"KMK" (space) message & send to 7575

ہم نے تو ہاتھ ہی کھڑے کر دیے ہیں

نئی ایجادات جہاں اپنے ساتھ بے شمار فوائد اور اَن گنت آسانیاں لے کر آتی ہیں‘ وہیں چند قباحتیں بھی درآتی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک پیکیج ڈیل کی مانند سمجھ لیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس چیز کو کس طریقے اور ترجیحات سے دیکھتے اور استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا بھی یہی حال ہے؛ تاہم اس کو استعمال کرنیوالوں کی اکثریت کیونکہ اپنی ساری فرسٹریشن اور گھٹن کو اس پلیٹ فارم پر آ کر نکالتی ہے اس لیے جھوٹ‘ مبالغہ‘ ڈِس انفارمیشن اور اسی قسم کی دیگر قباحتوں اور خرابیوں کی شرح فیصد بہت زیادہ ہے۔ تاہم اس کے طفیل بہت سی ایسی چیزیں جن تک کبھی عام آدمی کی رسائی مشکل ہوتی تھی اور بہت سے ایسے معاملات‘ جو مجرم کو عدم ثبوت بلکہ اس سے پہلے عدم شناخت کی بنیاد پر معاشرے میں دندنانے کیلئے کھلی چھوٹ دیے رکھتے تھے‘ اب اس پلیٹ فارم کے طفیل انکے گرد قانون کا شکنجہ کسی نہ کسی طرح اپنا اثر دکھا دیتا ہے۔اب اکثر لوگوں کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے اور وہ واقعات جو کبھی صرف سنائے جاتے تھے‘ اب نہ صرف دکھائے جاتے ہیں بلکہ اخبارات اور ڈیجیٹل میڈیا سے بھی کہیں زیادہ سرعت کے ساتھ کہیں بڑی تعداد میں لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں اس پلیٹ فارم کی وساطت سے بہت سے ایسے زور آور افراد اور ادارے سامنے آئے ہیں جن کے بارے میں پہلے کسی قسم کیلئے آواز اٹھانا‘ نشاندہی کرنا اور ان کے بارے میں خبر لگانا ناممکن ہوا کرتا تھا۔ بھلے سے اب ان میں سے بہت سے لوگوں کو سزا نہ بھی ملے مگر کم از کم ان کا مکروہ چہرہ اور غیر انسانی اقدامات ضرور سامنے آ رہے ہیں۔ اپنی زور آوری اور لاچار قانون کے طفیل وہ بے شک سزا سے بچ ہی کیوں نہ جائیں مگر اس پلیٹ فارم کے ذریعے ہونے والا میڈیا ٹرائل ان کی عزت‘ ساکھ اور نام نہاد شرافت کے پردے کو ضرور چاک کر کے رکھ دیتا ہے۔
بے شک وڈیو کے باوجود بلوچستان اسمبلی کا رکن مجید اچکزئی اپنی جہازی گاڑی کے تلے ٹریفک پولیس کے وارڈن کو کچلنے کے جرم میں پکڑے جانے کے باوجود سزا سے بچ ہی کیوں نہ جائے مگرسی سی ٹی وی والی وڈیو کے وائرل ہونے کے طفیل وہ قانون کی گرفت میں تو آیا۔ اگر سوشل میڈیا کے ذریعے یہ وڈیووائرل نہ ہوتی تو ٹریفک وارڈن کو کچلنے والا ایف آئی آر میں نامعلوم ڈرائیور کے نام سے درج ہوتا اور کیس پہلی ہی پیشی میں داخلِ دفتر ہو جاتا۔ عدالت میں بیان دیا جاتا کہ پولیس اس نامعلوم گاڑی کو تلاش کرنے میں بڑی بھاگ دوڑ کر رہی ہے۔ جیسے ہی اس گاڑی اور اس کے ڈرائیور کے بارے میں کوئی سراغ ملتا ہے اسے پکڑ کر قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے گی اور کہانی اپنے اختتام کو پہنچتی۔ نہ اس نامعلوم گاڑی کا سراغ ملنا تھا‘ نہ اس کے ڈرائیور کا پتا چلنا تھا اور نہ ہی کسی ملزم نے قانون کے شکنجے میں آنا تھا۔ فائل نے کچھ عرصہ بعد داخلِ دفتر ہو جانا تھا۔ بھلے سے اب مجید اچکزئی قانون کی موشگافیوں اور اپنی طاقت کے زور پر گواہوں کو منحرف کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد ''باعزت‘‘ بری ہو چکا ہے مگر اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی سی سی ٹی وی کی وڈیو کے باعث کئی ماہ جیل میں رہنے اور تقریباً تین سال تک عدالتوں میں پیشیاں بھگتنے کے بعد اس ''باعزت بریت‘‘ کی کیا اوقات باقی رہ گئی ہے۔
