"KMK" (space) message & send to 7575

موجیں لگی ہوئی ہیں

وہ زمانے تو خیر سے رخصت ہوئے جب حکمران‘ سیاستدان‘ سرکاری افسر اور ذمہ داران کالم یا کسی اور تحریر سے کسی غلطی کی نشاندہی یا کسی مسئلے پر کی جانے والی خامہ فرسائی پر کوئی ایکشن لیتے تھے‘ درستی کی کوشش کرتے تھے یا مسئلے کے حل کے لیے اپنے دفتر یا اختیارات کو استعمال کرتے تھے۔ اب معاملہ ٹھنڈ پروگرام کی حد تک بے حسی کا شکار ہے۔ پنجاب کی حد تک میں بطور کالم نویس یہ بات اپنے بہترین علم کے مطابق کہہ سکتا ہوں کہ لکھے پر ایکشن لینے کا آخری زمانہ میاں شہباز شریف کا 2008ء تا 2013ء والا وزارتِ اعلیٰ کا دور تھا۔ اس کے بعد حکمرانوں نے بشمول شہباز شریف‘ اس کام کو فضولیات میں شمار کرتے ہوئے کسی تعمیری تنقید یا واقعاتی کالم کو درخور اعتنا سمجھنا بند کر دیا۔ اس کے بعد تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔
غلطیاں اور خرابیاں اپنی جگہ لیکن پنجاب کی حد تک کسی زمانے میں چودھری پرویز الٰہی کی وزارتِ اعلیٰ کے دور تک سرکاری خرابی یا نظام میں رکاوٹ کی نشاندہی پر کوئی ہل جُل ہوتی تھی۔ چودھری پرویز الٰہی کو یہ کریڈٹ بہرحال ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے خود کو شیر شاہ سوری سمجھنے کے بجائے اپنی دماغی اور انتظامی صلاحیتوں کا حقیقت پسندی سے جائزہ لینے کے بعد اپنی وزارتِ اعلیٰ کو بہترین انداز میں چلانے کے لیے نہ صرف نہایت ہی اچھی شہرت کے حامل باصلاحیت اور کام کرنے والے بیورو کریٹس پر مشتمل ٹیم بنائی بلکہ انہیں کام کرنے کی پوری چھوٹ اور آزادی دے کر ان سے نتائج لینے کی پالیسی وضع کی۔ اس طرح انہوں نے ایک حساب سے اس بہت بڑے صوبے کو ممکنہ حد تک بہترین طریقے سے چلایا۔ ان کی سیاست‘ مقتدرہ سے گٹھ جوڑ اور جنرل پرویز مشرف جیسے آمر اور غاصب کو دس بار باوردی صدر بنانے جیسے ارادوں سے ہزار اختلاف کے باوجود یہ عاجز شرح صدر سے یہ سمجھتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے انہوں نے صوبہ بہت اچھے طریقے سے چلایا۔ ملتان کا مقیم ہونے کی حیثیت سے میں یہ بات بھی پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جنوبی پنجاب اور خصوصاً ملتان کی ترقی اور بہتری کا جتنا کام پرویز الٰہی کے دورِ اقتدار میں ہوا اس سے پہلے اہلِ ملتان کی قسمت میں نہ تھا۔ ڈینٹل کالج‘ برن یونٹ‘ کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ اور اسی قسم کے اور کئی پروجیکٹس چودھری پرویزالٰہی کے دور کے وہ کام ہیں جن سے نہ صرف ملتان اور جنوبی پنجاب بلکہ سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے جنوبی پنجاب سے متصل علاقوں کے عوام بھی بہرہ مند ہو رہے ہیں۔
جنرل ضیا الحق سے پرویز مشرف تک مقتدرہ کی محبت میں مبتلا چودھری خاندان نے اپنے اس گٹھ جوڑ سے کس طرح اقتدار کے مزے لوٹے اور کس طرح چودھری شجاعت حسین نے اس ملک کے سہ ماہی وزیراعظم کا درجہ حاصل کیا۔ ساری عمر فوائد حاصل کرنے کے بعد آنکھیں پھیر لینے پر کمپنی بہادر طوطا چشموں اور باغیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے اس کا مظاہرہ ساری قوم چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ ہونے والے سلوک کے ذریعے دیکھ چکی ہے۔ ساری عمر چُوری کھانے والے مجنوں بہرحال تا دیر بغاوت کا حوصلہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔ پرانی محبت اور تعلقات کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ باقی آپ لوگ ماشاء اللہ خود سمجھدار ہیں۔
میاں شہباز شریف نے بھی‘ بلکہ اس سے قبل میاں نواز شریف نے بھی بیورو کریسی میں سے منتخب اور چنیدہ لوگوں کے ذریعے حکومت چلانے کا ایسا تجربہ کیا جس نے بعد ازاں ان سرکاری افسران کو ریاست کے بجائے اپنے ذاتی وفاداروں پر مشتمل بٹالین میں بدل کر رکھ دیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سرکاری افسروں کی وفاداریاں ریاست اور حکومت کے ساتھ ہونے کے بجائے ایک سیاسی خاندان سے جڑ گئیں۔ سرکاری افسروں کی ایک پوری فوج ظفر موج ملک کے انتظامی منظر نامے پر چھا گئی۔ اس سارے عمل نے شریف خاندان کی حکومت چلانے میں تو بہت مدد کی مگر ملک کی اعلیٰ سرکاری مشینری کو ایک ایسے انتظامی سیٹ اَپ میں تبدیل کرکے رکھ دیا جس میں سرکاری افسر تنخواہ حکومت سے لیتا تھا مگر کام حکمران خاندان کے لیے کرتا تھا۔ اس سلسلے میں بعض ریٹائر ہو جانے والے بیورو کریٹس کو کنٹریکٹ پر ملازم رکھنے‘ بعد از ریٹائرمنٹ حکومتی عہدوں پر تعینات کرنے اور اپنے پیاروں کو سیاسی عہدوں پر باقاعدہ منتخب کروا کر اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔
میاں شہباز شریف جب چودھری پرویز الٰہی کے بعد دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے تو انہوں نے چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ کام کرنے والے بہت سے شاندار افسروں کو سرکاری افسر سمجھنے کے بجائے چودھری پرویز الٰہی کے وفادار سمجھتے ہوئے اپنی نیگٹو لسٹ میں ڈال کر کھڈے لائن لگا دیا۔ ان میں سے کئی افسران خلوص اور دیانتداری سے کام کرنے والے وہ لوگ تھے جو حکومت پاکستان کے ملازم تھے نہ کہ شریف خاندان یا چودھری فیملی کے وفادار۔ کم از کم دو تین نہایت ہی شاندار‘ محنتی اور قابل سرکاری افسر چودھری پرویز الٰہی کی بریکٹ میں آکر میاں شہباز شریف کی بے اعتنائی کا شکار رہے۔ بعد ازاں کسی سمجھدار نے انہیں قائل کیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اِن کے ساتھ بھی اسی خلوص اور دلجمعی سے کام کریں گے جس طرح انہوں نے پرویز الٰہی کے ساتھ کام کیا‘ یہ لوگ بطور سرکاری افسر آپ کے لیے بھی اتنے ہی فائدہ مند ثابت ہوں گے جتنے کہ چودھری پرویز الٰہی کے لیے تھے۔ میاں شہباز شریف کو یہ بات سمجھ آ گئی اور انہوں نے ان میں سے کئی لوگوں کو ناپسندیدہ لوگوں کی فہرست سے نکالتے ہوئے کھڈے لائن سے نکال کر دوبارہ انتظامی دھارے میں شامل کیا۔ ان میں سے کئی لوگ پھر ان کے پسندیدہ ٹھہرے اور ان کے قابلِ اعتماد لوگوں میں شمار ہوئے۔
ذاتی وفاداری کے اس معیار نے جہاں سرکاری افسروں کا سارا سیٹ اَپ برباد کر دیا وہیں ریاست کے انتظامی ڈھانچے کو بھی ملیا میٹ کرکے رکھ دیا۔ سرکاری افسروں کو علم ہو گیا کہ کی ترقی میاں صاحبان کے منظورِ نظر ہونے میں پوشیدہ ہے۔ اچھی پوسٹنگ‘ اختیارات‘ رعب دبدبہ اور دیگر بے تحاشا فوائد حکمرانوں کے ساتھ ذاتی وفاداری سے مشروط ہو گئے۔ اس سارے بندوبست میں اسلام آباد اور لاہور کی اقتدار کی گلیوں میں ذاتی وفادار سرکاری افسروں کی جتنی بڑی فوج میاں صاحبان نے تشکیل دی‘ اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی اپنی حد تک ایسے افسروں کی رجمنٹ بنانے کی کوشش تو کی مگر ان کو یہ کامیابی صرف سندھ کی حد تک حاصل ہو سکی۔ عمران خان کا پونے چار سالہ دور ٹرانسفروں اور پوسٹنگوں کا ایسا سیلاب تھا جس نے سرکاری افسروں کا میاں برادران کے دور کے موج میلوں کا غم تازہ کر دیا۔
صورتحال یہ ہے کہ مرکز اور پنجاب کی حد تک حکومتوں کو چار چھ پیارے اور سرکاری افسر چلا رہے ہیں‘ عام تام قسم کے عوامی نمائندے کی بے وقعتی کا یہ عالم ہے کہ اگر صوبے کی حکمران اس کا فون بھی سُن لیں تو اسے کئی رات خوشی سے نیند نہیں آتی۔ تاہم بیورو کریسی کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔ میں نے پوچھا: وہ کیسے؟ تو شاہ جی کہنے لگے: تم نے گزشتہ چند ماہ میں ملتان پولیس کی جانب سے سرکار کو سالانہ ساڑھے سولہ کروڑ کا چونا لگانے پر تین کالم لکھے ہیں تو اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ موجیں لگنا اور کیا ہوتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں