"KMK" (space) message & send to 7575

چھ میدان‘ دو افواہیں اور ایک مشکوک خبر

حالیہ پاک بھارت معرکہ دنیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک ایسا مختصر اور فیصلہ کن معرکہ تھا جو حقیقت میں شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ پاکستان نے چھ سات گھنٹے پر مشتمل اپنی آپریشنل صلاحیتوں سے کم از کم چھ میدانوں میں اپنی برتری ثابت کر دی لیکن اس تفصیل میں جانے سے پہلے ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین روایتی عسکری توازن کے حوالے سے موازنہ کر لیا جائے‘ اس سے بہت سی باتوں کو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔
اس موازنے میں عسکری طاقت اور حربی اعداد وشمار سے پہلے دونوں ملکوں کا جغرافیائی اور اقتصادی موازنہ بتاتا ہے کہ پاکستان کی آبادی 25کروڑ جبکہ بھارت کی آبادی کم وبیش ایک ارب 46کروڑ ہے۔ رقبے کا موازنہ کریں تو بھارت رقبے کے اعتبار سے پاکستان سے چار گنا سے بھی زیادہ بڑا ہے۔ بھارت کا جی ڈی پی 4.27 ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ جبکہ پاکستان کا جی ڈی پی صرف 374 ارب ڈالر ہے۔ زرمبادلہ کا ذکر کریں تو یہاں بھی صورتحال بہت زیادہ غیر متوازن ہے۔ بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 688 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کے محض 15 ارب ڈالر ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سارے ڈالر بھی چین‘ سعودی عرب اور یو اے ای وغیرہ سے مانگ کر خزانے میں رکھی ہوئی رقم پر مشتمل ہیں۔ ان تمام حقائق کو سامنے رکھیں تو پاکستان کا بظاہر بھارت سے کسی قسم کا مقابلہ نہیں۔ مگر پاکستان مقابلے میں خم ٹھونک کر کھڑا ہے۔
دونوں ملکوں کی عسکری طاقت کا اندازہ یہیں سے لگا لیں کہ بھارت کا دفاعی بجٹ 86.1 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ 10.2 ارب ڈالر ہے‘ یعنی بھارت کا سالانہ دفاعی بجٹ پاکستان سے آٹھ گنا سے بھی زیادہ ہے۔ افواج کی تعداد کو گنیں تو بھارت کی فوج 15 لاکھ جبکہ پاکستان کی فوج 6 لاکھ 54 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ٹینکوں‘ جنگی جہازوں اور بحری طاقت کا موازنہ کیا جائے پاکستان اور بھارت کے مابین ایک اور دو سے بھی زیادہ کا فرق ہے۔ بھارت کے پاس دو عدد طیارہ بردار بحری جہاز ہیں‘ جبکہ پاکستان اس معاملے میں بالکل ہی تہی دست ہے۔ ہاں! صرف ایٹمی ہتھیار ہی وہ شعبہ ہے جس میں عددی لحاظ سے ہم بھارت کے ہم پایہ ہیں۔ ہمارے پاس غیر تصدیق شدہ معلومات کے مطابق 177 جبکہ بھارت کے پاس 180 وارہیڈز موجود ہیں۔ تاہم مختلف تحقیقی اداروں کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ایٹمی ہتھیار بھارت سے بدرجہا بہتر اور سمارٹ ہیں لیکن ظاہر ہے کہ یہ سب اندازے ہیں۔ کسی نے دونوں ممالک کے ایٹم بم چلا کر نہیں دیکھے۔
اس سارے بے جوڑ مقابلے کے باوجود ہم مقابلے پر ہیں اور اس بار تو ایسا مقابلہ کیا ہے کہ مودی کی بڑھکیں ایک طرف‘ اس کی ساری شوخی اور تکبر بھی ہوا ہو چکا ہے۔ پاکستان نے چھ سات گھنٹوں کے معرکے میں معاملات میں اپنی برتری ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں قائم بعض تصورات کو جوتے کی نوک سے ٹھوکر مارتے ہوئے پاس پاش کر دیا۔ پہلا یہ کہ رافیل ناقابلِ تسخیر ہے۔ دوسرا تصور یہ کہ روسی ساختہ میزائل دفاعی نظام S-400 سے بچ نکلنا ناممکن ہے۔ پاکستان نے بھارت کا یہ نظام تباہ کرکے اس کے اربوں ڈالر پر مشتمل پُرغرور نظام کا تصوراتی بت پاش پاش کر دیا ہے۔ تیسرا یہ کہ سات اور آٹھ مئی کو پاکستان کے شہروں میں اڑتے ہوئے درجنوں اسرائیلی ساختہ ہیروپ ڈرونز اور نہایت ہی جدید ہیرون ڈرون (بغیر پائلٹ طیارے) کو گرا کر اسرائیلی ٹیکنالوجی سے متعلق دنیا بھر میں قائم افسانوی تصور کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔
چوتھا یہ کہ بھارت کی دفاعی تنصیبات پر براہ راست پاکستانی حملوں نے بھارت کی یہ خوش فہمی بھی دور کر دی ہے کہ کسی بھی بھارتی فوجی کارروائی کے جواب میں پاکستان صرف دھمکیاں دے کر وقت گزار دے گا یا ایک آدھ حملہ آور جہاز کو گرا کر اپنی فیس سیونگ تک محدود رہے گا۔ درجن بھر بھارتی تنصیبات پر حملوں نے اس خوش فہمی کا بھی جنازہ نکال دیا کہ پاکستان بھرپور جوابی کارروائی کی ہمت نہیں کرے گا۔ جس پانچویں بھارتی تصور کو برباد کیا گیا ہے وہ بھی ناقابلِ تصور حد تک حیران کن ہے اور وہ یہ کہ دنیا بھر میں اپنی کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر مہارت‘ آئی ٹی کے شعبے میں بھارتیوں کی برتری‘ دنیا بھر کے سافٹ ویئر آپریٹنگ اداروں میں چھائے ہوئے بھارتیوں اور دنیا بھر کو آئی ٹی سروسز فراہم کرنے میں پہلے نمبر پر ہونے کے غرور کو جس طرح پاکستان کے نوجوانوں نے اس شعبے میں بھارت کو دھول چٹاتے ہوئے اس کے سارے نظام کو مسل کر رکھ دیا وہ شاید سب سے حیران کر دینے والی صلاحیت کا اظہار تھا۔ سائبر جنگ میں پاکستان نے بھارت کو ناک آئوٹ کرکے رکھ دیا۔ اس مختصر تاریخی معرکے میں چھٹا اور میرے حساب سے ایک اور اہم معاملہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ہونے والا مقابلہ تھا جس پر پاکستانی نوجوانوں نے نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ بھارت کو ہزیمت سے دوچار کیا۔
اس دوران افواہوں کا بازار بھی گرم رہا۔ کچھ افواہیں ایسی ہیں کہ اگر اہم حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا منطقی تجزیہ کریں تو کچھ گمشدہ کڑیاں ملتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ ایک عدد بھارتی خاتون پائلٹ کے ادھر اُدھر ہو جانے کا کافی شہرہ ہے۔ ایک ثقہ راوی کا کہنا ہے کہ ایک بڑے ملک کی گارنٹی پر یہ معاملہ پبلک نہیں کیا جا رہا اور اس ملک نے اس مال غنیمت کے تبادلے میں ہمارے ایک دو گمشدہ کیے گئے اہم لوگوں کی واپسی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ دوسری افواہ یہ ہے کہ مورخہ سات مئی کو فلائٹ ریڈار 24 نے مبینہ طور پر ایک عدد بیچ کرافٹ B350 AMS جس کا نمبر N111SZ تھا اسلام آباد راولپنڈی کے نزدیک پرواز کرتا ہوا دیکھا۔ یو ایس انرجی ڈیپارٹمنٹ کا یہ طیارہ مبینہ طور پر ایٹمی موجودات سے خارج ہونے والی تابکاری کے ذریعے ان کے ماخذ کا پتا چلانے‘ ان کے عرض بلد اور طول بلد کے ذریعے ان کے Coordinates کی فراہمی کا کام کرتا ہے۔ یہ امریکہ کے Aerial Measuring Systemکا حصہ ہے اور کسی ایٹمی ہنگامی حالت میں جوابی ردعمل کے لیے بندوبست کرنے کی اہلیت کا حامل ہے۔شوکت گجر سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگا: ہمیں افواہوں سے کوئی غرض نہیں۔ ہاں! البتہ اس خبر سے دل باغ باغ ہو گیا ہے کہ میاں نوازشریف جو بقول خواجہ آصف اس حد تک علیل تھے کہ پاک بھارت کشیدگی پر بولنا تو رہا ایک طرف وہ خواجہ آصف جیسے اپنے جگری دوست سے بھی بات کرنے کے قابل نہ تھے لیکن ایک اطلاع کے مطابق دس مئی کو پاکستان کی جوابی عسکری کارروائی کے روح رواں اور ماسٹر مائنڈ میاں نواز شریف ہی تھے۔ شوکت گجر کافی شر پسند ہے‘ یہ بات کرنے کے بعد کھچروں کی طرح ہنس کر کہنے لگا: تمہیں ایک اندر کی بات بتاؤں۔ میاں صاحب نے دراصل مودی سے اپنے پرانے دوستانہ تعلقات کی وجہ سے یہ بات چھپائی ہے ورنہ جس J10C نے PL-15 میزائل چلا کر بھارتی رافیل طیارہ مار گرایا تھا اسے وہ خود چلا رہے تھے۔
آپ خود بتائیں کہ اگر دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں فل ٹائم مصروفیت کے باوجود ہمارے محافظ جنگی حوالے سے اتنی شاندار کارکردگی دکھا سکتے ہیں تو صرف کام سے کام رکھیں تو کیا غضب ڈھا سکتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو یہ ملک عجب مجموعۂ حیرت اور اللہ کا معجزہ ہے۔ یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں