"KMK" (space) message & send to 7575

کر بھلا سو ہو بھلا اور اَنت بھلے کا بھلا

آپ مجھے ڈھیٹ کہیں‘ ثابت قدم سمجھیں یا مستقل مزاج قرار دیں مجھے اس پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں‘ تاہم یہ بات طے ہے کہ میں انہی مسائل پر بہرحال بلاتردد لکھتا رہوں گا جو اس معاشرے کیلئے‘ عوام کیلئے اور آنے والی نسلوں کیلئے باعثِ تکلیف ہیں۔ کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ تمہیں ایک ہی مسئلے پر بار بار لکھتے ہوئے یہ خیال کرنا چاہیے کہ تمہارے قارئین ایک ہی بات کی تکرار سے ناخوش ہوتے ہوں گے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ اگر لوگ وہی حرکت جو اُن کیلئے باعثِ شرم اور معاشرے کیلئے باعثِ مصیبت ہے‘ مسلسل کرنے میں کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہیں کرتے تو بھلا ان کی اس حرکت پر لکھنے میں مجھے کیوں عار ہونی چاہیے؟ جن کو روزانہ رشوت لینے میں‘ عوام کو تنگ وپریشان کرنے میں‘ روزانہ ون وے کی خلاف ورزی کرنے میں‘ اشارہ توڑنے میں‘ گھر کا کوڑا باہر گلی میں پھینکنے میں‘ سڑک کے عین بیچ میں گاڑی کھڑی کرنے میں‘ دکان کا سارا سامان فٹ پاتھ پر رکھنے میں‘ لوگوں کی زمینوں پر قبضے کرنے میں‘ رہائشی علاقوں میں دکانیں بنانے میں‘ عدل وانصاف کا مذاق بنانے میں‘ سرکاری اختیارات کو اپنی ذات کیلئے استعمال کرنے میں‘ اپنے سیاسی مخالفین کو رگڑا دینے میں‘ عوام کو حاصل سہولتوں میں ہمہ وقت کٹوتی کرنے میں‘ آئین کا مذاق اڑانے اور آئین شکنی میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی تو بھلا ان چیزوں کے بارے میں بار بار اور تسلسل سے لکھنے میں مجھے کیوں شرم ہو؟ اگر کوئی شخص روزانہ کی بنیاد پر قانون شکنی کرے تو کیا اس کو اس ڈھٹائی کے باعث یہ جرم کرنے کی چھوٹ مل جانی چاہیے؟ کیا قانون کو اسکے خلاف کسی کارروائی کرنے سے دستبردار ہو جانا چاہیے؟ میرا ذاتی خیال ہی نہیں‘ یقین ہے کہ جو غلطی‘ قانون شکنی یا زیادتی جتنی بار ہو‘ اسکے خلاف ردِعمل‘ قانونی کارروائی یا احتجاج بھی اتنی ہی شدت اور تسلسل سے ہونا چاہیے۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ کوئی شخص بار بار غلطی کرے تو اسکو معافی یا رعایت عطا کر دی جائے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ محض اس وجہ سے اس قانون شکنی سے صرفِ نظر کرنا شروع کر دیا جائے کہ یہ اب معمول کی بات بن چکی ہے لہٰذا اسے قبولِ عام کے درجے میں رکھتے ہوئے قانون شکنی کے زمرے سے خارج کر دیا جائے۔
ملتان میں گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے پولیس نے سرکاری چھتری تلے لوٹ مار کا ایسا بازار گرم کیا ہوا ہے کہ اس کی مثال کہیں اور نہیں پائی جاتی۔ ہائیکورٹ کے ایک حکم کو بنیاد بنا کر قانون کے نام پر ایسی اندھیر نگری مچی ہوئی ہے کہ خدا کی پناہ۔ اوپر سے ستم یہ ہے کہ سب متعلقہ لوگوں نے نہ صرف اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں بلکہ وہ اسے قبولیت کی سند بھی عطا کر چکے ہیں۔ اس پولیس گردی اور سرکار کے نام پر وصول کردہ جرمانے کو ویلفیئر فنڈ کے نام پر غتربود کرنے کے خلاف یہ عاجز پہلے بھی آواز اٹھا چکا ہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ پولیس سٹیٹ میں پولیس راج کے دوران کسی کو پولیس گردی کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی۔ میرے کچھ جرنلسٹ دوست مجھے پولیس کی چھتری تلے ہونے والی لوٹ مار پر کالم لکھنے پر داد وتحسین سے تو نوازتے ہیں مگر اس سلسلے میں خود کچھ لکھنے سے پہلو بچا جاتے ہیں۔ مجھے اس مسلسل لکھنے کے عواقب کا خوب اندازہ ہے مگر کسی کو بہرحال لکھنا ہی ہوگا۔ سو اس ''کسی‘‘ کیلئے میں نے اپنا انتخاب کر لیا ہے۔
ہائیکورٹ نے غلط پارکنگ پر مبلغ دو ہزار روپے جرمانے پر مبنی چالان کرنے کا حکم صادر فرمایا اور ملتان پولیس نے اس عدالتی حکم کی آڑ میں پیدا گیری کا ایسا دفتر کھولا کہ جو بند ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔ اس عدالتی حکم نامے کو غنیمت جانتے ہوئے شہر میں پہلے سے موجود چار سرکاری فورک لفٹرز کے ذریعے گاڑیاں اٹھا کر فی گاڑی دو ہزار روپے جرمانے ٹھوکنے کی شروعات کر دی گئیں۔ میں نے جو یہ لفظ ''جرمانہ ٹھوکنا‘‘ لکھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ جرمانہ سرکار کے خزانے میں جا رہا ہوتا تو میں یہ گستاخی ہرگز نہ کرتا مگر سرکار کے نام پر کیے جانے والے ان جرمانوں کی ساری رقم جب سرکاری خزانے میں جانے کے بجائے ایک نام نہاد ویلفیئر فنڈ میں جائے تو بھلا یہ عاجز ان جرمانوں کیلئے ''ٹھوکنے‘‘ کا لفظ استعمال نہ کرے تو پھر کیا کرے؟ ملتان پولیس کے چودھری ہائیکورٹ کے ایک حکم کو آڑ بنا کر عوام کو دھڑا دھڑ جرمانے کر رہے ہیں اور ان جرمانوں کی ساری رقم جو بلامبالغہ روزانہ ساڑھے چار لاکھ روپے بنتی ہے‘ کھوہ کھاتے جا رہی ہے۔ تفصیل اس کی کچھ یوں ہے:ملتان میں وی وی آئی پی موومنٹ کے دوران سڑک کنارے کھڑی گاڑیوں کو راستے میں رکاوٹ بننے سے روکنے کیلئے ملتان شہر کو چار عدد فورک لفٹرز فراہم کئے گئے جو برسوں تک صرف یہی فریضہ سرانجام دیتے رہے‘ تاوقتیکہ ہائیکورٹ نے غلط پارکنگ پر مبلغ دو ہزار روپے جرمانے کا حکم صادر فرما دیا۔ ہائیکورٹ کے باقی احکام کے بارے میں تو عاجز لاعلم ہے کہ ملتان پولیس اس پر کس حد تک عمل کرتی ہے مگر اس حکم نامے کو تو اس نے ایسے قبول کیا جیسے کوئی عابد وزاہد خدا کے حکم کو بجا لاتا ہے۔ ملتان پولیس نے گاہکی زیادہ دیکھی تو کرایے پر فورک لفٹرز حاصل کرکے جرمانوں کا جمعہ بازار لگا دیا۔ چار سرکاری فورک لفٹرز کی مدد کیلئے پانچ عدد مزید پرائیویٹ فورک لفٹرز کرائے پر حاصل کرکے دکانداری کو وسیع کر لیا گیا۔ اب یہ نو عدد لفٹرز شہر میں گاڑیاں اٹھانے‘ انہیں فٹ پاتھ پر رکھنے اور بعض اوقات صرف چھونے کے عوض فی گاڑی دو ہزار روپے وصول کر رہے ہیں۔ مجھے غلط پارکنگ پر ہونے والے جرمانے پر اعتراض نہیں‘ صرف اس جرمانے کی رقم کے ہضم ہونے پر اعتراض ہے۔ نو عدد فورک لفٹرز کے ذمے پچیس چالان فی فورک لفٹر روزانہ کا ٹارگٹ ہے اور کمی کی صورت میں فورک لفٹر کا عملہ اسے اپنی جیب سے پورا کرنے کا پابند ہے۔ نو عدد لفٹرز ضرب پچیس عدد چالان کا مطلب ہے 225 چالان بحساب دو ہزار روپے فی چالان مبلغ ساڑھے چار لاکھ روپے روزانہ بنتے ہیں۔ یہ سالانہ ساڑھے سولہ کروڑ بنتے ہیں جو مسلسل غتربود ہو رہے ہیں۔
میں نے اس سلسلے میں لکھنے کو لاحاصل دیکھا تو ملتان کے ایک بہت بڑے انتظامی افسر سے بات کی کہ آپ کے زیر سایہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ وہ ہنس کر کہنے لگے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں ملتان کا بڑا انتظامی افسر ضرور ہوں مگر جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے تو میں اس سلسلے میں بے کس ہوں کہ پنجاب سول ایڈمنسٹریشن ایکٹ 2017ء کے بعد پولیس ہمارے دائرہ کار میں نہیں آتی اور ویسے بھی آپ کو یہ بات اب تک سمجھ آ جانی چاہیے کہ یہ پولیس سٹیٹ ہے۔ میں نے پوچھا: اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ تو وہ کہنے لگے کہ آپ سمجھدار ہیں اور آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ یہاں زور آوری کی کیا اہمیت ہے۔ عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ بندہ اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق ہی چلتا رہے تو بہتر ہے وگرنہ خواہ مخواہ کی شرمندگی اور رسوائی ہوتی ہے۔
گزشتہ ڈیڑھ سال سے سرکار کے نام پر وصول ہونے والے کروڑوں روپے ایک نام نہاد ویلفیئر فنڈ میں جا رہے ہیں۔ یہ ویلفیئر فنڈ کہاں استعمال ہو رہا ہے کسی کو علم نہیں۔ اگر علم ہو بھی تو یہ قانون کی کس کتاب میں لکھا ہے کہ کوئی سرکاری محکمہ قانون کے نام پر شہریوں سے جرمانہ وصول کرکے اسے گورنمنٹ کے خزانے میں جمع کرانے کے بجائے از خود قائم کردہ کسی ویلفیئر فنڈ میں جمع کروا کے غتربود کر جائے۔ مگر یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور کسی کو اس لوٹ مار کو روکنے کی نہ ہمت ہے اور نہ کسی کو کوئی فکر ہے۔ عوامی نمائندے آج کل صفر جمع صفر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ صوبہ بیورو کریسی چلا رہی ہے اور صوبائی حکمرانوں نے ایسے معاملات پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ایسی صورتحال کیلئے اس فقیر کو پرانے فقیروں کی صدا یاد آ گئی ہے ''کر بھلا سو ہو بھلا اور انت بھلے کا بھلا‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں