پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد بیلٹ بکس کھلتے ہیں مگر اِدھر یہ عالم ہے کہ لگتا ہے بیلٹ بکس نہیں بلکہ پنڈورا بکس کھل گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہیں صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی اس محیر العقول کامیابی کی توقع تھی یا نہیں تھی؛ تاہم انہیں ڈیرہ اسماعیل خان میں علی امین گنڈاپور کے ہاتھوں اپنی شکست یقینی دکھائی دے رہی تھی۔ لہٰذا انہوں نے پہلی بار اپنے لیے ایک متبادل اور محفوظ سیٹ کا بندوبست کیا اور بلوچستان کے ضلع پشین سے الیکشن لڑا۔ ان کی احتیاط اور دور اندیشی ان کے کام آئی اور وہ پانچ سال کے ایسے طویل عرصے کے بعد‘ جس کا ہر دن ایک سال کے برابر طوالت کا حامل تھا‘ بالآخر قومی اسمبلی میں داخلے کی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
آٹھ فروری والے الیکشن کے نتائج کے بارے میں مولانا فضل الرحمن کو یہ بات ہم جیسے کم علم لوگوں سے بدرجہا بہتر طور پر معلوم تھی کہ اس الیکشن کے نتیجے میں کسی ایک پارٹی کی حکومت نہیں بنے گی۔ میاں صاحب تو کسی وعدے کی خوش فہمی میں پاکستان تشریف لے آئے مگر مولانا فضل الرحمن کی دور اندیش نگاہوں سے بھلا یہ ڈیزائن کس طرح پوشیدہ رہ سکتا تھا۔ ان کو یقینِ کامل تھا کہ آئندہ اسمبلی میں ان کی بارہ‘ پندرہ نشستیں تو بہرحال نکل ہی آئیں گی اور یہ محض بارہ‘ پندرہ نشستیں نہیں بلکہ ان کے لیے اقتدار کی گارنٹی ہوں گی اور وہ صرف انہی بارہ سیٹوں کے طفیل صدارت چھوڑ‘ وزارتِ عظمیٰ کے لیے بھی ہاٹ فیورٹ بن سکتے ہیں۔ ان کا سارا حساب کتاب ہمارے نزدیک کسی خوش فہمی پر مشتمل ہو سکتا ہے مگر اپنی بارگیننگ کی صلاحیتوں سے بخوبی آگاہ مولانا فضل الرحمن کو یقینِ کامل تھا کہ وہ اپنی متوقع بارہ‘ پندرہ سیٹوں کے تیر سے کسی بہت ہی بڑے عہدے کا شکار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر ان سے اس سارے حساب کتاب میں دو طرح کی گڑبڑ ہو گئی۔
پہلی یہ کہ ان کی جماعت کو ان کی توقع سے کہیں کم سیٹیں حاصل ہوئیں۔ یعنی انہیں کم از کم بھی بارہ‘ پندرہ سیٹوں کے حصول کا یقین تھا مگر بعد از الیکشن پورا زور لگانے کے باوجود ان کی قومی اسمبلی میں سیٹوں کی تعداد محض چار تک پہنچ سکی ہے؛ تاہم ان سے حساب کتاب کی دوسری اور اصلی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے خود کو پی ڈی ایم کا سربراہ سمجھتے ہوئے یہ یقین کر رکھا تھا کہ اگلی حکومت‘ جو کہ پی ڈی ایم کا ہی اگلا سیکوئل ہوگی‘ میں وہ حکومت سازی کے جہاز کے پائلٹ نہ بھی سہی تو کم از کم اس سارے سیٹ اَپ میں کو پائلٹ کی سیٹ پر تو ضرور براجمان ہوں گے مگر انہیں شاید اس بات کا شائبہ بھی نہ تھا کہ انہیں پائلٹ یا کو پائلٹ بنانا تو ایک طرف‘ فرسٹ کلاس کے مسافروں میں بھی نہیں بٹھایا جائے گا۔ حتیٰ کہ مولانا نے اس جہاز میں فضائی میزبان بن کر سوار ہونے کی کوشش کی مگر انہیں اس جہاز میں داخل ہی نہیں ہونے دیا گیا۔
اللہ جانے اس کی کیا وجہ تھی مگر یہ بات طے ہے کہ اس بار پی ڈی ایم کے سربراہ کو مشترکہ حکومت سازی کے عمل سے ایسے باہر نکالا گیا ہے کہ مجھے دودھ سے مکھی کی طرح نکالنے کا محاورہ یاد آ گیا ہے۔ اس کی جو منطقی وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے پی ڈی ایم کی گزشتہ سولہ ماہی حکومت میں اتحادیوں کو اپنے بے پناہ مطالبات سے اتنا اک نک کر چھوڑا ہوگا کہ انہوں نے ٹھان لیا ہو گا کہ وہ آئندہ اس سواری کو اقتدار کی گاڑی میں سوار نہیں کریں گے کہ اس سواری کے مطالبات کا بوجھ اٹھانا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس پر مرحوم جنرل (ر) نصیر اللہ بابر کا ایک جملہ یاد آ گیا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی اور عورت کی حکمرانی کے خلاف فتویٰ لگانے والے مولانا فضل الرحمن ان کے حکومتی اتحادی تھی۔ جنرل (ر) نصیر اللہ بابر‘ جو تب وزیر داخلہ تھے‘ کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن بطور حکومتی اتحادی اتنے مطالبات کرتے تھے کہ ایک دن میں نے تنگ آ کر محترمہ سے کہا کہ آپ انہیں (مولانا فضل الرحمن کو) سٹیٹ بینک کی چابیاں ہی پکڑا دیں۔
پی ڈی ایم پر مشتمل گزشتہ سولہ ماہی حکومت میں مزے سب نے لیے مگر اس حکومت کی نااہلی‘ مہنگائی‘ خراب معیشت اور مجموعی بدانتظامی کا سارا ملبہ مسلم لیگ (ن) کو اکیلے اٹھانا پڑا۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک قبر کے کتبے پر لکھا ہوا تھا ''دادا جان! آپ کی جائیداد سے حصہ تو سب وارثوں نے وصول کیا مگر آپ کی قبر پر کتبہ آپ کے پیارے پوتے گل خان نے ہی لگوایا‘‘۔ مولانا اپنے مطالبات منوانے کے فن میں اتنے ماہر ہیں کہ انہیں ایک بار آپ اپنے ساتھ بٹھا لیں اور پھر ان کا کمال دیکھیں۔ ایسے ہی قسطوں میں خراج وصول کرنے کا ایک واقعہ مولانا شبلی نعمانی نے اپنے سفر نامہ میں غالباً مصر کی بندرگاہ سکندریہ پر بحری جہاز کے عارضی طور پر لنگر انداز ہونے کے دوران ایک داستان گو لڑکے کی کہانی بازی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ لڑکا کہانی سناتے ہوئے کسی نہایت ہی پُرتجسس موڑ پر کہانی سنانا بند کر دیتا اور مزید کہانی جاری رکھنے کے لیے مجمع میں اپنی ٹوپی لے کرگھومتا اور اپنے فنِ قصہ گوئی کا خراج وصول کرنے کے بعد کہانی دوبارہ شروع کرتا۔ پھر تھوڑی دیر بعد کسی ایسے ہی مقام پر آکر دوبارہ کہانی روک لیتا اور اپنی ٹوپی کو مجمع میں لے کر گھومتا اور کہانی آگے چلانے کا عوضانہ وصول کرنے کے بعد پھر کہانی شروع کر دیتا۔ مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ تھوڑی ہی دیر میں اس چرب زبان اور داستان گو نو عمر لڑکے نے کہانی سننے کے شوقین مجمع سے کئی بار اپنے فن کا خراج وصول کیا۔ مولانا جب اُدھر سے رخصت ہوئے تو ابھی کہانی جاری تھی اور وہ لڑکا اپنی ٹوپی گھمانے میں مصروف تھا۔ مولانا شبلی بھی غالباً اس مسلسل ٹوپی گھما کر پیسے اکٹھے کرنے کے عمل سے تنگ آکر یا گھبرا کر وہاں سے نکل بھاگے ہوں گے۔ اب اسی طرح پی ڈی ایم کی سابقہ حکومتی پارٹیاں اس بار مولانا کو چھوڑ کر پتلی گلی سے اس طرح نکلی ہیں کہ پی ڈی ایم کے حاضر سروس سربراہ نے اس بے وفائی اور طوطا چشمی سے تنگ آکر اپنے سابقہ اتحادیوں پر خود کش حملہ کر دیا ہے۔ یہ ایسا خودکش حملہ ہے جس میں خودکش حملہ آور محفوظ و مامون ہے۔
میں نے حسبِ معمول اس بارے میں شاہ جی سے پوچھا (قارئین! میں معذرت خواہ ہوں کہ ہر ایسے معاملے میں قبلہ شاہ جی کے پاس پہنچ جاتا ہوں مگر مجھ جیسا کم فہم آدمی جب بند گلی میں آ جائے تو کیا کرے؟ ظاہر ہے مشورہ تو خود سے بہتر علم والے سے ہی کیا جاتا ہے اور میرے پاس حاضر سٹاک میں شاہ جی سے زیادہ مناسب شخص فی الحال دستیاب نہیں ہے) کہ کیا مولانا فضل الرحمن نے یہ بیان کسی فرسٹریشن کے زیر اثر دیا ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: آپ مولانا کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ وہ نہ تو بلا سوچے سمجھے جذباتی ہوتے ہیں اور نہ ہی بغیر منصوبے کے مغلوب الغضب ہوتے ہیں۔ وہ ایسے سارے کام بہت سوچ سمجھ کر اور پورے ہوم ورک کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کا مقتدرہ پر‘ الیکشن کمیشن پر‘ لندن سے آنے والے مہمان کردار پر‘ اس کو لانے والے منصوبہ سازوں پر اور پھر زرداری صاحب پر کیا جانے والا ہزار پہلو حملہ اپنے اندر بے پناہ امکانات لیے ہوئے ہے۔ انہوں نے ایک صحافی خاتون کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ جتنا زرداری صاحب کو وہ جانتے ہیں‘ اتنا کوئی نہیں جانتا پھر کہا کہ زرداری صاحب مفاہمت کے نہیں‘ مفادات کے بادشاہ ہیں۔ یہ کہہ کر شاہ جی کھچرے پن سے مسکرائے اور کہنے لگے: کند ہم جنس باہم جنس پرواز ؍ کبوتر با کبوتر باز با باز۔ میں نے کہا: شاہ جی! فارسی چھوڑیں یہ بتائیں کہ مولانا نے یہ نیا پنڈورا بکس کیوں کھولا ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: اس کی وجہ تو متوقع بارگیننگ میں اپنی قیمت بڑھانا ہے مگر تم اس نئے کھلنے والے کٹے پر غور کرو جو گرفتار شدہ کمشنر راولپنڈی نے کھولا ہے۔