مجھے یقین تو تھا کہ بھارت جس طرح ہوا میں اُڑ رہا ہے پاکستان پر محدود ہی سہی‘ مگر حملہ کیے بغیر باز نہیں آئے گا۔ دنیا کے تین مختلف کونوں میں مقیم میرے بچے اس سلسلے میں بڑے فکرمند تھے۔ میرے چاروں بچے دنیا کے مختلف اور ایک دوسرے سے بالکل اُلٹ ٹائم زونز میں مقیم ہونے کے باوجود دن میں دوبار لازمی ایک دوسرے سے گروپ کال کے ذریعے حال احوال بانٹتے ہیں۔ دو چار دن بعد میں بھی اس میں شامل ہو جاتا ہوں۔ وَٹس ایپ نے دنیا بھر میں بکھرے ہوئے لوگوں کے درمیان رابطے کی جو سہولت فراہم کی ہے وہ ایک دو عشرے قبل خواب تھی۔ بچوں کے نزدیک میں دنیا بھر کے حالات سے واقف واحد شخص ہوں جو اُن کی دسترس میں ہوں۔ میلبورن میں مقیم بیٹی سیاسی طور پر سب سے زیادہ باعلم اور متحرک ہے تاہم سوال پوچھنے اور گہرائی تک کریدنے میں اسد کا کوئی جواب نہیں۔ میرے بچوں کو یقین کامل ہے کہ میں حالات کا درست تجزیہ کرتا ہوں۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں‘ میں بھی ابا جی مرحوم کو بہت سے حوالوں سے حرفِ آخر سمجھتا تھا۔ حتیٰ کہ بچپن میں تو میرا خیال یہ بھی تھا کہ اگر ابا جی باکسر ہوتے تو وہ محمد علی کو بھی ہرا سکتے تھے۔ میرے بچے بھی میرے بارے میں کافی خوش گمان ہیں تاہم میں اس بات کو انجوائے کرتا ہوں کہ تاریخ بہرحال اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔
بھارت کی طرف سے کسی متوقع جارحیت کی یقین کی حد تک امید کے باوجود میں چھ اور سات مئی کی درمیانی شب حسبِ معمول گھوڑے بیچ کر سویا۔ اپنے معمول کے مطابق بچے رات کے اس پہر ایک دوسرے سے گروپ کال میں مصروف تھے جب سارہ نے انہیں بھارتی حملوں سے آگاہ کیا۔ مجھے تو اس سارے معاملے کا علم تب ہوا جب میں فجر کے بعد نیند کی دوسری شفٹ لگا کر صبح آٹھ بجے اٹھ کر ناشتہ بنانے کیلئے کچن میں گیا تو انعم نے مجھے پاکستان پر بھارتی حملے کا بتایا۔ سچ پوچھیں تو میں فکرمند ضرور ہوا مگر اس میں کسی ڈر‘ خوف یا گھبراہٹ کا شائبہ تک نہ تھا۔ میرے لیے یہ حملہ گو کہ غیر متوقع نہیں تھا اور مجھے یقین تھا کہ مودی کچھ کیے بغیر باز نہیں آئے گا تاہم اس طرح بہاولپور اور مریدکے میں شہری علاقوں پر میزائل استعمال کرنے کی توقع نہ تھی۔ مگر جنون کی کوئی حد نہیں‘ اگر مودی کچھ نہ کرتا تو خود بھارت میں اپنے حامیوں کی نظر میں گر جاتا۔ پاپولر لیڈرشپ کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ وہ اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کیلئے عوامی جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے غیر دانشمندانہ فیصلے کرتی ہے اور اپنے ساتھ ساتھ اور بہت سی چیزوں کا بیڑہ غرق کر دیتی ہے۔
سات مئی کا سارا دن ایک عجب کشمکش میں گزرا اور دل میں بہت سے ناقابلِ تحریر قسم کے اٹھنے والے خیالات نے دماغ خراب کیے رکھا۔ اس کے بعد جگہ جگہ خوف وہراس پھیلاتے ہوئے بھارت سے آنے والے اسرائیلی ساختہ ڈرونز اور ادھر سے صرف جواب دینے کے اعلانات نے اس کبیدگی میں مزید اضافہ کر دیا۔ اسد اور کومل کا تو بھارتیوں سے کوئی براہِ راست رابطہ نہیں لیکن سارہ اپنے دفتر میں کام کرنے والے درجن بھر بھارتیوں کی استہزایہ نظروں اور چبھتے ہوئے جملوں سے بڑی مایوس اور پریشان تھی۔ اس کی دلجوئی کرتے ہوئے میں اندر سے محسوس کرتا تھا کہ میں اس کو حوصلہ تو دے رہا ہوں مگر خود اندر سے بے یقین ہوں۔
اگلے روز ملک بھر میں مختلف شہروں میں اُڑتے اور گرتے ہوئے ڈرونز کا چرچا تھا۔ اس نئی ڈویلپمنٹ کا توڑ چھوٹے ہتھیاروں از قسم اینٹی ایئر کرافٹ گنز اور خودکار رائفلوں کا سنا تو الماری میں عرصے سے پڑی ہوئی ممنوعہ بور کی لائسنس یافتہ خودکار رائفل نکالی‘ اسے صاف کیا اور تیل لگایا اور گولیوں سے بھرے ہوئے دو میگزین سمیت اسے گاڑی میں رکھ لیا۔ خیال کیا کہ اگر کسی جگہ ملتان شہر میں کوئی آوارہ گرد ڈرون مل گیا تو عرصے سے متروک نشانہ بازی کا نئے سرے سے امتحان لوں گا۔ آٹھ اور نو مئی کا سارا دن بلاوجہ ملتان کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے گزار دیا۔ بھارتیوں نے ملتان کو اس سلسلے میں کوئی لفٹ نہ کروا کر اس فقیر کو کسی بھی آزمائش سے محروم رکھا۔
مجھے یقین تھا کہ مودی کی شکل میں بھارتی قیادت 2019ء کے مِس ایڈونچر کے بعد اس بار زیادہ تیاری اور زیادہ خطرناک عزائم کے ساتھ پاکستان پر حملہ آور ہوئی ہے اور وہ ابھینندن والی گزشتہ ہزیمت کو سامنے رکھتے ہوئے اس بار معاملہ شروع کرنے کے علاوہ پوری کوشش کریں گے کہ آخری تھپڑ بھی وہی لگائیں کہ عوام کی نظروں میں سرخرو ہونے کیلئے جنگ میں آخری ضرب لگانا ہی فتح تصور ہوتا ہے۔ لیکن شاید دنیا کو اندازہ ہو رہا تھا کہ اگر حالات مزید خرابی کی طرف گئے تو اس کا خمیازہ صرف پاکستان ہی نہیں‘ پوری دنیا بھگتے گی۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ مغرب کو ہماری فکر ہرگز نہیں ہے۔ مغرب کے نزدیک ہم لوگ وہ کیڑے مکوڑے ہیں جو اس دنیا میں محض مرنے کیلئے آئے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکہ محض چند گھنٹے پر مشتمل ہماری جوابی کارروائی سے گھبرا کر جنگ بند کرانے کیلئے میدان میں نہ کود پڑتا۔ وہی امریکہ جو اس معاملے میں چسکے لے رہا تھا اور ہم پر ہونے والے فضائی اور میزائل حملوں کے بعد اس کا صدر بڑے استہزایہ انداز میں اس صورتحال کو محض تماشائی کی حیثیت سے دیکھنے میں مصروف تھا‘ شتابی سے جنگ بندی کی تجویز اور بھاگ دوڑ میں مصروف نہ ہو جاتا۔ اگر ان نام نہاد مہذب ممالک کو کسی ایٹمی جنگ کے نتیجے میں ہونے والی اُس تباہی سے خوف نہ ہو جواُن کیلئے بھی بربادی کا پیغام لائے گی تو جس طرح وہ گزشتہ پانچ سو پچاسی دن سے غزہ میں ہونے والے انسانی المیے پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ اسرائیل کی دامے درمے قدمے سخنے مدد کر رہے ہیں محض چھ گھنٹے کی جوابی کارروائی پر اس طرح فوری ردِعمل نہ دیتے۔
ناسا میں بطور فزیکل سائنسدان برائے فضائی کرہ ہوائی لیوک اومان اور امریکی ماہر موسمیات ایلن روبوک کی تحقیق کے مطابق دنیا کی دو چھوٹی ایٹمی طاقتوں‘ پاکستان اور بھارت کے پاس ہیروشیما پر گرائے جانے والے بم کی طاقت کے چند سو ایٹم بم ہیں‘ ان ممالک کے جنرلوں نے کبھی یہ سوچنے کی تکلیف ہی نہیں کی کہ ان کے استعمال سے ''ہمارے‘‘ اوپر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ان امریکی محققین کے مطابق برصغیر میں ایٹم بم کے استعمال کے دو ہفتے بعد اس کا دھواں ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ دھویں کا یہ بادل تین سال تک فضا میں ٹھہرا رہے گا اور اس دوران بارشیں ختم ہو جائیں گی۔ پاکستان اور بھارت سے ہزاروں میل دور یورپ اور امریکہ میں بھی روشنی اور پانی کے ختم ہونے اور درجہ حرارت کے نقطہ انجماد تک گر جانے کے باعث ان کی زرعی پیداوار از قسم مکئی‘ گندم اور چاول کی فصل میں سالوں تک چالیس فیصد تک کمی آ جائے گی۔ اگر مزید زرعی پیداوار نہ ہوئی تو 'ہمارے‘ پاس صرف ساٹھ یوم کی خوراک ہو گی۔ اس جنگ کے نتیجے میں دنیا کے ایک سے دو ارب لوگ قحط سے مر جائیں گے۔ مکمل ایٹمی جنگ کی صورت میں درجہ حرارت آئس ایج والی صورتحال کا نقشہ پیش کرے گا۔ اس سے دنیا کی نوے فیصد آبادی بھوک سے مر جائے گی۔ اس میں ان ممالک کے لوگ بھی شامل ہوں گے جو ایٹمی طاقت نہیں ہیں اور وہ بھی جو اس جنگ کا حصہ نہیں ہوں گے۔ حتیٰ کہ اس جنگ سے دور دنیا کے دوسرے سرے پر واقع ممالک بھی متاثر ہوں گے۔ اس پوری تحقیق میں سب سے کم توجہ اس بات پر ہے کہ اس جنگ سے جنوبی ایشیا کے خطے کے کتنے لوگ جان سے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایٹمی جنگ کا خطرہ سر اٹھاتا ہے امریکہ ہماری محبت میں نہیں‘ اپنی وجہ سے اس جنگ کو رکوانے کیلئے کود پڑتا ہے۔ ہمارا ایٹم بم اللہ کی نعمت ہے بصورت دیگر ہمیں رگڑا لگانے کے لیے سارا عالم کفر یکجا ہے۔