یہ صرف ایک واقعہ تھا جو میں نے لکھا ہے۔ اس قسم کے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے اور وائرل ہونے والی وڈیوز کے بعد ملزمان کا قانون کی گرفت میں آنا ہی اس پلیٹ فارم کا وہ مثبت پہلو ہے جو اس کی آمد سے قبل کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ بہت سی ناممکنات اس پلیٹ فارم کے طفیل ممکنات ہو سکیں۔ ابھی حال ہی میں ٹرین کے اندر مسافر خاتون کیساتھ مار پیٹ کرتے ہوئے پولیس کانسٹیبل کی وڈیو کے طفیل اس خاتون کی تلاش کا معاملہ اُٹھا جو بعد ازاں اس خاتون کی ٹرین سے گر کر یا گرا کر ہونیوالی ہلاکت تک پہنچا۔ اگر کسی نے یہ وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ نہ کی ہوتی تو بھلا کسے معلوم ہوتا کہ اس خاتون کیساتھ کیا گزری؟ اس خاتون کی ریلوے لائن کیساتھ سے ملنے والی لاش نامعلوم قرار دے کر چنی گوٹھ کے قبرستان میں دفنا دی جاتی۔ یہ بات الگ کہ پولیس نے اپنے بھائی بند اور پیٹی شریک کو صاف بچا لیا مگر معاملہ اخبارات تک تو پہنچا۔ خاتون کی لاش اسکے وارثان تک پہنچی۔ معاملہ نامعلوم سے معلوم تک تو پہنچا۔
اسی طرح کراچی ایئرپورٹ پرپردیس سے آنے والے باپ کی طرف بے تاب ہو کر بھاگنے والی بچی کو بالوں سے پکڑ کر زمین پر پٹخنے والے اے ایس ایف اہلکار کے خلاف انکوائری کا سبب بھی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی وہ وڈیو ہی تھی جس نے اس بہیمانہ حرکت کو ثبوت بنایا اور اس وڈیو کی وساطت سے اس اہلکار کی شناخت ممکن ہوئی‘ وگرنہ یہ بات انکوائری تک بھی نہ پہنچتی۔ اس سے قبل ایئرپورٹ کے اندر بے شمار مسافروں سے اے ایس ایف کے اہلکار نہ صرف بدسلوکی کرتے رہے بلکہ بارہا ان کے ساتھ مار پیٹ کے واقعات بھی ہوئے مگر صرف وہی دو‘ چار معاملات انکوائری وغیرہ کی نوبت تک پہنچے جن کے پیچھے سوشل میڈیا پرگردش کرتی ہوئی کوئی وڈیو تھی۔لیکن اس ساری پیش رفت کے باوجود افسوس کی بات تو یہ ہے کہ افراد کی ان شرمناک حرکتوں پر محکمے ان واقعات کا سدباب کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنے کے بجائے ان واقعات کا سوشل میڈیا تک پہنچنے کا سدباب کرنے میں مصروف ہیں۔اس قسم کے واقعات کی مستقبل میں مکمل روک تھام کیلئے محکمے نے جو عملی قدم اٹھایا ہے وہ یہ ہے کہ ایئرپورٹس پر عوام کو موبائل فون سے وڈیو بنانے اور تصویر کھینچنے سے روک دیا جائے۔
میں گزشتہ روز اپنی چھوٹی بیٹی کو لاہور ایئرپورٹ کے انٹرنیشنل ڈیپارچر سے رخصت کرنے گیا تو روانگی والے گیٹ پر متعین اے ایس ایف کا آدھا عملہ لوگوں کو اپنے عزیزوں کی رخصت ہوتے ہوئے وڈیو بنانے سے روکنے میں مصروف تھا اور اس میں بھی وہ خاصی درشتی اور سختی سے کام لے رہے تھے۔ میں نے ایک اہلکار کو کہا کہ بجائے آپ اپنے اہلکاروں کو مسافروں اور ان کے بچوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنے کی تربیت دینے کے‘ اب سارا زور اس بات پر لگا رہے ہیں کہ اس ایریا میں وڈیو ہی نہ بن سکے۔ آپ ایسے واقعات کو وقوع پذیر ہونے سے روکنے کے بجائے ان کے متوقع ثبوتوں کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہیں۔ میری اس بات پر اس اہلکار نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ بزرگ ہیں‘ اب آپ کو میں کیا کہوں؟ میں نے ہنس کر کہا: مجھے علم ہے کہ آپ کو نہ تو میری بزرگی کا خیال ہے اور نہ ہی عمر کا لحاظ ہے۔ آپ دراصل اب بھی اُن فون کیمروں سے خوفزدہ ہیں جو آپ کی تمام تر نگرانی اور کوششوں کے باوجود کسی نہ کسی طرف سے وڈیوز بنا رہے ہیں۔ ورنہ میرے بال بہرحال اتنے ضرور ہیں کہ ان سے پکڑ کر زمین پر پٹخا جا سکے۔ وہ اہلکار اپنی سابقہ تربیت اور جبلت سے مغلوب ہو کر دو قدم آگے بڑھا‘ پھر رُک گیا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو پیچھے ایک نوجوان لڑکی اپنے والدین کی وڈیو بنا رہی تھی۔ اس اہلکار نے کڑک کر کہا: بی بی! وڈیو بنانی بند کریں۔
ہم نے معاملات کو درست کرنے کا وہ طریقہ نکالا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں نہیں آسکتا۔ ایک زمانہ تھا غیر ملکی سربراہوں کو پاکستانی عوام کی طرف سے پذیرائی اور محبت کے اظہار کے لیے سڑکوں کے کنارے خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑا کیا جاتا تھا۔ اب عالم یہ ہے کہ امن و امان اور سکیورٹی معاملات کو درست کرنے کے بجائے غیر ملکی سربراہِ مملکت کی آمد پر اس شہر میں عام تعطیل کا اعلان کر دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حکومت اور اداروں نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں