"KMK" (space) message & send to 7575

سرکار کو پسینہ آجائے گا

اس قوم کا جتنا دماغ چیزوں کو گھمانے‘ گھپلے کرنے‘ نئی نئی اختراعات نکالنے اور جگاڑ لڑانے میں صرف ہوتا ہے اگر اس کا محض دس پندرہ فیصد بھی مثبت سرگرمیوں میں صرف کر لیتی تو ہمارا سارا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا ہوتا۔ ہم کہاں کے کہاں پہنچ گئے ہوتے۔ ظاہر ہے دو نمبری کام سے آپ مال کما سکتے ہیں‘ وقتی فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اپنا کام نکال سکتے ہیں مگر اس سے آپ دیر پا فوائد یا مستقل رہ جانے والے نتائج بہرحال کسی طور حاصل نہیں کر سکتے۔ مگر ہم شارٹ کٹ‘ فراڈ‘ دو نمبری اور گھپلوں پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں‘ دور رس نتائج‘ مستقل فوائد والے کام اور تادیر رہ جانے والے پراجیکٹ ہماری ترجیحات میں کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔
اس ملک میں گزشتہ دو تین عشروں سے جو کام کاروبار کے نام پر سب سے مقبول چلا آ رہا ہے وہ پراپرٹی کا کام ہے۔ خاص طور پر ہاؤسنگ سکیمیں اور پلاٹوں کی خرید و فروخت تو ایسی شے ہے کہ ساری قوم اس کی محبت میں مبتلا ہے۔ کیا اندرون ملک میں رہنے والے اور کیا بیرون ملک مقیم ہمارے بھائی‘ سب کے سب اپنا سارا فالتو پیسہ‘ اپنی ساری بچت اور اپنی کل کمائی اسی سیکٹر میں ڈال چکے ہیں اور ڈال رہے ہیں۔ کبھی اس لالچ میں کہ پراپرٹی کی قیمتیں اوپر جا رہی ہیں اور اس میں سرمایہ کاری نہایت سود مند ہے اور اگلے چند ماہ میں لگائی گئی رقم دوگنا ہو جائے گی۔ اور کبھی یہ کہ پراپرٹی کا ریٹ نیچے آ چکا ہے‘ یہ وقت خریدنے کا ہے اور اس وقت کی جانے والی سرمایہ کاری ہر حال میں فائدہ دے گی۔ جن لوگوں کے پہلے سے خرید کردہ پلاٹوں اور فائلوں کی قیمت گر چکی ہوتی ہے وہ یہ سوچ کر مزید فائلیں اور پلاٹ خرید لیتے ہیں کہ اب بھلا ریٹ اس سے مزید نیچے کیا جائیں گے۔ اب کریش شدہ مارکیٹ میں سستے پلاٹ خریدنے سے پچھلے مہنگے خرید کردہ پلاٹوں کی قیمت کا اوسط بہتر ہو جائے گا‘ لہٰذا اب پلاٹ ضرور لے لینا چاہیے۔ یعنی قیمتیں چڑھ رہی ہوں تو بھی پلاٹ خریدنا ہے کہ اس میں چار پیسے بچ جائیں گے اور قیمتیں گر رہی ہوں تو بھی پلاٹ خریدنا ہے کہ یہ خرید کیلئے نہایت مناسب وقت ہوتا ہے۔
قوم کے اس خبط سے پراپرٹی مافیا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے اور ہر شہر کے ساتھ جڑی ہوئی زرعی اراضی کو ہاؤسنگ سکیموں کا عفریت نگلے جا رہا ہے۔ اس صورتحال پر مجھے مرحوم محسن نقوی کے شعر یاد آ جاتے ہیں۔ میں شاید یہ شعر پہلے بھی لکھ چکا ہوں مگر جب صورتحال نہ بدل رہی ہو تو پرانے شعر نہ صرف یہ کہ صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ لطف بھی دیتے ہیں۔ لہٰذا وہی شعر ایک بار پھر نذرِ قارئین ہیں:
کبھی تو محیط حواس تھا‘ سو نہیں رہا
میں ترے بغیر اداس تھا‘ سو نہیں رہا
میری وسعتوں کی ہوس کا خانہ خراب ہو
میرا گاؤں شہر کے پاس تھا‘ سو نہیں رہا
ہماری پلاٹوں کی لالچ بلکہ ایسے پلاٹوں کی لالچ جن کی ہمیں کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی‘ ہمارے گاؤں کھا گئی‘ ہماری زرعی زمین کھا گئی اور ہمارے باغات نگل گئی۔ ہر شہر کے چاروں طرف کبھی ہریالی ہوتی تھی۔ اب پلاٹ ہیں‘ پلازے ہیں‘ دکانیں ہیں اور سریے سیمنٹ کے جنگل ہیں۔ اس سارے چکر میں لینڈ مافیا اور ڈویلپرز نے جہاں ایکڑوں کی صورت میں خریدی گئی زرعی زمین کو مرلوں کی صورت میں بیچ کر لمبے نوٹ کمائے ہیں وہیں زمین کی پیمائش میں فراڈ اور گھپلے سے جو کمائی کی ہے اس کا نہ کسی کو اندازہ ہے اور نہ ہی کسی نے اس فراڈ پر کبھی غور کیا ہے۔ یہ گھپلا زمین کی صدیوں سے رائج پیمائش کے پیمانے تبدیل کرکے کیا گیا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں زمین کی پیمائش اور پیمانوں کا پہلا باقاعدہ ریکارڈ جسے اراضی کا بندوبست بھی (Land settlement) کہتے ہیں‘ شیر شاہ سوری نے 1540ء سے 1545ء کے درمیان کرایا۔ اس خطے میں دوسرا بندوبستِ اراضی اکبر بادشاہ کے وزیر خزانہ اور یکے از نورتن راجہ ٹوڈرمل نے سال 1570ء تا 1580ء کرایا۔ شیر شاہ سوری کے زمانے میں زمین کی پیمائش کا پیمانہ ''گج‘‘ تھا جبکہ ٹوڈرمل نے اس کیلئے ''گزِ اکبری‘‘ متعارف کرایا۔گورے نے پہلا انگریزی بندوبستِ اراضی 1793ء میں لارڈ کارنوالس کی سربراہی میں کرایا۔ دوسرا باقاعدہ بندوبست 1822ء میں ہولٹ میکنزی اور رابرٹ منٹگمری نے جبکہ تیسرا بندوبست 1872ء میں انگریز سرکار نے کمشنروں‘ ڈپٹی کمشنروں اور تحصیلداروں سے کرایا۔ تب نہ صرف یہ کہ ایسے کام سرکاری افسر کیا کرتے تھے بلکہ ان کے کیے گئے کام‘ سروے اور تخمینے ایسے پختہ‘ درست‘ محتاط اور غلطیوں سے پاک تھے کہ ڈیڑھ دو صدیوں بعد بھی نہ صرف قابلِ عمل ہیں بلکہ ان پر بھروسہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ انگریزوں نے اس بندوبستِ اراضی میں اس خطے کی زمین کی پیمائش کیلئے جو نظام اور پیمانے رائج کیے‘ وہ آج بھی اسی طرح مستعمل ہیں۔ ضلع ملتان کے 1923ء کے سرکاری گزٹیئر کے صفحہ 208پر اس خطے کی زمین کی پیمائش کے جو پیمانے رقم ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ ایک کرم (پیمانہ) 66مربع انچ کے مساوی ہو گا۔ 66مربع انچ اس حساب سے 30.25مربع فٹ کے مساوی بنتے ہیں۔ نو کرم کا ایک مرلہ ہے۔ یعنی ایک مرلہ میں 272.25مربع فٹ رقبہ ہو گا۔ بیس مرلے کا ایک کنال ہو گا جس میں 5445مربع فٹ زمین ہو گی۔ پیمائش کے یہ پیمانے نہ صرف ہمارے ملک بلکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی رائج ہیں۔
بڑی بڑی ہاؤسنگ سکیمیں‘ نامور رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز اور ان کی دیکھا دیکھی چھوٹے چھوٹے لینڈ ڈویژن والے سرمایہ کار‘ سب کے سب عوام کو 272.25مربع فٹ کے بجائے 225مربع فٹ والا مرلہ دے رہے ہیں۔ نئی ہاؤسنگ سکیموں کا کنال 5445مربع فٹ کے بجائے 4500مربع فٹ پر مشتمل ہے۔ یعنی ایک کنال کے نام پر خریدار سے شروع میں ہی تقریباً ساڑھے تین مرلے ہتھیا لیے جاتے ہیں۔ ہر مرلے میں سے 47.25مربع فٹ زمین کم دی جاتی ہے اور خریدار خوش ہے کہ اس نے ایک کنال کا پلاٹ خریدا ہے جبکہ حقیقت میں وہ پلاٹ بیس مرلے کے بجائے 16.52مرلے پر مشتمل ہوتا ہے۔ لاہور میں 225فٹ کا مرلہ 1930ء سے رائج ہے اور محکمہ مال کا سارا ریکارڈ بھی اسی کے مطابق تیار کیا گیا۔ لیکن لاہور میں ہاؤسنگ سکیموں والے پلاٹ فروخت وقت ہی نہیں بلکہ زمینیں خریدتے وقت بھی 225 مربع فٹ والا مرلہ لیتے ہیں۔ یہ صرف ملتان‘ بہاولپور‘ فیصل آباد یا پاکستان کے دیگر شہروں میں ڈکیتی ہو رہی ہے۔ اگر اس پیمانے کو پاکستان کے دیگر شہروں پر لاگو کرنا ہے تو یہ دو طرفہ ہوگا نہ کہ یکطرفہ۔
ہوتا یہ ہے کہ جب ہاؤسنگ سکیموں والے یا رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز فروخت کنندہ سے زمین خریدتے ہیں تو اس علاقے میں محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق 272.25مربع فٹ پر مشتمل مرلہ‘ 5445مربع فٹ پر مشتمل کنال اور 43560مربع فٹ پر مشتمل ایکڑ خریدتے ہیں لیکن اپنے گاہک کو 225مربع فٹ کا مرلہ اور 4500مربع فٹ کا کنال بیچتے ہیں۔ صرف اس خرید و فروخت میں وہ ہر کنال کے عوض تقریباً ساڑھے تین مرلوں کی ڈکیتی کر لیتے ہیں۔ سرکار کو قانون بنانا چاہیے کہ پورے پاکستان میں جب ہاؤسنگ سکیموں والے ڈویلپرز زمینیں خریدیں اور انہیں پلاٹ بنا کر بیچیں تو خرید و فروخت میں مرلے اور کنال محکمہ مال کے پیمانے کے مطابق ہوں۔ ایک ہی ضلعے میں مرلوں اور کنالوں کی دو دو پیمائشیں نہیں چلیں گی۔ گو کہ یہ کام سرکار کا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پیمائش میں گڑبڑ کرنے والے فرد اور ادارے اتنے تگڑے ہیں کہ سرکار ان کو پابند کرنا تو رہا ایک طرف‘ صرف سوچے تو اسے پسینہ آجائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں