"KMK" (space) message & send to 7575

الوداع! فرینک کیپریو

دنیا کے سب سے مہربان جج کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جانیوالے فرینک کیپریو مورخہ 20 اگست کو 88 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے تو مجھے دنیا بھر سے بیسیوں لوگوں نے انکے انتقال پر تعزیتی پیغامات بھیجے۔ فرینک کیپریو بھی کیا خوش قسمت آدمی تھا کہ اس سے محض ایک ملاقات کے طفیل یہ مسافر اس کے چاہنے والوں کے نزدیک اس کی تعزیت کا حقدار ٹھہرا۔ بعض لوگوں کے حقیقی ورثا کو اتنے تعزیتی پیغامات نہیں ملتے جتنے صرف اس مہربان آدمی کو ملنے کے باعث میرے حصے میں آئے۔
امریکی تاریخ میں اگر کوئی قانون دان اور جج سب سے بلند مرتبے پر فائز ہے تو وہ امریکہ کی سپریم کورٹ کا چوتھا چیف جسٹس جان مارشل ہے۔ 1801ء سے 1835ء تک کامل 34 سال تک امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر نہ صرف امریکی عدالتی تاریخ کا سب سے طویل عرصے تک چیف جسٹس رہنے کا ریکارڈ رکھتا ہے بلکہ اپنے عدالتی فیصلوں اور آئینی تشریحات کے حوالے سے وہ امریکی تاریخ کے سب سے نامور‘ شاندار اور روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ جان مارشل کا سب سے اہم تاریخی فیصلہ‘ جو Judicial Review کہلاتا ہے‘ یہ تھا کہ کانگریس کا بنایا ہوا کوئی بھی قانون‘ اگر وہ آئین سے متصادم ہے‘ تو عدلیہ اسے منسوخ کر سکتی ہے۔ اس نے یہ فیصلہ دیا کہ امریکی ریاستیں وفاقی اداروں پر ٹیکس نہیں لگا سکتیں۔ یہ بھی کہ بین الریاستی تجارت کا اختیار صرف وفاق کے پاس ہے نہ کہ ریاستوں کے پاس ہے۔ اسی طرح اس نے چیروکی (ریڈانڈینز) قبیلے اور ریاست جارجیا کے درمیان تنازع پر قرار دیا کہ مقامی امریکی قبائل خود مختار قوتیں ہیں اور ریاستیں ان پر اپنی مرضی اور قانون لاگو نہیں کر سکتیں‘ تاہم صدر اینڈریوجیکسن کی حکومت نے جان مارشل کے اس فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا۔ پس ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت آج سے دو سو سال قبل جس طرح اپنی مرضی اور منشا کے خلاف ہونے والے عدالتی فیصلے کو لاگو نہیں کرتی تھی‘ ہم آج دو سو سال بعد اسی درجہ پر کھڑے ہوئے ہیں۔یہ بات طے ہے کہ امریکی جسٹس جان مارشل جہاں امریکی عدالتی اور آئینی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش کردار کا حامل ہے وہیں وہ عوامی پذیرائی اور قبولیتِ عام میں پراویڈنس کے چیف جج فرینک کیپریو سے کہیں پیچھے ہے۔ گو کہ اس میں سوشل میڈیا کا بہت عمل دخل ہے مگر سوشل میڈیا کی سہولت آج سب کو حاصل ہے لیکن دنیا بھر میں شاید ہی کسی منصف کو اتنی شہرت‘ محبت‘ پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہو جتنی فرینک کیپریو کو حاصل ہوئی۔
پراویڈنس میں میرا ایک دوست الیاس چودھری رہتا ہے۔ الیاس چودھری سے میری دوستی کئی سال پرانی ہے اور اس میں مزید لطف یہ پیدا ہوا کہ ہمارے بہت سے دوست مشترکہ نکل آئے۔ میں گزشتہ آٹھ دس سال کے دوران بارہا الیاس چودھری کے پاس جا چکا ہوں۔ اس دوران ایک دوبار کوشش بھی کی کہ جج فرینک کیپریو سے ملاقات ہو جائے مگر میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ملاقات تبھی ہوتی ہے جب اس کا اذن ہوتا ہے اور تب تک شاید اس کا اذن نہیں ہوا تھا۔ ہر بار ملاقات میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ یا مجبوری حائل ہو گئی۔ گزشتہ سال میں نے ٹولیڈو سے پراویڈنس آنے کی شرط یہی رکھی کہ الیاس چودھری میری فرینک کیپریو سے ملاقات کا اہتمام کرے گا۔ الیاس نے بھی حسبِ معمول نہ صرف ہامی بھر لی بلکہ اس امر کی یقین دہانی بھی کرائی۔ لہٰذا یہ مسافر پراویڈنس جا پہنچا۔
21اگست کی صبح فون دیکھا تو اس پر برادرم الیاس چودھری کا پیغام تھا کہ فرینک کیپریو اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ آپ یقین کریں یہ پیغام پڑھ کر صرف صبح ہی نہیں‘ پورا دن خراب ہو گیا۔ گزشتہ ملاقات میں اس نے بتایا کہ وہ Prostate کے کینسر کے سلسلہ میں کیموتھراپی مکمل کرکے فارغ ہوا ہے اور خود کو بہتر محسوس کر رہا ہے۔ کینسر موذی مرض ہے اور ستاسی سالہ فرینک کیپریو اس سے بڑی جوانمردی اور حوصلے سے نبرد آزما تھا تاہم اس کی قوتِ ارادی نے اسے بڑا سہارا دیا ہوا تھا۔ سچ پوچھیں تو مجھے یقین کی حد تک اندازہ تھا کہ وہ ابھی کئی سال جیے گا اور میں اگلے سال اس سے دوبارہ ملوں گا۔ مگر ہمارے اندازے مالک کی طرف سے طے شدہ وقت کے سامنے غلط بھی نکلتے ہیں سو میرا اندازہ غلط نکلا۔ ویسے بھی اس مسافر کے اس سلسلے میں اندازے غلط ہی نکلتے ہیں۔ بھلا مجھے کہاں گمان تھا وہ مجھے اس طرح آدھ راستے میں اتنی جلدی چھوڑ کر چلی جائے گی؟
اس ملاقات میں مَیں نے فرینک کیپریو سے وعدہ لیا کہ اگر انہیں ہم پاکستان بلائیں تو وہ آئیں گے۔ انکے بیٹے ڈیوڈ کیپریو نے میری بات سن کر کہا کہ ابا کی طبیعت ٹھیک تو ہے مگر ایسی نہیں کہ پاکستان تک کا لمبا سفر کر سکیں۔ فرینک کیپریو اسکی بات سن کر مسکرایا اور اسکے پلٹتے ہی کہنے لگا: اگر پاکستان میں سکیورٹی کے حالات اچھے ہوں تو وہ پاکستان ضرور جانا چاہے گا۔ میں نے ادھر چند دوستوں سے اس سلسلے میں بات کی تو ایک دو دوست‘ جو کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھتے تھے‘ اس بات پر بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے ہامی بھری کہ وہ اپنی کمپنی کے سالانہ ڈنر میں فرینک کیپریو کو مہمان بنانا اپنے لیے اعزاز سمجھیں گے۔ چند ماہ قبل میری ڈیوڈ کیپریو سے اس سلسلے میں بات ہوئی تو اس نے والد کی صحت کے مسائل کے پیش نظر پاکستان تک کے لمبے سفر سے معذرت کر لی۔ میں نے بھی اصرار نہ کیا۔ میں محبت میں سہولت کا قائل ہوں۔ مجھے اندازہ تھا کہ اٹھارہ بیس گھنٹے کا سفر خواہ فرسٹ کلاس میں ہی کیوں نہ کیا جائے بہرحال باعثِ آزار ہوتا ہے۔
جج فرینک کیپریو کی دنیا بھر میں Fan Following اور محبت سمیٹنے کے پیچھے صرف اور صرف اس کی انسان دوستی اور وہ محبت تھی جو وہ بطور جج عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر لوگوں میں تقسیم کرتا تھا۔ وہ شرفِ انسانی کو قانون پر فوقیت اور انسانی جذبات کو قانون کی کتابوں میں چھپے ہوئے حروف پر ترجیح دیتا تھا۔ میرے خیال میں پراویڈنس کی عدالت اس کی موجودگی کے سبب دنیا کی واحد عدالت تھی جہاں جرمانے کی سزا پانے والا جرمانہ ادا کرنے کے بعد عدالت سے نہ صرف مسکراتا ہوا نکلتا تھا بلکہ باقاعدہ فخر و انبساط کے جذبات سے معمور بھی ہوتا تھا۔ یہ صرف اور صرف فرینک کیپریو کی عدالت ہی میں ممکن تھا۔
فرینک کیپریو رخصت ہوا۔ محبت‘ ہمدردی‘ مہربانی‘ کرم نوازی اور انسان دوستی کا ایک سنہرا باب بند ہوا۔ فرینک کیپریو دنیا سے جا چکا ہے مگر وہ صرف جسمانی طور پر رخصت ہوا ہے۔ اسکی مہربانی ایک مثال کی صورت موجود ہے۔ اس نے دنیا کو ایک سبق دیا کہ صرف محبت کے دو بول‘ انسان دوستی کا رویہ اور عدالت میں آنیوالے ملزموں کی مجبوریوں کا احساس ایسا جادو ہے جو عدالت اور قانون کی سختی اور خوف کو محبت کے بہتے دریا میں بدل دیتا ہے۔
میرا دل کرتا ہے کہ میں Caught in Providence کے نام سے فرینک کیپریو کی عدالت میں فلمائی گئی وڈیوز کو پاکستان کی عدلیہ کے ججوں کو‘ فائلوں پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے بیورو کریٹس کو‘ قانون کا نظام چلانے والے پولیس افسروں کو اور سب سے بڑھ کر مقابلے کا امتحان پاس کرنے والے پروبیشنرز کو دورانِ تربیت دکھائوں تاکہ ان کو معلوم ہو سکے کہ شرفِ انسانی کا احترام‘ محبت بھرے الفاظ‘ مجبوریوں کا ادراک اور مہربانی کس طرح قانون‘ قواعد و ضوابط‘ سزا اور جرمانے کو بھی ہنستے کھیلتے برداشت کرنے کی حدود میں لے آتی ہے۔ دنیا بھر سے بیسیوں دوستوں نے مجھ سے فرینک کیپریو کی تعزیت کی اور میں نے ڈیوڈ کیپریو سے۔ میری دعا ہے کہ خدائے مہربان دنیا کے سب سے مہربان جج‘ راسخ العقیدہ کیتھولک کرسچن فرینک کیپریو کے ساتھ مہربانی والا معاملہ فرمائے۔ اس کریم کے ہاں حقوق العباد کی بڑی اہمیت ہے۔ اتنی بڑی کہ ہمیں اس کا اندازہ بھی نہیں۔الوداع! فرینک کیپریو

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں