"KMK" (space) message & send to 7575

پانی ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے

اللہ تعالیٰ کسی کو کمینہ‘ سفلہ‘ گھٹیا‘ مکار اور کینہ پرور ہمسایہ نہ دے۔ بدقسمتی سے ہمیں جو ہمسایہ ملا ہے وہ اکیلا ہی درج بالا ساری خوبیوں کا حامل ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ آپ اپنے دوست اور دشمن تو بدل سکتے ہیں مگر اپنی مرضی سے اپنا ہمسایہ نہیں بدل سکتے۔ ہمارے ساتھ بھی یہی المیہ ہے کہ ہم اپنا ہمسایہ نہیں بدل سکتے۔ ویسے تو اور اطراف سے بھی ہمیں کوئی خاص ٹھنڈی ہوا نہیں آ رہی مگر بھارت کا معاملہ تو بالکل ہی الگ ہے۔
دنیا بھر میں صدیوں پرانی دشمنیوں اور جھگڑوں والے ممالک کے باہمی تعلقات میں آہستہ آہستہ بہتری اور وقت کیساتھ ساتھ دشمنی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں یورپی یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یورپی ملکوں کے درمیان کیا کچھ نہیں ہوا؟ دنیا میں جو جنگ وجدل یورپ کے ممالک کے درمیان ہوا ہے ہمارے ہاں تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوا۔ ایسی ایسی جنگیں کہ بندہ پریشان ہو جائے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں تو گزشتہ صدی کی بات ہیں‘ اس سے پہلے بھی یہ سارا خطہ کسی نہ کسی طور آپس میں جنگ وجدل اور قتل وغارت ہی میں مصروف رہا۔ سپین اور فرانس کے مابین سو سالہ جنگ تاریخ کا حصہ ہے‘ مگر اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے اور ماضی کے یہ سارے بدترین دشمن اب بہترین دوست اور شاندار ہمسائے ہیں۔ انہیں یہ ادراک ہو گیا تھا کہ ہمسائے تبدیل نہیں کیے جا سکتے‘ سو انہوں نے ہمسائیگی بہتر کر لی۔
اٹھہتر سال کسی معاملے کو حل کرنے کیلئے بہرحال کم نہیں ہوتے۔ ہندو بنیے نے گزشتہ اٹھہتر سال سے ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا قیام دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ جب وجود کو ہی دل سے تسلیم نہ کیا جائے تو پھر باہمی دوستی‘ خوشگوار تعلقات اور بھائی چارے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خاص طور پر جب اس تقسیم میں ڈنڈی ماری گئی ہو۔ آپ کی زندگی کا اہم ترین منبع اور سانس کی ڈوری کا ایک سرا اس گھٹیا دشمن کے ہاتھ میں پکڑا دیا گیا ہو اور وہ اسے مسلسل آپ کا گلا دبانے میں استعمال کر رہا ہو تو بھلا صلح اور امن کیسے ممکن ہے۔ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دینے کے پیچھے پاکستان کے پانی کا مخرج‘ کنٹرول اور منبع ہونا ہی ہے۔
پرانے بزرگ جب بنیے کی تنگ دلی‘ تعصب‘ مکاری اور طاقت ملنے پر بدترین ظالم ہونے کی باتیں کرتے تھے تو وہ نوجوان اور بچے جنہوں نے کبھی ہندو بنیے کا سلوک اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا‘ وہ ان باتوں کو افسانہ یا مبالغہ آرائی سے بھرپور کہانی سمجھتے تھے۔ ایک عرصے تک نوجوانوں کے نزدیک بھارت کا سارا تصور بالی وُڈ کی فلموں سے جڑا ہوا تھا حالانکہ ان فلموں میں بھی پاکستان سے نفرت پر مبنی موضوعات پر بنی ہوئی فلموں کی کمی نہ تھی۔ بہرحال زیادہ تر فلمیں گلیمر سے بھرپور ہوتی تھیں اور بھارت میں بسنے والے دیگر اقلیتی گروپوں سے محبت اور مہربانی کے جذبات سے بھری ہوتی تھیں لہٰذا نئی نسل کے لیے بھارت واقعتاً ایک سیکولر ملک تھا جہاں پر مختلف مذاہب‘ اقوام‘ رنگ اور زبان کے حامل لوگوں کو آزادی اور سہولت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے مواقع حاصل تھے۔ لیکن حقیقی صورتحال اس سے بالکل مختلف تھی۔ گاندھی اور اس کے بعد نہرو وغیرہ تک یہ منافقت بہرحال کسی نہ کسی طور پر چلتی رہی مگر اس کے بعد یہ منافقت بھرا ملمع اُترنا شروع ہو گیا۔ درمیان میں واجپائی وغیرہ نے بھی اپنے تئیں اردگرد اور اپنی اقلیتوں سے تعلقات کو قابلِ قبول حد تک نارمل رکھنے کی کوشش کی مگر بال ٹھاکرے وغیرہ کی علی الاعلان مسلم دشمنی کا بیانیہ نئے سرے سے طاقت پکڑتا گیا اور بالآخر بی جے پی کی حکومت میں مسلمانوں سے دشمنی‘ بھارت سے مسلمانوں کا مکمل خاتمہ اور مسلمانوں کو پھر سے ہندو بنانے کا تصور اس حد تک پختہ ہو گیا کہ وہ لوگ جو اس خطے میں دو قومی نظریے کو بعض متعصب مولویوں اور بنیاد پرستوں کی سوچ قرار دیتے تھے اب اس ساری صورتحال کو دیکھ کر از خود دو قومی نظریے کے قائل ہو رہے ہیں۔
ایمانداری کی بات ہے کہ میں اس سلسلے میں آنجہانی بال ٹھاکرے اور اس کے بعد نریندر مودی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہماری نئی نسل اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں پر قیام پاکستان کی اہمیت اور سچائی ثابت کر دی۔ اس سے پہلے یہ سب کچھ سیکولرازم کے نام نہاد پردے میں نہایت منافقت اور مکاری سے ہو رہا تھا لیکن بال ٹھاکرے نے اس ساری منافقت اور ریاکاری کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اپنا اصل چہرہ‘ اپنی سوچ‘ اپنے خیالات اور اپنے ارادوں کا برملا اظہار کرتے ہوئے مسلمانانِ ہند اور پاکستان کے بارے میں اپنے دل کی بات زبان اور اپنی زبان سے کہی بات پر عمل کرتے ہوئے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستان سے اپنی دشمنی اور اس کے خاتمے جیسے ممکنہ اقدامات کے ذریعے ہمارے لبرل اور نام نہاد وسیع القلب طبقے کو دو باتیں سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ اس خطے میں رہنے والے ہندو اور مسلمان دو بالکل الگ الگ قومیں ہیں اور مسلمان اقلیت کو بطور مسلمان اور پاکستان کو بطور ایک آزاد ریاست باقی رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ گزشتہ ایک ہزار سال کے دوران ہندوستان کے مسلم حاکم نہ صرف ان کے نزدیک غاصب تھے بلکہ قابلِ نفرت بھی۔ ہندوتوا کے پجاری اپنی گزشتہ ہزار سالہ تاریخ کو نہ صرف مٹانے پر تلے ہوئے ہیں بلکہ بدلنے پر بضد ہیں۔ تاریخ کو نہ تو بدلا جا سکتا ہے اور نہ ہی مٹایا جا سکتا ہے۔ ہاں البتہ! اس کے ساتھ رہتے ہوئے نئے راستے تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ ماضی کی تلخیوں کو حال کے پانی سے دھویا جا سکتا ہے اور آئندہ کیلئے ہمسائیگی کا نیا لائحہ عمل تیار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بھارت نہ تو پاکستان کی تخلیق بھول سکا ہے اور نہ ہی اپنی ہزار سالہ ہزیمت بھری تاریخ کو پس پشت ڈال کر آگے جانے کو تیار ہے۔ یہ سارا منظرنامہ اور تفصیل تو اس مائنڈ سیٹ کی تھی جسے لے کر موجودہ بھارتی حکمران اس خطے کی تاریخ اور جغرافیہ تبدیل کرنے کے چکر میں ہیں اور حالیہ بھارتی جارحیت اسی سوچ کی تکمیل کی طرف پیش قدمی تھی۔
حالیہ بھارتی حملے اس سلسلے کی آخری کڑی ہرگز نہیں۔ نہ تو بھارت کی سوچ تبدیل ہوئی ہے اور نہ ہی ارادے۔ ہمارے پاس پہلے ایک مسئلہ کشمیر تھا جبکہ اب ایک اور مسئلہ پیدا ہوا ہے اور وہ اس مسئلے سے اس لحاظ سے زیادہ سنگین ہے کہ وہ مسئلہ تو گزشتہ اٹھہتر سال سے لٹکا ہوا ہے اور ہم ابھی زندہ ہیں لیکن حالیہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کی آڑ میں پاکستان کے بچے کھچے دریائوں کا پانی روکنے کا اعلان ایسا شدید اور خوفناک ہے کہ اس پر عملدرآمد کی صورت میں پاکستان کی زرعی بقا چند مہینے بھی قائم نہیں رہ پائے گی۔ یہ صریحاً آبی دہشت گردی ہے اور بھارت اپنے تئیں پاکستان میں نام نہاد دہشت گردی کے اڈوں پر حملہ کرکے اس جواز کو اخلاقی حیثیت دے چکا ہے کہ دہشت گردی کے اڈوں پر حملہ کرکے ان کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
اگر سندھ طاس معاہدہ موجود ہے تو بھارت پاکستان کے بقیہ تین دریائوں کا پانی نہیں روک سکتا اور اگر یہ معاہدہ ختم ہو چکا ہے تو بھارت پاکستان کے کسی دریا کا بھی پانی نہیں روک سکتا۔ ایسی صورت نہیں ان دریائوں پر پہلے سے بنے ہوئے اور آئندہ بنائے جانے والے تمام بھارتی ڈیم آبی دہشت کے مراکز ہیں اور ان کو ختم کرنے کا ہر طریقہ کار جائز ہے۔ پانی ہماری زندگی ہے اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتا موت ہے۔ پیاسا رہ کر مرنے سے کہیں بہتر ہے کہ موت سے بے خوف ہو کر زندگی گزارنے کی سعی کی جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں