دنیا دیکھنے کا مزا اپنی جگہ‘ تاہم آپ اگر باقی دنیا کا موازنہ پاکستان سے کرنے کی علت میں مبتلا ہیں تو پھر سمجھیں آپ کا سارا مزا کرکرا ہو گیا اور میرا بھی یہی حال ہے۔ جس ملک‘ جس شہر اور جس قصبے کو دوبارہ‘ سہ بارہ دیکھنے کا موقع ملا ہے اسے پہلے سے بہتر پایا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا نظام ہو‘ ماحول کی صورتحال ہو‘ صفائی ستھرائی ہو‘ سڑکیں اور گلیاں ہوں‘ تاریخی مقامات اور آثارِ قدیمہ ہوں‘ پارک اور باغات ہوں یا دیگر شہری سہولتیں ہوں ہر چیز کو گزشتہ سے اگر بہت بہتر نہ بھی سہی تو نسبتاً بہتر ضرور پایا۔ ابھی اس تذکرے میں انسانی حقوق‘ عدل وانصاف‘ جمہوری معاملات‘ طرزِ حکمرانی‘ شرفِ انسانی‘ آئین کی بالا دستی اور قانون کی حاکمیت وغیرہ جیسی ''غیر ضروری‘‘ چیزوں کا کوئی ذکر نہیں۔ اگر وہ دفتر کھل گیا تو سمٹنے میں نہیں آئے گا۔
ادھر اپنی طرف یہ صورتحال ہے کہ ہر گزرتا دن اچھی یادوں کی پٹاری اپنے ساتھ سمیٹ کر لے جا رہا ہے۔ دنیا آگے جا رہی ہے ہم نے پیچھے کی طرف سفر شروع کر رکھا ہے جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ ہر آنے والا دن گزشتہ سے بدتر ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ نہ کسی کو اس زیاں کا احساس ہے اور نہ اس میں بہتری لانے کا کوئی حقیقی ارادہ دکھائی دیتا ہے۔ حکمران خواہ اب والے ہوں یا ماضی قریب اور ماضی بعید سے تعلق رکھتے ہوں‘ صرف عوام کو سہانے خواب دکھانے‘ کبھی نہ پورے ہونے والے وعدے کرنے اور خوش کن نعرے لگانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکے۔ عوام کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ پچپن‘ چھپن سال سے روٹی‘ کپڑے اور مکان کے وعدے کی بنیاد پر ایک ایسے شخص کی محبت میں مبتلا ہیں جو اپنی زندگی میں بھی یہ وعدہ پورا نہ کر سکا اور اب جبکہ اسے اس دنیا سے رخصت ہوئے بھی چھیالیس برس بیت چکے ہیں‘ نہ صرف زندہ ہے بلکہ اس کے ورثا در ورثا بھی اسی نعرے کی گونج میں اقتدار کی کرسی پر براجمان ہیں اور اس عرصے میں پاکستانی عوام پر روٹی کی سہولت‘ کپڑے کی قیمت اور مکان کے دروازے آہستہ آہستہ بند ہوتے جا رہے ہیں۔ مزید تفصیل میں کیا جائیں‘ ہر حکمران نے اس دوران اپنی دولت میں بے پناہ اضافہ‘ ملکی و غیر ملکی جائیداد میں محیر العقول بڑھوتری اور سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں جمع شدہ رقم کا پیٹ مزید موٹا کر لیا ہے۔ رہ گئے عوام تو وہ نہ پہلے کبھی شمار میں تھے اور نہ ہی اب ان کی کوئی اوقات ہے۔ عوام کا کام اپنے اوپر مسلط حکمرانوں‘ اشرافیہ‘ مقتدرہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ کے خرچے اور نخرے اٹھانے کی بیگار بھگتنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
معاف کیجئے گا! میں حسبِ معمول بہک کر کہیں اور چلا گیا۔ بات ہو رہی تھی دیگر جگہوں پر ہونے والی روز افزوں ترقی اور ہمارے ہاں اس کے برعکس صورتحال کی اور چلی گئی حکمرانوں‘ اشرافیہ‘ مقتدرہ‘ عدل و انصاف کے ایوانوں اور زور آوروں کی طرف جن کا نہ ہم کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں سمجھا سکتے ہیں۔ تو پھر ان کے بارے میں لکھنے کا بھلا کیا فائدہ یا حاصل وصول ہے؟ مگر دل ایسی کمبخت شے ہے کہ نہ تجربوں سے سیکھتا ہے اور نہ ماضی سے سبق حاصل کرتا ہے۔ ہمہ وقت لاحاصل کے خواب دیکھتا ہے اور ناممکنات کے ممکن ہونے کی امید لگاتا ہے۔
لندن میں جب بھی آیا ہوں اسے پہلے سے بہتر پایا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا نظام ایسا شاندار اور جامع کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔ ہر جگہ پبلک ٹرانسپورٹ میسر ہے۔ شہر‘ جو میلوں تک پھیلا ہوا ہے‘ میں شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں بس‘ ٹرین یا انڈر گراؤنڈ ریل نہ جاتی ہو۔ ٹرانسپورٹ فار لندن (TfL) کا نظام اور نیٹ ورک دیکھیں تو آنکھیں حیرت سے پھٹ جاتی ہیں۔ صرف انڈر گراؤنڈ ریلوے روزانہ تقریباً پینتیس لاکھ کے لگ بھگ مسافروں کو ان کی منزل مقصود تک پہنچاتی ہے۔ سفر کرنے والے مسافروں کی سالانہ تعداد کا سُن کر بندے کی حیرت گم ہو جاتی ہے‘ جو ایک ارب تیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس تعداد میں بسوں اور اوور گراؤنڈ ریلوے ٹرینوں پر سفر کرنے والے شامل نہیں ہیں۔
ادھر ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ ریلوے بربادی کی طرف گامزن ہے۔ آج سے چالیس‘ پچاس سال قبل ملتان تا لاہور سیکشن پر بجلی سے چلنے والی ٹرینیں چلا کرتی تھیں۔ ہماری بجلی عوام کیلئے پوری نہیں پڑ رہی تھی بھلا ایسے میں ٹرین کہاں سے چلتی؟ بجلی سے چلنے والی ٹرینیں بند ہو گئیں۔ یار لوگ تانبے کی تاریں اتار کر گھر لے گئے۔ کھمبے اکھاڑ کر بیچ ڈالے۔ کھمبوں پر لگے دیگر لوازمات چور لے گئے۔ سٹور میں موجود بجلی والے انجنوں کے سارے پرزہ جات کباڑ میں بیچ کر نوٹ کھرے کر لیے گئے۔ ملتان سے لاہور ایک عدد فاسٹ ٹرین ''غزالہ ریل کار‘‘ چلا کرتی تھی۔ اللہ جانے اس چار پانچ ڈبوں والی مختصر سی ٹرین کا نام کس غزالہ پر رکھا گیا تھا۔ جیسے اس غزالہ کا معلوم نہیں کہ کون تھی‘ یہ غزالہ بھی نجانے کہاں چلی گئی۔ اب اس کا صرف نام ہے اور یادیں ہیں۔ میں ابا جی کے ساتھ 1964ء میں کراچی گیا تو ٹن ٹن کرکے چلتی ہوئی ٹرام میں سفر کیا۔ پھر اس کو نظر لگ گئی۔ اس ٹرام میں سفر کے عشروں بعد ایمسٹرڈیم میں دوبارہ ٹرام پر چڑھا تو بچپن کی یادوں میں کھو گیا‘ جب ماموں حمید اللہ مرحوم لکی سٹار کے ساتھ واقع برگنزا ہاؤس میں رہا کرتے تھے اور میں ابا جی سے روزانہ ٹرام پر سفر کی فرمائش کیا کرتا تھا۔ اسی شہر کراچی میں ایک سرکلر ریلوے نام کی سہولت ہوا کرتی تھی جو حکمرانوں کی نااہلی‘ اداروں کی نالائقی اور عوام کی بے حسی کے طفیل بند ہو گئی۔ ٹریک پر ٹرین کے بجائے قابضین نے ڈیرے ڈال لیے۔ ملتان میں اومنی بس سروس کے نام پر سرخ رنگ کی ڈبل ڈیکر اور ایک منزلہ بسیں عام چلا کرتی تھیں اور ان کا دائرہ کار شہر کی ان جگہوں تک تھا جہاں اب نئی نسل نے پبلک ٹرانسپورٹ کا نام بھی نہیں سنا۔ چوک شہیداں‘ دولت گیٹ‘ ڈیرا اڈہ‘ کینٹ ریلوے سٹیشن‘ نواں شہر‘ سمیج آباد‘ مظفر آباد اور کھاد فیکٹری آج بھی معقول پبلک ٹرانسپورٹ سے محروم ہیں۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں پچاس سال پہلے بسیں چلا کرتی تھیں۔
لندن میں عام بسوں کی نسبت ڈبل ڈیکر بسیں بہت ہی زیادہ ہیں بلکہ سینٹرل لندن میں تو ڈبل ڈیکر کے علاوہ اور کوئی بس بمشکل دکھائی دیتی ہے۔ یہ بسیں ایسی ایسی گلیوں تک سفر کی سہولت فراہم کرتی ہیں کہ بندہ انگشت بدنداں رہ جاتا ہے کہ یہ ڈبل ڈیکر بسیں کتنی چھوٹی چھوٹی سڑکوں سے سہولت سے گزر جاتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ غلط پارکنگ اور ون وے ٹریفک کی خلاف ورزی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ جہاں انڈر گراؤنڈ ٹرین نہیں جاتی وہاں اوور گراؤنڈ ریلوے آپ کو سفر کی سہولت فراہم کرتی ہے اور سب سے بڑھ کر بسیں ہیں جو ہر جگہ جاتی ہیں۔ ٹرین سے اتریں اور بس پکڑ لیں۔ بس سے اتریں اور انڈر گراؤنڈ پر چڑھ جائیں۔
لندن جیسی یا شاید اس سے بھی تھوڑی بہتر پبلک ٹرانسپورٹ آسٹریا کے شہر ویانا میں دیکھی۔ وہاں انڈر گراؤنڈ اور بسوں کے باہمی تال میل کے درمیان ٹرام کی سہولت بھی میسر تھی۔ میں وہاں گیا تو تین روزہ ٹرانسپورٹ پاس لے لیا۔ ویانا کی تمام ٹرینیں‘ بسیں‘ ٹرامیں اور انڈر گراؤنڈ اس میں شامل تھیں۔ تھوڑا بہت پیدل چلنا پڑتا مگر ہر جگہ ٹرانسپورٹ میسر تھی۔ کیا شہر کا اندرون اورکیا شہر کے مضافات‘ ہر جگہ پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود تھی۔ لندن میں میرے کئی دوستوں نے‘ جن کا گھر کسی انڈر گراؤنڈ ریلوے سٹیشن کے پاس ہے‘ کار وغیرہ کا جھنجھٹ ہی نہیں پالا اور وہ جیب میں موجود اویسٹر کارڈ (Oyster Card) سے کام چلاتے ہیں۔ یہ لندن ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے کا پری پیڈ کارڈ ہے۔ میں نے بارہ پندرہ برس پہلے یہ کارڈ پانچ پاؤنڈ کے عوض خرید کر اس میں رقم ڈالی تھی اور ادھر سفر شروع کر دیا تھا۔ برسوں پرانا یہ کارڈ میرے سفری پرس کا حصہ ہے اور اس سفر میں بھی میرا معاون ہے۔