"KMK" (space) message & send to 7575

یہ ملتان کا نہیں‘ ہر شہر کا کالم ہے

اب اس کیفیت کو کس طرح اور کن الفاظ میں بیان کروں کہ میں ذاتی طور پر مایوس ہونے والا شخص نہیں ہوں مگر حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب امید کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مملکت خداداد کے بڑے مسائل کو تو چھوڑیں‘ معاملہ صرف ٹریفک کے قواعد وضوابط کا ہے۔ کوئی بہت زیادہ پیچیدہ معاملہ یا مسئلہ فیثاغورث ٹائپ اُلجھا ہوا سوال بھی نہیں کہ اس کو حل کرنے کیلئے کسی سائنسدان کی ضرورت ہو مگر عالم یہ ہے کہ گزشتہ چند روز سے ملتان میں صرف ایک یوٹرن اور ایک عدد نہایت محفوظ علاقے میں واقع برقی اشاروں والے چوک میں عوام کا رویہ دیکھ کر میں قریب قریب اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس ملک کے ٹریفک نظام میں عوام کی جانب سے کسی رضاکارانہ بہتری کا امکان کم از کم میری زندگی میں تو دکھائی نہیں دیتا۔
میں ملتان میں ہوں تو کام ہو یا نہ ہو‘ میں کم از کم ایک بار گھر سے بلاناغہ نکل کر کہیں نہ کہیں ضرور جاتا ہوں۔ میرا گھر بوسن روڈ پر ہے لہٰذا اس سڑک سے محبت سے زیادہ ضرورت کا رشتہ ہے اور بہت پختہ ہے۔ اگر ٹریفک کا نظام قاعدے سے چلتا تو اس سڑک سے محبت بھی ہو جاتی مگر یہ صرف آرزو ہے۔ ساری سڑک دو رویہ ہے اور درمیان میں ڈیوائڈر ہے۔ یہ وَن وے سڑک ہے جس کے عین درمیان میں میٹرو بس کے زمین سے اُٹھے ہوئے یعنی Elevated Track کے ستون ہیں اور اس چار کلومیٹر طویل سڑک پر چھ عدد یوٹرن ہیں‘ تاہم اس پوری وَن وے سڑک پر ٹریفک کسی قانون کے بجائے ڈرائیوروں کی مرضی سے چل رہی ہے۔ ان ڈرائیوروں میں موٹرسائیکل‘ رکشہ‘ کاریں‘ لینڈ کروزر چلانے والے‘ ویگنوں کے پائلٹ اور چنگ چی کے شاہسوار سبھی شامل ہیں۔ یہ تو ان کی سواری کے حساب سے تقسیم تھی۔ اگر ان ڈرائیوروں کی عمر کو معیار بنائیں تو ان میں ''ٹین ایجرز‘‘ یعنی کم عمر ڈرائیور‘ نوجوان‘ ادھیڑ عمر اور بوڑھے سبھی شامل ہیں۔ اگر ان کی معاشی بریکٹ کو دیکھوں تو ان میں کم آمدنی والے سائیکل سواروں سے لیکر لینڈ کروزر تک کے مالکان بلاتخصیص شامل ہیں۔ اگر ان کی معاشرتی اور طبقاتی تقسیم کو دیکھوں تو ان میں بیروزگار‘ طالبعلم‘ نوکری پیشہ‘ کاروباری حضرات‘ سرکاری افسران‘ کاشتکار اور زمینداروں کے علاوہ بزنس ایگزیکٹو بھی شامل ہیں۔ یعنی ٹریفک قوانین اور وَن وے کی خلاف ورزی کے معاملے میں' اجماعِ امت‘ کی سی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ شعبہ ہائے زندگی کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جو یہ خلاف ورزی نہ کر رہا ہو۔ اس میں سارا معاشرہ شامل ہے۔ کیا بچے‘ کیا بوڑھے‘ کیا اولاد اور کیا والدین‘ کیا طلبہ اور کیا اساتذہ‘ اس حمام میں سارے ہی... چلیں چھوڑیں اب کپڑے کیا اتارنا۔ اگر کسی کو شرم نہیں آ رہی تو ہمیں ہی تھوڑا لحاظ کر لینا چاہیے۔
گزشتہ دنوں ملتان انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ بوسن روڈ پر ایمرسن یونیورسٹی اور ایجوکیشن کالج کے سامنے والے یوٹرن کو وقف شدہ محفوظ یوٹرن جسے انگریزی میں Protected یوٹرن کہتے ہیں‘ بنانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے جونہی یہ سنا تو اس یوٹرن کی تفصیل لینے چل پڑا۔ اس یوٹرن کا نقشہ دیکھ کر میں نے اس یوٹرن کے تصور کے خالق کو کہا کہ آپ کا ارادہ تو بہت نیک ہے مگر آپ اس شہر کے شہسواروں کو نہیں جانتے۔ وہ اس یوٹرن پر A سے Z تک ایسے ایسے ٹرن لیں گے کہ آپ دنگ رہ جائیں گے۔ آپ کیلئے اس یوٹرن کو مکمل محفوظ بنانا تو خیر ممکنات میں نہیں‘ تاہم اس کا موجودہ نقشہ تو ایسا ہے کہ اس شہر کے ڈرائیور حضرات‘ جو موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلانے کی صلاحیت کے حامل ہیں‘ اس کا وہ حشر کریں گے کہ آپ ششدر رہ جائیں گے۔ میں نے کہا کہ آپ کا موجودہ نقشہ تو قانون شکن ڈرائیوروں کے سامنے پرِکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔براہِ کرم اس یوٹرن کے حفاظتی پشتے کو جو محض آٹھ دس فٹ لمبا ہے‘ مزید بڑھاتے ہوئے کم ازکم سو فٹ کر دیں تو امید ہے کہ آپ کچھ نہ کچھ بہتری لا سکیں گے۔ دو گھنٹے بعد میں نے انہیں دو عدد وڈیوز بھیجیں جس میں موٹرسائیکل والے‘ رکشہ ڈرائیور اور کاروں والے پڑھے لکھے حضرات دھڑا دھڑ اس یوٹرن میں داخلے والی جگہ سے باہر نکل رہے تھے اور اخراج والی سمت سے داخل ہو رہے تھے۔ اگلے روز اس یوٹرن کے حفاظتی پشتوں کی لمبائی کو ڈیڑھ سو فٹ کرنے کیلئے سڑک پر کٹائی اور کھدائی شروع ہو گئی۔ یہ کام دو تین روز میں مکمل ہو گیا اور اس منصوبے کے خالق نے اس یوٹرن کو ٹریفک انجینئرنگ کے حساب سے بے داغ اور آئیڈیل بنا دیا مگر ٹریفک قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھنے والوں نے ہر کاوش کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دیں۔
میں نے دوبارہ ایک وڈیو بنائی اور فرضِ کفایہ ادا کرتے ہوئے یہ وڈیو ایک بار پھر انہیں بھیج دی۔ انہوں نے اس یوٹرن پر ٹریفک وارڈنز کی ڈیوٹی لگوا دی۔ اتفاقاً میں وہاں سے گزرا تو چار عدد ٹریفک وارڈن اس 'محفوظ یوٹرن‘ کی حفاظت میں مصروف تھے۔ دو وارڈن ایک طرف اور دو وارڈن دوسری طرف کھڑے غلط سمت سے آنے والے موٹرسائیکلوں‘ رکشوں اور کاروں کو روکنے اور ان کے چالان کرنے کی سعی میں مصروف تھے۔ ایک وارڈن نے ایک موٹرسائیکل کو روکا تو اسی دوران تین چار موٹر سائیکل سوار اس وارڈن کو مصروف پا کر اس کے دائیں بائیں سے گزرے اور غلط سمت سے یوٹرن میں داخل ہو گئے۔ سڑک کے دوسری طرف کھڑا وارڈن‘ جو سڑک کی اُس جانب ایک موٹر سائیکل سوار کو پکڑے کھڑا تھا‘ ان غلط سمت سے داخل ہونے والوں کے لیے خارجی راستے کی طرف لپکا تو وہ موٹرسائیکل سوار جس کو اس نے پکڑ رکھا تھا‘ موقع پاکر دوسری الٹی سمت سے یوٹرن میں داخل ہوا اور یہ جا وہ جا۔
تماش بین قوم کے مزاج کے مطابق میں نے گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے ایک درخت کے سائے میں کھڑا ہو گیا۔ گول باغ سے جامعہ زکریا کی طرف جانے اور صرف ڈیڑھ سو میٹر دور موجود یوٹرن سے مڑنے کے بجائے لوگ ساٹھ ستر میٹر دور اس یوٹرن کی طرف لپکے چلے آ رہے تھے۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے اور بظاہر مہذب دکھائی دینے والے شکلاً معزز کاروں کے ڈرائیور بھی روکے جانے پر بحث کر رہے تھے کہ کہاں لکھا ہے کہ اس طرف آنا منع ہے؟ اور زیادہ معقول لوگ یہ بحث کر رہے تھے کہ اگر انہوں نے یہ ساٹھ ستر میٹر کا فاصلہ وَن وے کے خلاف طے کر بھی لیا ہے تو کون سی قیامت آ گئی ہے۔ اس سے کسی کا کیا بگڑ گیا ہے؟ ایسی ایسی تاویل‘ ایسی ایسی دھمکی‘ ایسی ایسی نامعقول توجیہہ کہ عقل مائوف ہو گئی۔ ہر بندہ وارڈنز سے جھگڑ رہا تھا مگر ان سب میں ایک چیز مشترک تھی کہ کسی کے چہرے پر شرمندگی کے آثار نہیں تھے۔
میں نے ملتان کی شکل بدلنے کا جذبہ رکھنے والے اُس افسر کو فون کیا اور ساری صورتحال بتائی اور کہا کہ میں نے آپ کو پہلے دن کہا تھا کہ یہ یوٹرن دو سروں کو Protection دینے سے زیادہ اپنی Protection کا متقاضی ہوگا اور اس کے صرف دو حل ہیں؛ پہلا یہ کہ اس یوٹرن میں خارجی راستے پر ٹائر پھاڑنے والا زمینی چھپکا (Tire Buster) لگا دیا جائے تاکہ ہمہ وقت کی کِل کِل سے جان چھوٹے یا پھر اس یوٹرن پر چالیس وارڈن مستقل کھڑے کردیے جائیں کہ یہ ایک دو دن کا معاملہ نہیں‘ سال کے تین سو پینسٹھ دن‘ صبح سے رات تک اس پر پہرہ دینا پڑے گا کہ یہ قوم اس سے کم پر کسی طور قانون شکنی سے باز نہیں آ سکتی۔
مجھے علم ہے کہ دیگر شہروں میں رہنے والے قارئین میرے ملتان کے بارے میں لکھے ہوئے اس کالم پر جزبز ہوں گے مگر میری گزارش ہے کہ وہ اپنے شہروں میں موجود یوٹرنز اور وَن وے سڑکوں پر عوام الناس کی حرکتیں دیکھیں گے تو انہیں لگے گا کہ یہ کالم ملتان پر نہیں‘ ان کے شہر کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں