دیتے تھے۔ خیر سے نوازشریف کابینہ کے اجلاس میں شریک نہیں تو ہوتے تھے‘ تاہم عمران خان کابینہ کے اجلاس میں آتے ضرور تھے مگر صرف خود ہی بولتے تھے اور کسی وزیر مشیر کو بولنے نہیں دیتے تھے۔
عمران خاں نے کرپشن کے خلاف طویل بیانیے کے بعد جب عنانِ حکومت سنبھالا تو صرف اس عارضی اقتدار کیلئے ان لوگوں سے ہاتھ ملایا جن کے خلاف وہ لمبے لمبے بھاشن دے کر مقبولیت سمیٹا کرتے تھے۔ جس شخص کو اپنا چپڑاسی نہیں بنانا چاہتے تھے اسے وزیر داخلہ بنا دیا‘ جس شخص کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے اسے پہلے اسی صوبے کا سپیکر بنا دیا اور پھر اسے وزیراعلیٰ کے منصب پر بٹھا دیا۔ پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کا خطاب پانے والے کے بیٹے کے ذکر پر کہا کہ میں اس کے بارے بات بھی نہیں کرنا چاہتا‘ پھر اسی کو ایک ضمنی الیکشن میں حمایت کے عوض اپنی کابینہ میں وزارت عطا کر دی۔
کرپشن کیا ہوتی ہے؟ اگر آپ کا خیال ہے کہ کرپشن صرف کمیشن پکڑنے، رشوت لینے اور کک بیک حاصل کرنے کا نام ہے تو آپ قطعاً غلط ہیں۔ اپنے مقاصد اور خواہشات کی تکمیل کیلئے سکہ بند کرپٹ لوگوں کو ساتھ ملانا‘ انہیں بااختیار بنانا اور ان کو اس تعاون کے عوض کرپشن کرنے کی کھلی چھٹی دینا بھی عین اسی طرح کرشن ہے جس طرح براہ راست کمیشن لینا‘ کک بیک حاصل کرنا اور رشوت لینا کرپشن ہے۔خان صاحب کے بیانیے کا دوسرا بڑا نکتہ میرٹ تھا۔ وہ صحیح جگہ پر صحیح شخص کی تعیناتی کے دعوے دار تھے۔ جب موقع ملا تو پنجاب کو عثمان بزدار اور کے پی کے کو محمود خان جیسے وزرائے اعلیٰ کے سپرد کردیا۔ عثمان بزدار کی تعیناتی سے نہ صرف میرٹ کا قتل ہوا بلکہ کرپشن کا ایک ایسا دور شروع ہوا جس کی طوفانی لہروں کی زد میں آکر صوبہ پنجاب میں پہلی بار ڈی پی اوز‘ ڈپٹی کمشنرز اور کمشنرز جیسے عہدوں پر پیسے لے کر تعیناتیاں کی گئیں۔احسن جمیل گجر اور فرح گوگی جیسے کردار جو عملی طور پر صرف اور صرف خاتونِ اول کی آشیر باد کے طفیل اس سسٹم میں اس قدر دخیل تھے کہ ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ کا مرتبہ انجوائے کرتے رہے۔ اس جوڑے نے اس دوران ایسی دیہاڑیاں لگائیں کہ بہت سارے سکہ بند کرپٹ بھی کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ آپ ان میں سے کوئی سوال خان صاحب کے چاہنے والوں سے کرکے دیکھ لیں جواباً وہ اور کچھ نہ بھی کہے تو کم از کم آپ کے علم دشنام میں کئی نئے اور ناگفتہ الفاظ کا اضافہ ضرور کر دے گا۔سابق خاتونِ اول کی مبینہ آڈیو ریکارڈنگز، ان کے سابقہ شوہر اور بچوں کی لوٹ مار کی بات کریں تو وہ آپ کو گھریلو خاتون پر کذب بیانی جیسے اخلاقی جملے سے جوابی حملے کا آغاز کریں گی جو گالی گلوچ تک پہنچ جائے گا۔ مظفر گڑھ میں اُن کی ہمشیرہ اور برادر ِنسبتی کی زمینوں کی الاٹمنٹ کو خان صاحب کے دور اقتدار دورِ اقتدار میں صرف conflict of interestہی قرار دیں تو جواباً پاکی ٔداماں کی ایسی کہانیاں سننے کو ملیں گی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آپ خان صاحب کے کسی مرید سے صرف یہ پوچھ لیں کہ علیمہ خان صاحبہ کے پاس آخر کس کمپنی کی سلائی مشینیں تھیں جن کے زور پر انہوں نے نہ صرف پاکستان سے باہر جائیدادیں بنالیں بلکہ دو مرتبہ خان صاحب کی حکومت میں دی گئی ایمنسٹی سے فیض بھی حاصل کیا۔ لیکن ہم یہ سوال نہیں کر سکتے کہ ہمیں اپنی عزت بھی عزیز ہے اور جان بھی پیاری ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں