"KMK" (space) message & send to 7575

سڑکوں پر اچھے انسانوں کی امید

گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ اب حکمرانوں‘ افسروں اور کچھ کرنے پر قادر لوگوں نے کالم وغیرہ جیسی چیزوں کو وقت اور صلاحیتوں کا زیاں سمجھتے ہوئے پڑھنا اور ان پر ایکشن وغیرہ لینا ترک کر دیا ہے۔ ان کے کرنے کو اور بہت کام ہیں‘ جیسے اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل بنانا‘ طاقت سے لطف اندوز ہونا‘ قانون کو اپنا تابع کرنا اور اسی قسم کے دیگر کارآمد مشغلوں میں اپنی ذاتی صلاحیتوں اور سرکاری اختیارات کو استعمال کرنا۔ ایسے میں اگر کسی لکھے گئے کالم پر عملدرآمد سے‘ خواہ وہ اس لکھے گئے کالم پر ایکشن وغیرہ سے قطع نظر‘ محض اتفاق سے ہی کیوں نہ ہو رہا ہو‘ کالم لکھنے والے کو بہرحال یہ خوشی ضرور ہوتی ہے کہ اس کے نشاندہی کردہ معاملے پر کسی نے کوئی ایکشن تو لیا ہے۔ یہی حال اس وقت اس عاجز کا ہے۔
چند ماہ پیشتر میں دوپہر کو اس وقت جب سکولوں اور تعلیمی اداروں میں چھٹی ہوتی ہے‘ کینٹ کے ایک بوائز سرکاری سکول کے باہر بے ہنگم ٹریفک اور افراتفری کے مارے ہوئے لوگوں کے درمیان پھنسا ہوا تھا۔ اس دوران میں نے تنگ وپریشان ہونے‘ ہارن بجانے‘ جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہونے کے بجائے اپنے ہر طرف مچے ہوئے ''گھڑمس‘‘ میں اس بات پر غور کرنا شروع کر دیا کہ اس ہائی سکول سے کم عمر بچے دھڑ ادھڑ اپنی اپنی موٹر سائیکلوں پر سوار دروازے سے نکلتے آ رہے ہیں اور اس گھمسان کے پھنس پھنسا میں مزید ابتری پیدا کر رہے ہیں۔ اس سکول سے نکلنے والے موٹر سائیکل سوار طلبہ کی تعداد کسی طرح بھی بیسیوں سے کم نہیں تھی۔ میں نے سوچا کہ ان موٹر سائیکل سوار ڈرائیوروں کی عمر بھلا کیا ہو گی؟ ہائی سکول میں پڑھنے والے بچوں کی زیادہ سے زیادہ عمر کیا ہو سکتی ہے؟ آج کل بچے خاصی چھوٹی عمر میں ہی سکول بھیج دیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی بچہ چھ سال کی عمر میں بھی سکول داخل ہو اور ہمارے زمانے کے رواج کے مطابق ایک کلاس سے دوسری اور پھر تیسری میں ''ٹپے‘‘ نہ بھی مارے تو تقریباً سولہ سال یا حد سترہ سال کی عمر میں میٹرک پاس کر لے گا۔ اس حساب کو مدنظر رکھتے ہوئے ان بچوں کی عمر کی حد کا اندازہ لگائوں تو یہ سارے نہ سہی‘ مگر ان کی غالب تعداد یعنی نوے فیصد کے لگ بھگ اٹھارہ سال سے کم ہو گی۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اس سکول کے تقریباً نوے فیصد موٹر سائیکل چلانے والے بچے ابھی ڈرائیونگ لائسنس بنوانے اور قانونی طور پر ڈرائیورنگ کی عمر تک نہیں پہنچے۔ لازمی طور پر یہ سارے کم عمر بچے یعنی انڈر ایج ڈرائیور ہیں اور قانون اس کی کسی طور اجازت نہیں دیتا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ سکول میں بنے ہوئے سائیکل سٹینڈ‘ جن پر سائیکلیں تو اب برائے نام ہی دکھائی دیتی ہیں‘ ان موٹر سائیکلوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ان پر سکول آنیوالے بچے صرف نویں یا دسویں کلاس کے طالبعلم ہی نہیں بلکہ ان میں چھٹی‘ ساتویں اور آٹھویں کلاس تک کے بہت چھوٹی عمر کے بچے بھی شامل ہیں۔ کسی طالب علم نے ہیلمٹ نہیں پہنا ہوا تھا۔ ایک دو موٹر سائیکلوں کے فرنٹ پر لگے ہوئے حفاظتی جنگلے کے ساتھ ہیلمٹ لٹکے ہوئے تو ضرور دیکھے مگر کسی بھی بچے نے اسے سر پر نہیں رکھا ہوا تھا۔ یعنی ڈرائیور سارے کے سارے کم عمر تھے‘ کسی کے پاس ڈرائیونگ لائسنس موجود نہیں تھا اور کسی نے ہیلمٹ بھی نہیں پہنا ہوا تھا۔
میں نے اس ساری صورتحال پر ایک کالم لکھا جس میں اس خطرناک معاملے کی نشاندہی کرتے ہوئے والدین اور اساتذہ کی طرف سے آنکھیں بند کرنے اور ٹریفک پولیس ومعاشرے کی جانب سے مجرمانہ چشم پوشی پر ان سب کو اس سلسلے میں اپنا فرض ادا کرنے کی درخواست کی۔ والدین سے درخواست کی کہ وہ اپنے کم عمر بچوں کو محض اپنی سہولت کے لیے اپنی اور دوسروں کی جان سے کھیلنے کے لیے سڑکوں پر کھلا نہ چھوڑیں۔ اساتذہ اور خاص طور پر ہیڈ ماسٹر صاحبان سے عرضداری کی کہ وہ ان کم عمر بچوں کے سکولوں میں موٹر سائیکل لے کر آنے کی حوصلہ شکنی کریں اور ان کے موٹر سائیکلوں کے لیے سائیکل سٹینڈ کی سہولت کو منسوخ کرنے جیسے اقدام کریں۔ مجھے یقین تھا کہ میرے اس مؤقف کی بہت سے سمجھدار اور بچوں کی زندگی کی حقیقی فکر کرنے والے اصحاب حمایت کریں گے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی علم تھا کہ بہت سے جذباتی اور معاملات کو اس کی گہرائی کے بجائے سطحی طور پر اور نام نہاد انسانی ہمدردی کی عینک لگا کر دیکھنے والے لوگ میری اس تحریر سے اتفاق نہیں کریں گے۔ وہ ماں باپ کی مجبوریوں اور معاشرتی مسائل کو بنیاد بنا کر اس غیر قانونی اور جان لیوا معمول کے درجنوں جواز دیں گے اور ممکن ہے کہ مجھے بے رحم‘ ظالم اور انسان دشمن تک قرار دے دیں مگر کیا یہ مجبوریاں صرف ہم پاکستانیوں ہی کو لاحق ہیں؟ دنیا کے بیشتر والدین اور ان کے بچے اسی قسم کی صورتحال کا شکار ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سکول کی سرکاری ٹرانسپورٹ جیسی سہولت کے علاوہ دنیا کے بیشتر ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں سب والدین اسی مشکل صورتحال کا شکار ہیں مگر یہ مجبوریاں اور مشکلات بہرحال قانون سے بالاتر نہیں اور کم عمر ڈرائیونگ پر پابندی دنیا بھر میں سختی سے لاگو کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں کسی کو نہ تو کوئی معافی ہے اور نہ ہی رعایت۔ کم عمر کی ڈرائیونگ پر پابندی کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں اور وہ سارے کے سارے نہ صرف منطقی طور پر بلکہ انسانی‘ ذہنی وجسمانی ساخت اور اس کی حدود کو سامنے رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں بلکہ یہ ٹریفک کے ان چند عالمی قوانین میں شامل ہے جو دنیا بھر میں ایک دو سال کے فرق سے بہرحال لاگو ہیں۔
میں نے سکولوں سے نکلنے والے کم عمر موٹر سائیکل ڈرائیوروں کے بارے میں کالم لکھا اور یہ کالم بھی بہت سے کالموں کی طرح ردی کی نذر ہو گیا۔ لیکن چند دن ہوئے کمشنر ملتان نے اس سلسلے میں عملی پیشرفت کی تو مجھے یوں لگا جیسے شاید میرے کالم کا فالو اَپ ہے۔ ممکن ہے کہ یہ اسی کالم کا فالو اَپ ہو مگر اس سے غرض نہیں کہ یہ اس کالم کو سامنے رکھ کر اٹھایا گیا قدم ہے یا محض اتفاق‘ مگر خوشی تو اس بات کی ہے کہ چلیں کسی کو تو اس امر کا احساس ہوا۔ اس سلسلے میں اگر حاصل کردہ ڈیٹا پر نظر دوڑائیں تو بڑی سنگین صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ضلع ملتان کی چار تحصیلوں کے 460 سرکاری سکولوں سے حاصل کردہ اعداد وشمار کو دیکھیں تو علم ہوتا ہے کہ ان 460 سکولوں کے 10 ہزار 386 طلبہ موٹر سائیکلوں پر سکول آتے ہیں۔ ان میں سے 10 ہزار 154 طلبہ کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہی نہیں۔ یعنی دس ہزار تین سو چھیاسی موٹر سائیکل ڈرائیوروں میں صرف 232 ڈرائیور لائسنس رکھتے ہیں۔ یہ کل تعداد کا محض دو فیصد ہے۔ 10 ہزار 386 طلبہ میں سے صرف 2055 طلبہ ہیلمٹ پہنتے ہیں جبکہ اس تعداد سے چار گنا زیادہ طلبہ یعنی 8331 طلبہ سرے سے ہیلمٹ بھی نہیں پہنتے۔ یہ اعداد وشمار اس ساری صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کر رہے ہیں جو فی الوقت درپیش ہے۔ کمشنر نے اس سلسلے میں طلبہ کو ایک ہفتے میں ہیلمٹ لینے‘ تین ہفتوں میں ڈرائیورنگ لائسنس لینے اور ٹریفک قوانین کی آگاہی سے متعلق ہدایات جاری کرتے ہوئے سکول انتظامیہ کو طلبہ کے والدین سے رابطہ کرنے اور انہیں ان کے جگر گوشوں کی زندگی کو لاحق خطرات سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
میری خواہش ہے کہ اس ماڈل کا دائرہ ضلع ملتان سے پھیل کر ڈویژن‘ ڈویژن سے نکل کر صوبے اور پھر پورے پاکستان تک پھیلنا چاہیے اور اس مہم کے دوران طلبہ کو ڈرائیونگ لائسنس دیتے ہوئے انہیں ٹریفک کے عملی قوانین کے ساتھ ساتھ ٹریفک کی اخلاقی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کیا جائے تو ہمیں مستقبل میں سڑکوں پر بہتر ڈرائیوروں کے علاوہ بہتر انسان بھی دکھائی دیں گے۔ ضروری نہیں کہ بہتر ڈرائیور اچھا انسان بھی ہو‘ مگر اچھا انسان یقینا بہتر ڈرائیور ثابت ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں