میری نسل نے دنیا کو جس طرح تبدیل ہوتے دیکھا ہے وہ تاریخِ انسانی نے اس سے قبل تو ہرگز نہیں دیکھا ہوگا۔ معاشرہ‘ رہن سہن‘ رسم ورواج‘ سائنسی ترقی اور سارا سوشل فیبرک اس طرح تبدیل ہوا ہے کہ کوئی چیز پہچاننے میں نہیں آ رہی۔ سب سے پہلے تو میری نسل کے لوگوں نے خود اپنے ساتھ ہونے والی جو تبدیلی دیکھی ہے وہ ایسی ہے کہ ہم سے قبل والی نسل نے اس کو دیکھنا تو کجا‘ اس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔
ہم لوگوں نے اپنی ابتدائی عمر اپنے ابا جی سے ڈانٹ ڈپٹ اور جوتے کھاتے گزار دی۔ ہمارے لیے بہرحال یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ اُس زمانے میں سب کے ساتھ یہی کچھ ہوتا تھا۔ ہمارے ساتھ یہ سلوک بھلا کون سی اچبنھے کی بات تھی۔ جو ہمارے ساتھ ہوتا تھا وہ سب کچھ ہمارے بزرگوں کے ساتھ بھی ہو چکا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گلی میں اگر کسی بزرگ نے جو بلحاظ عہدہ چچا کے مرتبے پر فائز ہوتا تھا‘ ہمیں کسی بھی بات پر خواہ وہ درست ہوتی یا غلط (اس کا فیصلہ ہمارے ہاتھ میں نہیں بلکہ چچا کے ہاتھ میں ہوتا تھا) ہمیں ڈانٹ سکتے تھے اور اگر ہم گھر جا کر کسی سے اس ڈانٹ کے بارے میں شکایت کرتے تو ہمیں الٹا مزید ڈانٹ پڑ جاتی تھی کہ تمہارا مطلب ہے کہ فلاں چچا غلط تھے؟ تمہیں جرا ٔت کیسے ہوئی کہ ان کو غلط کہہ رہے ہو‘ یقینا تمہاری ہی کوئی غلطی ہوگی جو تمہیں انہوں نے سمجھایا وگرنہ ان کا کوئی دماغ خراب تھا کہ تمہیں بلاوجہ ڈانٹتے؟
ڈانٹ ڈپٹ ہمارا مقدر تھی۔ والدین کی توجہ جسمانی صفائی کے ساتھ ساتھ طبیعت کی صفائی کی جانب بھی بدرجہ اتم تھی۔ طبیعت کی صفائی کیلئے سب سے مؤثر ڈٹرجنٹ پاؤڈر کا نام جوتا تھا۔ ڈانٹ پڑنے کی وجوہات کے بارے میں ہم کبھی نہ جان سکے کہ اس کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے۔ ابا جی مرحوم کسی بات کے بارے میں ہمارا مؤقف جاننے کیلئے خود ہی سوال کرتے اور ہماری جانب سے جاری کردہ بیانِ صفائی شروع ہوتے ہی ان کا پارہ عروج پر پہنچ جاتا۔ اب اس بات پر ڈانٹ پڑتی کہ شرمندہ ہونے کے بجائے آگے سے جواب دیتے ہو۔ ڈر کر خاموش ہو جاتے تو اس بات پر ڈانٹ پڑتی کہ اب بولتے ہوئے موت پڑ رہی ہے جو گونگے ہو کر کھڑے ہو۔ بندہ جائے تو جائے کہاں؟ بولیں تو شامت آ جاتی تھی اور اگر خاموش رہیں تو بھی ڈانٹ پھٹکار ہمارا مقدر ہوتی تھی۔ اب صورتحال کا یہ عالم ہے کہ کسی بچے کو نرم سی آواز میں باز پرس کرنے کی کوشش کریں تو بچوں کی والدہ بچوں کی نفسیات کے بارے میں لیکچر دینا شروع کر دیتی ہے۔ بچوں کی نفسیات اور ان کے لاشعور کے نازک پن کا یہ عالم ہے کہ ہمارے زمانے میں جوتوں کے استعمال کے باوجود صحیح سلامت رہنے والی چیز اب محض گھورنے سے مجروح ہو جاتی ہے۔
کیا زمانہ تھا کہ ماں جی مرحومہ ابا جی کے نام کا نہ صرف ہمہ وقت ڈراوا دیا کرتی تھیں بلکہ بسا اوقات اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ابا جی کو باقاعدہ ہماری شکایت لگا کر ہماری طبیعت کی کماحقہٗ صفائی کروانے کا فریضہ انجام دیتی تھیں۔ اب اپنے بچے کی شکایت اس کے باپ کو لگانا توکجا‘ اگر کوئی باپ سوموٹو کے تحت اپنے بچے کے خلاف کوئی معمولی سا ایکشن بھی لینا چاہے تو اکیلی ماں پر مشتمل فل بنچ اس پر سٹے آرڈر جاری کر دیتا ہے۔ ہم لوگ ابا جی سے ہونے والی تمام تر عزت افزائی کے باوجود اپنی عزتِ نفس‘ نفسیات اور لاشعور وغیرہ کی تباہی سے مکمل بے بہرہ رہے۔
ہمیں علم تھا کہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ دادا جی نے جو سلوک ابا جی سے کیا تھا اب وہ اس سلوک کو پوری دیانتداری سے ہمیں منتقل کر رہے ہیں۔ اور ابا جی پر ہی کیا موقوف‘ ہمیں خوب اندازہ تھا کہ دادا جی کے ساتھ یہی سلوک پڑدادا حضور نے کیا ہوگا۔ یہ ایک تسلسل ہے جو نہ صرف نسل در نسل جاری ہے بلکہ ان شاء اللہ جاری رہے گا‘ مگر ہماری سوچ بالکل باطل تھی۔ والدین کی طرف سے کیے جانے والے اس سلوک کی حقدار نسل کے ہم آخری چشم و چراغ تھے۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
ہمیں تسلی تھی کہ اگر ہماری زندگی کا پہلا نصف حصہ ابا جی کی ڈانٹ اور جوتے کھاتے گزر رہا ہے تو ان شاء اللہ ہم گزشتہ سات نسلوں سے جاری اس روایت کے امین ٹھہریں گے اور اپنی آخری آدھی زندگی ابا جی کی طرح اپنے اس قیمتی اثاثے کو نہایت ایمانداری اور انصاف کے ساتھ اپنی اگلی نسل کو منتقل کر دیں گے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
یہ تو صرف ایک تبدیلی کا ذکر تھا جو ہمارے ساتھ ہوئی۔ ہم سے پہلے والوں نے اپنی ابتدائی آدھی زندگی ڈانٹ ڈپٹ کھاتے اور بقیہ آدھی زندگی ڈانٹ ڈپٹ کرتے گزار دی۔ یوں حساب برابر اور چکتا کرکے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ہم اس بدقسمت نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو اس زمانے میں پیدا ہوئی جو مکمل Paradigm Shift کا دور تھا۔ ہماری ابتدائی آدھی زندگی ابا جی کی ڈانٹ کھاتے اور بقیہ آدھی زندگی بچوں کی باقاعدہ چاپلوسی کرنے اور انہیں خوش کرنے میں گزر رہی ہے۔ لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ یہ بچے اپنی ابتدائی آدھی زندگی چاپلوسی اور خدمت کراتے گزارنے کے بعد اس روایت کو آگے چلائیں گے اور اپنی بقیہ آدھی زندگی تاریخ کو دہراتے ہوئے گزار دیں گے۔ ان کا حساب بھی برابر ہو جائے گا۔ صرف ہم ہیں جو دو طرفہ گھاٹے میں زندگی بسر کرکے اس جہانِ فانی سے رخصت ہوں گے۔
ہم نے صرف یہی ایک تبدیلی نہیں دیکھی۔ فی سواری والے تانگے کے عامیانہ سفر سے لے کر سالم تانگے والے خاص سفر سے لطف اندوز ہوئے اور پھر اپنی آنکھوں کے سامنے ''کلّی سواری‘‘ جیسی آواز سے محروم ہوئے۔ تانگے کا کلچر اور یکے کی سواری ہمارے سامنے ہست سے عدم ہو گئی۔ مجھے یاد ہے کہ چوک شہیداں اور سٹی ریلوے سٹیشن کے درمیان واقع تیمور روڈ پر دادا جی مرحوم کی تین دکانیں تھی جو انہوں نے مختلف لوگوں کو اور ان کے عقب میں واقع ایک خاصی بڑی عمارت آئس کریم فیکٹری کو کرائے پر دے رکھی تھی۔ اس سے متصل ایک اصطبل تھا۔ یہ اصطبل احمدو کے دلال خانے کے نام سے مشہور تھا۔ ابا جی سے پوچھا کہ یہاں تو گھوڑے بندھے ہوتے ہیں اسے دلال خانہ کیوں کہتے ہیں؟ ابا جی نے بتایا کہ اس اصطبل میں کھڑے یہ تمام گھوڑے برائے فروخت ہیں اور تانگے والے یہاں آکر اپنی پسند کا گھوڑا خریدتے ہیں۔ احمدو اس کا مالک ہے اور وہ گھوڑوں کی اس خریدو فروخت میں ہر دو فریق کو اپنی خدمات بطور دلال پیش کرتا ہے اور فریقین سے اپنا معاوضہ بصورت کمیشن یا دلالی اور گھوڑے کھڑے کرنے کا کرایہ وصول کرتا ہے اس لیے یہ احمدو کے دلال خانے کے نام سے مشہور ہے۔
تب میرے میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں کے مرکزی دروازے کی دائیں طرف گھوڑوں کے پانی پینے کا چھوٹا سا حوض تھا جس کے ساتھ ہینڈ پمپ تھا۔ ہم آدھی چھٹی کے وقت گھوڑوں کو پانی پلانے کیلئے یہ نلکا چلا کر حوض میں پانی بھرا کرتے تھے۔ ہم اس کام کو احسان نہیں‘ ثواب سمجھ کر کیا کرتے تھے۔ نمک زمین پر گر جائے تو پریشان ہو کر اسے اٹھانے میں لگ جاتے تھے۔ ہمیں خوف ہوتا تھا کہ اگر اسے اب نہ اٹھایا تو روزِ قیامت اس نمک کو آنکھوں سے اٹھانا پڑے گا۔ کہانیوں کے شوقین ہونے کے باوجود دن کے وقت کہانی نہیں سنتے تھے کہ اس سے مسافر راستہ بھول جائیں گے۔ پھر دن کو کہانیاں سننے اور نمک گرنے پر ڈرنے والے بچے‘ تانگے اور گھوڑوں کو پانی پلانے والے حوض سب کچھ دیکھتے دیکھتے غائب ہو گئے۔ (جاری)