میرا دن کا بیشتر حصہ نہ سہی مگر بڑا حصہ سڑک پر گزرتا ہے۔ اور صرف میرا ہی کیا‘ ہم سب کا پالا بہرحال سڑک اور ٹریفک سے پڑتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم دن بھر میں جن چیزوں سے تنگ و پریشان اور خوار و خستہ ہوتے ہیں ان میں سے سب سے بڑا حصہ ٹریفک کی مشکلات پر مبنی ہے۔ گھر سے نکلے بغیر چارہ نہیں اور سڑک پر گئے بغیر گزارہ نہیں۔ بندہ جائے تو جائے کہاں؟
ٹریفک پولیس معاملات کو سدھارنے کے بجائے ناکے لگانے میں‘ دیہاتی قسم کے موٹر سائیکل سواروں کو گھیرنے اور لفٹر سے گاڑیاں اٹھا کر جرمانے کرنے میں مصروف ہے۔ اگر کسی چوک پر تین چار ٹریفک وارڈنز ہوں تو وہ آپس میں گپیں لگاتے ہیں اور اگر اکیلا ہو تو ٹریفک کو دیکھنے کے بجائے اپنے موبائل فون کی سکرین پر نظریں جمائے دنیا وما فیھا سے بے خبر دکھائی دیتا ہے۔ دو دن پہلے گلگشت گول باغ سے بوسن روڈ کی طرف آ رہا تھا کہ سامنے سے ایک کار وَن وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آ رہی تھی۔ سڑک پر غلط سمت سے آنے والوں کو روکنے کی غرض سے سٹیل پائپ سے بنا ہوا عارضی بیریئر بھی رکھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ایک عدد ٹریفک وارڈن لِمکا پیتے ہوئے موبائل فون پر کوئی نہایت ہی اہم کام کرنے میں مصروف تھا۔ میں نے گاڑی اس کے پاس روکی اور کہا کہ وہ یہاں لِمکا پینے اور فون پر گیم کھیلنے کے بجائے ٹریفک کو درست رکھنے‘ خلاف ورزی کرنے والوں کو روکنے اور ان کے خلاف ٹریفک قوانین کے مطابق کارروائی کرنے کا فریضہ سرانجام دے تو بہتر ہے۔ وارڈن نے میری گستاخی پر مجھے کھا جانے والوں کی نظروں سے دیکھا‘ تاہم اس نے مجھے کچھ کہنے کے بجائے دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ میں نے اسے دوبارہ مخاطب کرتے ہوئے کہا: بھائی جان میں نے آپ سے کچھ کہا ہے۔ اس بار اس نے میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے الٹا مجھ پر ملبہ ڈالتے ہوئے کہا کہ آپ کی وجہ سے پیچھے ٹریفک رک گئی ہے اور میرا جواب سنے بغیر بیریئر کی دوسری طرف چلا گیا۔ اس نے وہاں سے کھسک کر کسی قسم کے جوابدہی کے امکان کا ٹنٹنا ہی ختم کر دیا۔
اب تو یہ لکھتے ہوئے بھی خود شرمندگی ہونے لگتی ہے کہ اس ملک میں ون وے کی خلاف ورزی‘ ٹریفک اشاروں کو توڑنا‘ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے موبائل فون پر مسیج کرنا اور فون ڈائل کرنا معمول کی بات بن چکی ہے۔ پچیس تیس فیصد ڈرائیور خواہ وہ موٹرسائیکل چلا رہے ہوں یا گاڑی ڈرائیو کر رہے ہوں‘ موبائل فون سننے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ موٹر سائیکل والوں کی گردنیں کندھے اور کان کے درمیان مسلسل موبائل فون پھنسائے رکھنے کی وجہ سے باقاعدہ ٹیڑھی ہو چکی ہیں۔ چند سال پہلے تک ٹریفک وارڈنز دورانِ ڈرائیونگ موبائل فون سننے والوں کو روکتے بھی تھے اور جرمانہ بھی کرتے تھے مگر اب انہیں خود موبائل فون کی ایسی لت پڑ چکی ہے کہ ایسی حرکت کرنے والا ڈرائیور انہیں اپنا پیر بھائی لگتا ہے اور آپ بتائیں بھلا پیر بھائی کا چالان کرنا کوئی انسانیت ہے؟
ملتان جیسے بڑے شہر میں میری معلومات کے مطابق صرف تین عدد ٹریفک سگنل چل رہے ہیں‘ یا چل رہے ہوتے ہیں۔ ایک بالکل نیا اور جدید قسم کا ٹریفک سگنل عیدگاہ چوک پر لگایا گیا ہے جو فی الحال مکمل طور پر فعال ہے۔ دوسرا اشارہ ایئر پورٹ کے رن وے کی جنوبی سمت پر واقع چوک پر جس میں ایک ستون پر شاہین لگا ہوا ہے تاہم شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے سربلندی اور خودداری کی علامت شاہین کو یار لوگوں نے لیاری کراچی میں اس کے بلند مرتبے سے گراتے ہوئے جس طرح چیل جیسے خود داری سے عاری پرندہ بناتے ہوئے اس چوک کو چیل چوک مشہور کیا اس کے بعد پورے ملک نے دیکھا دیکھی شاہین لگے ہر چوک کو چیل چوک لکھنا اور پکارنا شروع کر دیا ہے۔ یہ چوک بھی اسی اعلیٰ روایت کے تحت چیل چوک کہلاتا ہے۔ تیسرا اشارہ ملتان کینٹ کی حدود میں المعروف چار گھوڑا چوک پر لگا ہوا ہے۔ اگر میں ملتان میں ہوں تو اس چوک سے ہر روز بلاناغہ دوبار گزرتا ہوں۔
یہ چوک ملتان شہر سے کوئٹہ یا ڈیرہ غازی خان‘ مظفر گڑھ اور سندھ کی جانب والے قدیمی راستے پر واقع ہے۔ پہلے یہ سڑک ایل ایم کیو روڈ یعنی لاہور‘ ملتان‘ کوئٹہ روڈ کہلاتی تھی۔ آپ اس تفصیل سے اس سڑک کی اہمیت‘ مصروفیت اور مرکزیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس چوک پر لگے ہوئے اشاروں کے ساتھ ڈیجیٹل کلاک بھی لگا ہوا ہے جو بند اور کھلے اشارے کا وقت بتاتا رہتا ہے۔ جب اشارہ سرخ ہوتا ہے تو اس کلاک پر وقت بیاسی سیکنڈ آ جاتا ہے۔ یعنی یہ اشارہ بند ہو جائے تو ٹریفک کو اس چوک پر ایک منٹ اور بائیس سیکنڈ کے لیے رکنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے سڑک پر عجلت میں مصروف اس قوم کیلئے سرخ اشارے پر ایک منٹ اور بائیس سیکنڈ رکنا کسی طرح ممکن ہی نہیں۔ اس ملک میں کوئی شخص خواہ کچھ بھی نہ کرے مگر اسے سڑک پر بہرحال ہمیشہ جلدی ہوتی ہے۔ خدا شاہد ہے کہ میں یہ بات کالم کا پیٹ بھرنے اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے نہیں لکھ رہا۔ اس چوک پر اشارہ بند ہونے کی صورت میں میرے جیسے کسی کم ہمت آدمی کے گاڑی روک لینے کی وجہ سے پیچھے کھڑی ہوئی گاڑی کیلئے تو رکنا مجبوری ہے۔ لیکن سامنے چلتے ہوئے کلاک کو دیکھ کر کم از کم ساٹھ ستر فیصد موٹرسائیکل سوار اتنے طویل انتظار کو وقت کا ضیاع اور اپنی مصروفیات میں رکاوٹ جانتے ہوئے سرخ اشارے کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔
اس اشارے کے دائیں طرف والی سڑک پر ایک بہت ہی اعلیٰ شخصیت کی رہائش گاہ اور بائیں طرف ایک حساس ادارے کا دفتر ہے۔ آپ ان دونوں سڑکوں پر سے قطار میں لگ کر شناختی کارڈ دکھائے بغیر گزرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے مگر آپ انتہائی قاعدے ضابطے پر مبنی ان دونوں سڑکوں کے عین درمیان واقع اس چوک سے اشارے کی جانب سے آنکھیں بند کرکے گزر سکتے ہیں۔ ٹریفک پولیس والوں سے ایک بار پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ یہ کینٹ کا علاقہ ہے اس جگہ پر ملٹری پولیس کی ذمہ داری ہے۔ پھر کینٹ سے متعلقہ ایک ریٹائرڈ کرنل دوست سے دریافت کیا تو وہ کہنے لگا کہ یہ سڑک ٹریفک پولیس کی عملداری میں ہے اور اس کا انتظام ضلعی پولیس کے ذمے ہے۔ یعنی فریقین ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے تھے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دونوں اس چوک کے انتظام سے بری الذمہ ہیں۔
میں روزانہ آتے اور جاتے ہوئے اس چوک پر ہونے والی ٹریفک کی خلاف ورزیاں دیکھ کر کڑھتا تھا اب الحمدللہ گزشتہ دس پندرہ دن سے اس چوک کا اشارہ خراب ہے‘ ساری ٹریفک اب بھی بلا روک ٹوک دھنا دھن دائیں بائیں آگے پیچھے سے اسی طرح گزر رہی ہے جیسی اشارے ٹھیک ہوتے ہوئے گزرتی تھی۔ مجھے گزشتہ دس پندرہ دن سے کم از کم اس اشارے کے بارے میں تسلی ہے کہ اس جگہ ٹریفک کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہو رہی اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اشارہ خراب ہے۔ میرا دل کرتا ہے کہ کسی بااختیار شخص کو کہہ کر بقیہ دو اشارے بھی خراب کروا دوں تاکہ اس طرف سے تو یکسوئی ہو جائے۔
جون ایلیا نے ایک بار مشتاق یوسفی تھے سے کہا کہ جانی! عجب معاملہ ہے۔ میرے پاس گیارہ کُرتے ہیں جبکہ پاجامہ صرف ایک ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ میں کیا کروں؟ یوسفی صاحب نے کہا: جون بھائی! اگر آپ کسی طرح اس ایک پاجامے سے بھی نجات حاصل کر کے بے فکر ہوں تاکہ آپ کو ایک طرف سے تو یکسوئی حاصل ہو۔ سو یہ عاجز بھی چاہتا ہے کہ وہ کسی ایک طرف سے تو بے فکر ہو کر یکسوئی حاصل کر سکے۔