"KMK" (space) message & send to 7575

ساکھ کا موازنہ

اسے بہرحال جنگ تو نہیں کہا جا سکتا تاہم محض چند گھنٹے پر مشتمل اس معرکے نے وہ کر دکھایا جو پوری پوری جنگ لڑ کر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس معرکے نے جہاں ہمیں سرخرو اور سر بلند کیا ہے‘ وہیں چینی ٹیکنالوجی کو جس قدر اعتبار بخشا ہے اس کا اندازہ ہمیں ہو یا نہ ہو مگر خود چین کو اس کا جس قدر اندازہ اور فائدہ ہوا ہے وہ ناقابلِ تصور ہے۔ اس مختصر سے معرکے نے دنیا بھر میں ہمارا عشروں سے محض منگتا ہونے کا تاثر جس طرح زائل کرتے ہوئے اپنے دوستوں میں دوبارہ سے قابلِ عزت اور محترم بنانے میں حصہ ڈالا ہے اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی پاکستانی کمیونٹی جس طرح تفاخر اور فتح مندی کے احساس کے ساتھ سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہوئی ہے وہ اس معرکے کی دین ہے۔
چین کی محیر العقول ترقی‘ تعمیراتی شعبے میں جادوئی کارکردگی اور پیداواری شعبے میں حیران کن صلاحیتوں کے مظاہرے کے باوجود ہائی ٹیک میدان میں چینی مصنوعات اور خصوصاً حربی آلات کے متعلق دنیا بھر میں جو بے یقینی‘ بے اعتباری اور شکوک و شبہات تھے انہیں دور کرنے کیلئے تین عدد رافیل‘ ایک عدد مگ 29‘ ایک عدد سخوئی اور ایک عدد میراج جنگی جہاز کے علاوہ روس کے فضائی دفاعی نظام S-400 اور اسرائیلی ڈرونز کی بڑی تعداد نے قربانی دی ہے۔ ہماری مہارت نے بھارتی‘ فرانسیسی‘ روسی اور اسرائیلی ٹیکنالوجی کی عزت کی قیمت پر چینی ٹیکنالوجی کو دنیا بھر میں معتبر بنایا ہے۔
دور کیا جائیں! ہم خود ایک عرصے سے یہی سنتے آ رہے ہیں کہ چینی مصنوعات کی شکل وصورت پر نہ جائیں کہ یہ بالکل بھی پائیدار نہیں ہوتیں۔ ایک لطیفہ ہے کہ ایک صاحب نے ایک چینی خاتون سے شادی کر لی۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ وہ خاتون شادی کے دو سال بعد ہی اللہ کو پیاری ہو گئی۔ غم اور صدمے سے چُور شوہر اپنی بیوی کی جدائی میں نڈھال تھا۔ ایک دوست نے پُرسا دیتے ہوئے کہا کہ بھائی اتنا غمگین ہونے کی ضرورت نہیں‘ تمہیں تو خود علم ہے کہ چینی مال بس اتنی دیر ہی چلتا ہے۔ یہ تو ایک لطیفہ ہے مگر ہمارے ہاں یہ بات زبان زدعام تھی کہ چینی مصنوعات دیرپا نہیں ہوتیں۔
ویسے تو اس حقیقت کے پیچھے بھی ہماری ہی دو نمبری کارفرما تھی کہ چینی صناع آپ کو آپ کی حسبِ منشا قیمت پر چیز بنا کر دینے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جب آپ سو روپے والی چیز تیس چالیس بلکہ بیس روپے میں بنوائیں گے تو اس کا معیار بھی اسی تناسب سے گرا ہوا ہوگا۔ ظاہر ہے جتنا گڑ ڈالا جائے مٹھاس بھی اسی قدر ہوتی ہے۔ کسی چیز کی نقل بنواتے ہوئے جب آپ مال بنانے والے کو کسی چیز کا مثنیٰ اپنانے کا کہیں اور اسے اصل شے کی لاگت سے بیس پچیس فیصد میں تیار کرنے کا کہیں تو ظاہر ہے وہ نقل شکل وصورت میں تو بے شک اصل جیسی ہو گی مگر اس کا معیار‘ مضبوطی‘ کارکردگی اور پائیداری بہرحال کمتر درجے کی ہو گی۔ ایسی صورت میں گو قصور بنانے والے سے زیادہ بنوانے والے کا ہے۔ تاہم بنانے والے کی شہرت اور ساکھ بھی بہرحال اس سے متاثر ہوتی ہے۔ کم از کم ہمارے ہاں چینی مصنوعات کے بارے میں جو تصور تھا وہ تو اسی بنیاد پر تھا کہ ہمارے تاجر حضرات زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے چکر میں چینی مصنوعات بنانے والوں سے کمتر درجے کی سستی اشیا خرید کر جہاں اپنی جیبیں بھرتے تھے وہیں چینی مصنوعات کے معیار کے بارے میں جو تصور قائم ہوتا تھا وہ اپنی جگہ پر غلط نہیں تھا۔
ہمارے علاوہ مغرب میں بھی لوگ چینی مصنوعات کو سستا اور دو نمبر سمجھتے تھے۔ چین میں بننے والی بہت ساری امریکی مصنوعات پر لکھا ہوتا ہے: میڈان یو ایس اے اسیمبلڈ اِن چائنہ‘ یعنی یہ بنی ہوئی تو امریکہ کی ہے مگر اس کو جوڑا چین میں گیا ہے۔ اس سے یہ تاثر دینا مقصود ہوتا تھا کہ اس چیز کی ٹیکنالوجی مغربی ہے اور امریکہ میں بنے ہوئے اس کے پرزوں کو چین کی سستی لیبر نے صرف جوڑنے کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔ ایک عرصے تک چینی کاروں کے بارے میں لوگ منتظر رہے کہ مارکیٹ میں دو چار سال چلنے کے بعد ان کے معیار کا تعین کیا جائے اور خریدنے کا فیصلہ ہوگا۔ رہ گئی بات ہوائی جہازوں اور دیگر ہائی ٹیک مصنوعات کی تو ابھی دنیا بھر میں یورپ‘ امریکہ اور کینیڈا وغیرہ جیسے ممالک کی ہوائی کمپنیوں کے جہاز ہی اعتبار اور بھروسے کے قابل سمجھے جاتے تھے۔ بوئنگ‘ لاک ہیڈ مارٹن‘ ایمبراٹر‘ بمبارڈیئر‘ بیچ کرافٹ اور رولس رائس وغیرہ سب مغربی کمپنیاں ہیں جن کے جہاز اور ان کے انجن قابلِ بھروسہ سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے میں چینی جنگی ہوائی جہاز بہرحال اس فہرست میں نہیں آتے تھے جس میں امریکی ساختہ لاک ہیڈ مارٹن F-35 لائٹننگ‘ F-22 ریپٹر‘ فرانسی ساختہ رافیل‘ امریکی F-16 فائٹنگ فالکن‘ روسی سخوئی SU-27‘ سخوئی SU-57 اور فرانسیسی میراج طیارے آتے تھے۔ گو کہ اس فہرست میں چینی ساختہ چنیگڈو J-20 مائٹی ڈریگن‘ شینیانگ J-35 اور چینگڈو J-10 بھی آتے تھے مگر ان جنگی جہازوں کے مارکیٹ میں خریدار نہ ہونے کے برابر تھے کہ ان جہازوں نے ابھی اپنی کارکردگی میدانِ کارزار میں نہیں دکھائی تھی۔ یہ کمی اس مختصر سے معرکے نے پوری کر دی جس میں چینی ساختہ جنگی جہاز J-10 اور JF-17 تھنڈر‘ ہوا سے ہوا میں مار کرنے والے PL-15 میزائل‘ سیٹلائٹ کے مواصلاتی نظام اور چینی ساختہ ریڈار سسٹم نے ایک ہی ہلّے میں ناقابلِ شکست ہونے کے شہرت یافتہ فرانسیسی ساختہ رافیل جہاز‘ نشانہ خطا ہونے سے ماورا میٹیور میزائل‘ روسی تعاون سے بھارت میں تیار ہونے والے براہموس سپرسانک میزائل‘ روسی ساختہ عالمی شہرت کے حامل دفاعی نظام S-400 اور اسرائیلی ساختہ ٹیکنالوجی کو تباہ کرکے جہاں مغربی بلاک کی حربی برتری کو خوار وخستہ کیا ہے وہیں اپنے ہائی ٹیک معیار کا سکہ بھی جما لیا ہے۔
چند روز قبل دوستوں کی ایک محفل میں ایک دوست کہہ رہا تھا کہ ہم پاکستانی اپنی صلاحیتوں‘ خوبیوں اور کامیابیوں کو بروقت اور موقع کی مناسبت سے استعمال کرنے میں ناکام ترین لوگ ہیں۔ ہمیں اپنی خوبی‘ صلاحیت اور کامیابی بھی مارکیٹ میں فروخت کرنی نہیں آتی۔ اب پاکستان نے جس طرح دنیا بھر میں چینی جہازوں اور میزائلوں کی مارکیٹنگ کی ہے اور ان چینی مصنوعات کے قابلِ بھروسہ ہونے کا عملی مظاہرہ کرکے جس طرح ان کی ساکھ بنائی ہے پاکستان کو چاہیے کہ عالمی منڈی میں ان مصنوعات از قسم جے ایف 17 تھنڈر‘ جے 10 اور PL-15 وغیرہ کی فروخت پر چین سے مارکیٹنگ کی مد میں دس پندرہ فیصد کمیشن اور اپنی خرید پر پچاس فیصد رعایت طلب کرے۔ کیونکہ اس جنگ میں ہمیں کم ہی سہی مگر بہرحال نقصان تو ہوا ہے‘ یہ نقصان جانی بھی ہے اور مالی بھی جبکہ چین کو صرف اور صرف نفع ہوا ہے۔
نفع کا ذکر چلا تو شاہ جی فرمانے لگے کہ اس معرکے نے پاکستانیوں کے سر بلند کر دیے ہیں اور خاص طور پر بیرونِ پاکستان رہنے والے پاکستانیوں کو جو اپنے ارد گرد رہنے والے بھارتیوں کی ایک عرصے سے چبھتی ہوئی نظروں اور طنزیہ جملوں کا سامنا کر رہے تھے‘ نہ صرف سکون کا سانس لینے کا موقع ملا ہے بلکہ اب وہ انہیں چبھتی نظروں اور طنز کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کرکٹ میچوں سے لے کر پاکستان کی اقتصادی حالت زار کو بنیاد بنا کر مسلسل پاکستانیوں کو شرمندہ کرنے والے بھارتی اب خود شرمندہ ہیں اور پاکستانی فخر و انبساط سے سینہ پھلائے پھر رہے ہیں۔ یہ ساری باتیں ایک طرف تاہم اس معرکے کے نتیجے میں ساکھ کے اعتبار سے خسارے میں جانے والوں کی فہرست نسبتاً طویل ہے۔ اس میں بھارت‘ فرانس‘ روس اور اسرائیل شامل ہیں جبکہ ساکھ میں بہتری والوں کی فہرست میں صرف دو نام ہیں ایک چین کا اور دوسرا نام لینے کی فی الوقت ضرورت ہی نہیں۔ پاکستان کی ساری سڑکیں اس حوالے سے تہنیتی پوسٹروں‘ بینروں اور پینا فلیکسوں سے بھری پڑی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں