"KMK" (space) message & send to 7575

ساڈا تے مقدر ای خراب اے

جیسا کہ میں نے پہلے لکھا تھا جنوبی افریقہ مجموعۂ اضداد ہے۔ لوگ گوروں کی نسل پرست حکومت کے دور سے ہی جلد کام پر جانے کے عادی ہیں اور گوروں کے بعد کالا راج آ جانے کے باوجود اپنی پرانی ڈگر سے نہیں ہٹے۔ ہماری طرح نہیں کہ بازار بارہ بجے کھلنا شروع ہوں اور رات دس بجے کی پابندی کے باوجود گیارہ‘ بارہ بجے تک کام چلاتے رہیں۔ گھریلو ملازم بھی صبح سات بجے آ جاتے ہیں اور پانچ بجے اپنا کام ختم کرکے چلے جاتے ہیں۔ اگر پانچ بجے سے اوپر کا وقت ہو جائے تو پھر اس ملازم کو عموماً اس کا مالک اپنی گاڑی پر گھر پہنچاتا ہے۔ تاہم وضاحتاً بتاتا چلوں کہ مالک یہ فریضہ کسی انسانی ہمدردی کے تحت نہیں بلکہ اس لیے ادا کرتا ہے کہ شام پانچ بجے کے بعد سڑکوں پر پیدل چلنا خطرے سے خالی نہیں اور خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں کالے اکثریت اور حکومت میں ہیں۔ جو ہانسبرگ اور پریٹوریا وغیرہ اسی قسم کے خطرناک شہر ہیں۔ سٹریٹ کرائم صرف عام ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ ہی عام ہے۔
یہ صرف ایک شخص کی نہیں بلکہ چار پانچ لوگوں کی سنائی ہوئی کہانی ہے کہ ادھر جنوبی افریقہ میں کالے اغوا برائے تاوان جیسے آسان آمدنی والے کاروبار سے قطعاً ناآشنا تھے‘ پھر ادھر موجود پاکستانی بھائیوں نے خود سے مالی معاملات میں آگے نکل جانیوالے اپنے ہی پاکستانی کاروباری حضرات سے پیسے بٹورنے کا بندوبست بذریعہ اغوا برائے تاوان کرتے ہوئے مقامی کالے اٹھائی گیروں اور کن ٹٹوں کے ذریعے اس کام کا آغاز کیا۔ جونہی یہ کاروبار چل نکلا تو کالوں نے اپنے پاکستانی سرپرستوں کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے یہ کام خود شروع کردیا اور آسان ٹارگٹ کے طور پر پاکستانی اور ہندوستانی متمول تاجروں کو اغوا کرکے تاوان میں پیسے وصول کرنے شروع کردیے۔ آسان ٹارگٹ کا لفظ میں نے اسلئے استعمال کیا ہے کہ اول تو کالے خود اپنے کالے ہم وطنوں کو لوٹنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ اسکی وجہ نسلی کم ہے اور دیگر عوامل زیادہ ہیں۔ پہلا تو یہ کہ باہمی نیٹ ورک کی وجہ سے کالے مغوی اپنے اغوا کرنے والوں کا کُھرا ڈھونڈ لیتے ہیں اور ان کی گرفتاری آسان ہو جاتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ خود سرکار کالے شخص کے اغوا ہونے پر بڑی تندہی سے ایکشن لینا شروع کردیتی ہے اور تیسری وجہ شاید یہ بھی ہے کہ کالے اس سلسلے میں بہت زیادہ مزاحمت بھی کرتے ہیں۔ گوروں کا یہ عالم ہے کہ وہ اب بھی بہت متحد ہیں۔ ان کے رہائشی علاقے بالکل ہی علیحدہ اور بڑے محفوظ ہیں۔ ان کے علاقے باقاعدہ چار دیواری میں ہیں اور اس کی دیواروں کے اوپر عموماً نہیں‘ لازمی طور پر بجلی کی تاروں پر مشتمل حفاظتی باڑ ہوتی ہے۔ دروازے سے داخلے کیلئے ایسا شاندار اور محفوظ انتظام ہے کہ میں نے کسی شاندار سے شاندار پاکستانی رہائشی سوسائٹی یا کالونی میں نہیں دیکھا۔ پھر انہوں نے اپنی مسلح سکیورٹی ایجنسیاں بنا رکھی ہیں‘ اوپر سے مزید ستم یہ کہ ہر گورا نہ صرف خود مسلح رہتا ہے بلکہ انہوں نے جدید طریقوں پر مبنی اپنا ایک اطلاعی نظام مرتب کر رکھا ہے اور صرف ایک کال پر چند منٹ میں دیگر گورے اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی ایجنسی والے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ کالے عموماً کسی گورے سے اب بھی پنگا لیتے ہوئے نہ صرف گھبراتے ہیں بلکہ باقاعدہ دور دور رہتے ہیں۔انڈین یعنی پاک بھارت سے تعلق رکھنے والے انکا آسان ٹارگٹ ہیں۔ انڈین وہاں کی سرکاری اور ریاستی سطح پر تسلیم کردہ چار نسلی گروہوں میں سے ایک ہیں اور اس گروپ میں بھارتی‘ پاکستانی اور بنگلہ دیشی کے علاوہ مشرقِ بعید سے تعلق رکھنے والے پرانے ملائی قوم کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اور ان کی نہ سرکار ہی پرسانِ حال ہے اور نہ ہی یہ خود اپنی حفاظت کر سکتے ہیں۔ ہاں البتہ جو مالی طور پر زیادہ مستحکم ہیں وہ بھی بائونڈری وال والے رہائشی علاقوں میں‘ جنہیں یہاں اسٹیٹ کہا جاتا ہے‘ رہائشیں اختیار کر رہے ہیں مگر باہر سڑک پر حال خراب ہے اور سٹریٹ کرائم بہت عام ہیں۔ دوسری چیز گھروں اور دکانوں کے کالے ملازمین کی طرف سے دیدہ دلیری سے چوری کے واقعات ہیں۔ دیدہ دلیری اور ڈھٹائی تو ایسی کہ غریب اور بے وسیلہ ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے حکمران طبقے سے ہمسری کے دعویدار ہیں۔
ایک دوست بتانے لگے کہ ان کے گھر کی ملازمہ ان کی بیگم کے کپڑے چوری کر کے لے گئی۔ بیگم صاحبہ نے ملازمہ سے دریافت کیا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کردیا مگر خود اعتمادی کی انتہا دیکھیں کہ وہ ملازمہ ایک روز وہی چوری شدہ کپڑے پہن کر کام پر بھی آ گئی۔ گھر کی مالکن نے اپنے کپڑے پہچان کر اس سے پوچھا تو وہ کہنے لگی: جی میں نے ہی اٹھائے تھے۔ آپ کے فالتو پڑے ہوئے تھے اور میں دیکھ رہی تھی کہ آپ نے کافی عرصے سے یہ کپڑے نہیں پہنے تو میں لے گئی۔ یہ تو ہمارے لیے Blessingہے۔ ہمیں جنگل میں بغیر محنت کے کوئی چیز مل جائے تو ہم اس کے ملنے پر شکر ادا کرتے ہیں اور اسے اپنے لیے خوش قسمتی اور خوش نصیبی تصور کرتے ہیں کہ خدا نے ہمیں بغیر محنت کے انعام بخش دیا ہے۔ اس میں شرمندگی کی کیا بات ہے؟ میں اتنے عرصے سے آپ کے گھر کام کر رہی ہوں۔ دو جوڑے بھی نہیں لے کر جا سکتی؟ اس سے مجھے اپنی ایک سابقہ وزیراعظم یاد آ گئیں جب سوئس ہار کا شور مچا تو سرے سے ہی اس کے وجود کی انکاری ہو گئیں جب ہار برآمد ہو گیا تو کہنے لگیں میں تین نسلوں سے وزیراعظم ہوں کیا ایک ہار بھی نہیں لے سکتی؟ان کے ورکروں نے اس دلیل پر بڑی تالیاں پیٹیں اور فتح کے شادیانے بجائے۔
ایک اور دوست کے دفتر کی دراز سے کچھ رقم غائب ہو گئی۔ سی سی ٹی وی کی ریکارڈنگ دیکھی تو علم ہوا کہ یہ حرکت ایک ملازم نے کی ہے۔ اس سے پوچھا تو وہ اس سے صاف انکاری ہو گیا۔ اسے دفتر بلا کر وڈیو ریوائنڈ کرکے دکھانی شروع کی۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو اس پوچھا کہ یہ کون ہے جو اندر آیا ہے؟ اس نے کہا: یہ میں ہوں۔ پھر پوچھا کہ یہ دراز کے پاس کون آیا ہے؟ جواب دیا: یہ میں ہوں۔ پھر پوچھا کہ دراز کون کھول رہا ہے؟ جواب دیا کہ یہ بھی میں ہوں۔اب آخری سوال کیا کہ یہ پیسے کون اٹھا رہا ہے؟ جواب دیا: مجھے پتا نہیں یہ کون ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے ایک وزیراعظم اور ان کا سارا خاندان لندن کے فلیٹس اور جائیدادوں کی ملکیت سے متعلق مختلف بیان دیتا تھا۔ کوئی کہتا تھا کہ ان فلیٹس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ کوئی دوسرا کہتا تھا کہ ہم اس میں کرایہ دار ہیں۔ تیسرا کہتا تھا الحمد للہ یہ فلیٹ ہمارے ہیں۔ کبھی ان کا ذریعہ خریداری دبئی کی ملز کی فروخت بتایا جاتا تھا‘ کبھی کہا جاتا کہ جدہ کی آمدنی سے خریدے تھے اور کبھی قطری خط لہرا دیا جاتا تھا۔
جنوبی افریقہ میں اغوا برائے تاوان کو متعارف تو پاکستانی جرائم پیشہ ذہنیت کے لوگوں نے کرایا تھا لیکن بعد میں ان کے کارندے ان کے ہاتھ سے نکل گئے اور نہ صرف یہ کہ خود مختار ہو گئے بلکہ انہوں نے اپنے استادوں سے ہی ہاتھ کرنا شروع کردیا اور آسان ٹارگٹ سمجھ کر خود پاکستانیوں پر ان کا ہی حربہ استعمال کرنا شروع کردیا۔ پاکستانیوں کے ساتھ سائوتھ افریقہ میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو ادھر ہو رہا کہ تخلیق کردہ اور تربیت یافتہ گروہ زیادہ منہ زور ہو کر نہ صرف ہاتھ سے نکل گئے بلکہ خود ان کے بنانے والوں کیلئے بھی باعثِ مصیبت بن گئے۔ پھر ان گستاخ اور باغیوں کی سرکوبی کیلئے کچھ اور تخلیق کیا گیا۔ شومیٔ قسمت کہ تھوڑے دنوں کے بعد وہ باغیوں کے قلع قمع کی خاطر تخلیق کردہ متبادل ایک اور عفریت بن گئے۔ ہم پاکستانیوں کی بھی کیا خراب قسمت ہے۔ ہر جگہ ہمارے یہ پالے ہوئے ہماری گردنوں پر سوار ہیں اور ہم سے ہی تاوان اور بھتہ وصول کر رہے ہیں۔ کیا پاکستان اور کیا سائوتھ افریقہ۔ ساڈا تے مقدر ای خراب اے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں