"KMK" (space) message & send to 7575

Paradigm Shift … (2)

پیراڈائم شفٹ کیلئے ریختہ ڈکشنری میں جو ترجمہ ہے وہ ''کایا پلٹ‘‘ ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ گزشتہ صدی کی پانچویں اور چھٹی دہائی میں پیدا ہونے والوں نے اس دنیا کی کایا پلٹتے دیکھی ہے۔ اپنے اردگرد کی ساری چیزیں ماحول‘ استعمال کے آلات‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی آمد اور معراج‘ صنعتی طریقہ کار میں تبدیلی‘ روز مرہ زندگی میں آمدہ سہولتیں اور بہت کچھ... لگتا ہے ہر چیز کو گویا پَر ہی لگ گئے ہیں۔
غالباً یہ 1968ء کی ایک صبح تھی جب میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں کی صبح اسمبلی میں تھری پیس سوٹ پہنے ایک اجنبی شخص ہیڈ ماسٹر صاحب کے ساتھ کھڑا تھا۔ سکول میں تمام ماسٹر صاحبان (ہمارے زمانے میں ٹیچر کو ماسٹر صاحب ہی کہا جاتا تھا) اور ہیڈ ماسٹر صاحب شلوار قمیص اور سردیوں میں اس پر حسبِ خواہش جرسی‘ واسکٹ یا کوٹ پہنتے تھے۔ اس قسم کا ولایتی لباس سکول کے سالانہ فنکشن میں صرف ڈپٹی کمشنر یا سکول انسپکٹر پہنتا تھا۔ ہمارا خیال تھا یہ کوئی سکولز انسپکٹر ہے جو بغیر اطلاع علی الصبح آ گیا وگرنہ اس کی آمد سے قبل ہمیں بتا دیا جاتا تھا۔ سکول کی خاص طور پر صفائی ہوتی تھی۔ بعض اوقات تو سکول کے مرکزی دروازے سے اندر تک راستے کے دونوں طرف چونے کی لکیر لگوائی جاتی تھی۔ ہوشیار بچوں کو متوقع سوالات کے پیش نظر رٹا لگوا کر آگے آگے بٹھایا جاتا تھا۔ کسی سوال ہونے کی صورت میں ماسٹر صاحب اس بچے کو جواب کیلئے کھڑا ہونے کا اشارہ کرتے تھے جس کے بارے میں انہیں پیشگی علم ہوتا کہ یہ بچہ درست جواب دے گا۔ مگر ہیڈ ماسٹر صاحب نے اس صبح ہمیں بتایا کہ یہ صاحب چوک شہیداں پر واقع ایک بینک کے منیجر ہیں اور یہ آپ کو کچھ بتانا چاہتے ہیں۔
ان صاحب نے نہایت آسان اور سلیس الفاظ میں بچت کے فوائد اور اس بچت شدہ رقم کو بحفاظت رکھنے کیلئے بینک کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ہمیں بتایا کہ انکے بینک نے سکول کے بچوں کیلئے ایک نئی قسم کے اکاؤنٹ کا اجرا کیا ہے‘ میں آپکو اپنے بینک کے اس اکاؤنٹ کا تعارف کرانے آیا ہوں۔ بچت کی عادت اوائل عمری میں ہی پڑ جائے تو ساری عمر کیلئے باعثِ سہولت رہتی ہے۔ اس شخص نے بتایا کہ بینک میں یہ اکاؤنٹ مبلغ پانچ روپے سے کھل جائے گا۔ میں نے گھر جا کر ابا جی سے فرمائش کی کہ میں نے بینک اکاؤنٹ کھلوانا ہے اور مجھے پانچ روپے چاہئیں۔ ابا جی نے فوری طور پر پانچ روپے ہمارے ہاتھ پکڑائے۔ اگلے روز آدھی چھٹی میں میں ماسٹر غلام حسین صاحب سے اجازت لے کر بینک چلا گیا۔کیا زمانہ تھا‘ بینک اکاؤنٹ اتنی آسانی سے کھل جائے گا آج اس کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ نہ شناختی کارڈ کا مطالبہ تھا نہ کسی تصدیق کی ضرورت۔ بینک منیجر نے ایک فارم منگوایا‘ رجسٹر کھولا‘ میرا نام‘ ولدیت اور گھر کا پتا پوچھ کر لکھا اور پھر مجھے دستخط کرنے اور انگوٹھا لگانے کا کہا۔ میں نے بڑے فخر سے چھوٹا k لکھ کر اسکے گرد ایک گول دائرہ لگایا اور نیچے لکیر کھینچ کر اپنی طرف سے انگریزی میں دستخط کیے۔ بینک منیجر نے اس دوران مجھے بوتل پلائی۔ ایک عدد چھوٹی سی بینک بک پر میرا نام اور جمع شدہ پانچ روپوں کا اندراج کرکے دس صفحات پر مشتمل ایک چیک بک مجھے پکڑائی اور ہاتھ ملا کر رخصت کر دیا۔
گزشتہ سال ملتان ٹی ہاؤس کا اکاؤنٹ کھلوانے کیلئے بینک گیا تو اکاؤنٹ کھولنے کے لوازمات و ضروریات کی فہرست دیکھ کر نانی یاد آ گئی۔ دس قسم کے کاغذات‘ آدھے درجن حلف نامے اور دستاویزات دینے کے بعد بھی کہا گیا کہ اب آپ انتظار کریں۔ پوچھا کہ اس سارے کھڑاک کی وجہ کیا ہے۔ بتایا گیا کہ ایف اے ٹی ایف کی ہدایات ہیں۔ ایف بی آر کی اپنی مجبوریاں ہیں اور خدا جانے کس کس ایجنسی اور ادارے کی پابندیاں ہیں۔ بینک ان ہدایات‘ پابندیوں اور احکامات کے آگے مجبور محض ہے۔ 1968ء میں بینک اکاؤنٹ کھولنا اتنا آسان تھا جیسے سکول میں آکر اپنا بستہ کھولنا۔ لیکن دوسری طرف اب اکاؤنٹ کھلنے کی تکلیف کے بعد بینکنگ اتنی آسان ہو گئی ہے کہ تصور محال ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے سے اپنے بینک اکاؤنٹ تک رسائی ہے اور صرف چند لمحوں میں آپ اپنی رقم جہاں چاہیں شفٹ کر سکتے ہیں‘ جس کو چاہیں ادائیگی کر سکتے ہیں۔ جب چاہیں اپنی بینک سٹیٹمنٹ خود نکال سکتے ہیں اور خدا جانے کیا کیا کر سکتے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تین عشرے قبل ہم نے اپنے ایک بہت سینئر بینکار دوست کو بتایا کہ اس طرح برطانیہ میں ہمارے دوست نے کسی اور بینک کا چیک کسی اور بینک سے فوری طور پر کیش کروا لیا تو وہ ہنس کر کہنے لگا کہ مجھے بیوقوف مت بنائیں‘ بھلا ایسا کیسے ممکن ہے؟ ہم جب تک چیک پر کیے گئے دستخطوں کو اسی بینک میں موجود کارڈ پر اکاؤنٹ ہولڈر کیلئے ہوئے Specimen دستخطوں سے ملا کر اصلی ہونے کی تصدیق نہ کر لیں‘ چیک کیش نہیں کرتے اور آپ بتا رہے کہ برانچ تو رہی ایک طرف‘ سرے سے بینک ہی دوسرا تھا اور چیک کیش کر دیا گیا۔ اس طرح تو بینک دیوالیہ ہو جائیں گے۔ آپ کسی اور کو بیوقوف بنائیں اور ذرا کم لمبی چھوڑیں۔ چار‘ چھ سال پہلے ان سے ملاقات ہوئی اور ان کو تیس‘ پینتیس سال پہلے والا مکالمہ سنا کر پوچھا کہ اب کیا کہیں گے؟ وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے: ایک تجربہ کار بینکار ہونے کے باوجود تب مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر اب ہم اس سے بھی کہیں آگے جا چکے ہیں۔ ایک چھوٹی سی مشین دنیا کے ہر کونے میں آپ کو کیش فراہم کرنے کیلئے مستعد کھڑی ہے اور ایک دوسری مشین آپ کی رقم وصول کر کے آپکے اکاؤنٹ میں جمع کر رہی ہے۔ بس آپ یہ سوچیں کہ کیا کِیا جا سکتا ہے اور وہ حقیقت میں ہو رہا ہے۔
جب ہم نے گھر میں پی ٹی سی ایل‘ جو تب صرف ٹی اینڈ ٹی ہوتا تھا‘ کا فون کنکشن لگوانا تھا تو ہماری درخواست کئی سال تک انتظار کی چوکھٹ پر منتظر رہنے کے بعد شرفِ باریابی حاصل کر پائی۔ دوسرے شہر میں بات کرنے کیلئے ٹرنک کال بک کرائی جاتی تھی اور گھنٹوں ٹیلی فون کے سرہانے بیٹھ کر کال ملنے کا انتظار کیا جاتا تھا۔ اب گدھا گاڑی والا دورانِ ڈرائیونگ ایک ہاتھ سے گدھے کا 'سٹیئرنگ‘ اور دوسرے ہاتھ میں موبائل پکڑے اپنے ٹرانسپورٹ کے بزنس کے معاملات چلاتا ہوا ساتھ سے گزرتا ہے تو وہ زمانہ یاد آ جاتا ہے جب ہم ڈائریکٹ لاہور بات کرنے کیلئے ڈیرہ اڈا ٹیلی فون ایکسچینج جاتے تھے۔ آج یہ سہولت سڑک کے کنارے پر دھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے کاؤنٹروں پر ملنے والے موبائل سم کارڈز کی بدولت مفت اور فوری دستیاب ہے۔
میں سال‘ سنہ اور تاریخ کے معاملے میں خاصا بھلکڑ ہوں تاہم واقعات ضرور یاد رہ جاتے ہیں۔ یہ غالباً 1967ء یا 1968ء کی بات ہے کہ ملتان میں قلعہ کہنہ قاسم باغ کی جنوبی سمت خالی جگہ پر جشنِ ملتان کا اہتمام کیا گیا‘ وہاں بنائے گئے ایک عارضی کمرے میں‘ جس کے سامنے شیشہ لگا ہوا تھا‘ ثریا ملتانیکر گانا گا رہی تھیں۔ اس کمرے سے پچاس فٹ کے فاصلے پر ایک ستون کے اوپر ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پڑا تھا جو سامنے والے کمرے میں گائے جانے والے گانے کی بمعہ گلوکار تصویری نشریات دکھا رہا تھا۔ بلیک اینڈ وائٹ نشریات کے معیار کا یہ عالم تھا کہ سکرین پر گویا ہزاروں مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ ہم پھر بھی حیران تھے کہ یہ کیا جادو ہے کہ ایک ڈبہ سامنے والے کمرے میں گانا گاتی ہوئی ثریا ملتانیکر کی آواز اور تصویر ہمیں دکھا رہا ہے۔ آج ہم ہزاروں میل دور اپنے بچوں‘ دوستوں اور عزیزوں سے جب چاہیں ایک ٹچ کے ذریعے تصویری رابطہ کر سکتے ہیں۔ 1968ء والے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر آنے والی تصویر کے برعکس اس رنگین تصویری گفتگو کے دوران وہ مکھیاں بھی نہیں بھنبھناتیں جو کبھی ہمارے قومی نشریاتی رابطے کی پکی نشانی ہوتی تھیں۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں