"KMK" (space) message & send to 7575

ایک اور نئی پریشانی

مملکتِ خداداد پاکستان میں اور کسی چیز کی سہولت ہو یا نہ ہو‘ مگر ہم کالم گھسیٹنے والوں کو موضوعات کے سلسلے میں ایسی سہولت اور آسانی میسر ہے کہ بعض اوقات بندہ پریشان ہو جاتا ہے کہ کس موضوع پر لکھے اور کس کو چھوڑے۔ کسی نے مولوی صاحب کو کھانے کی دعوت دی اور ان سے پوچھا کہ وہ کھانے میں مرغ پسند کریں گے یا ان کیلئے حلوہ بنوایا جائے؟ مولوی صاحب نے دو لمحے تؤقف کیا پھر بولے: اللہ تعالیٰ تمہیں بھی ایسے ہی پریشان کرے جس طرح تم نے مجھ کو پریشان کیا ہے۔ آپ یقین کریں میں جب بھی موضوعات کے انتخاب میں اس طرح پریشان ہوتا ہوں تو مجھے مولوی صاحب کی پریشانی کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔
چند روز قبل اخبار میں دو خبریں تھیں جو دراصل ہمارے نظام کا مرثیہ تھیں۔ ایک خبر میرے پیارے جمشید دستی کو جعلی ڈگری کیس میں ملنے والی مجموعی طور پر سترہ سال قید اور مبلغ پچاسی ہزار روپے جرمانے سے متعلق تھی اور دوسری خبر اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک کیس کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی کے ریمارکس تھے‘ جو انہوں نے عدالتی نظام کے بارے میں دیے۔ بظاہر دونوں خبروں اور عدالتی کارروائی میں کوئی قدرِ مشترک دکھائی نہیں دیتی مگر ان دونوں معاملوں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہمارا عدالتی نظام‘ پیشی در پیشی اور تاریخ در تاریخ کا المیہ ہے۔ ہمارے نظام ِانصاف اور عدالتی طریقہ کار میں اگلی پیشی لینے کی سہولت نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو‘ انصاف کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ انصاف میں تاخیر کے بارے میں ایک انگریزی کہاوت ہے کہ ''Justice delayed is justice denied‘‘ یعنی انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے‘ اور ہمارے ہاں تاخیری حربوں کے ذریعے انصاف سے انکار اب معمول کی بات ہے۔
جمشید دستی کی جعلی ڈگری کے بارے میں یہ عاجز آج سے کئی سال قبل بھی لکھ چکا ہے اور گزشتہ دنوں موصوف کو قومی اسمبلی کی نشست سے نااہل قرار دینے کے بعد بھی اس موضوع پر خامہ فرسائی کر چکا۔ یہ بات تو بالکل صاف ہے اور مجھے اس بارے میں رتی برابر بھی شک نہیں کہ یہ ڈگری دو سو فیصد جعلی ہے۔ یہ جو دو سو فیصد لکھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ موصوف کی ایک ہی ڈگری دو حوالوں سے جعلی ہے۔ فی الوقت میں ''شہادت العالمیہ‘‘ کی ڈگری کی بات کر رہا ہوں‘ دیگر آدھ درجن جعلی ڈگریوں کی بات نہیں کر رہا جو موصوف نے ایسے جمع کیں جیسے میں بچپن میں ڈاک ٹکٹیں اور سکّے جمع کیا کرتا تھا۔
2008ء کے انتخابات میں مظفر گڑھ کے حلقہ این اے 178 سے الیکشن کیلئے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے تو تب الیکشن لڑنے کیلئے گریجوایشن کی شرط پوری کرنے کیلئے موصوف نے ڈائریکٹ حوالدار بنتے ہوئے میٹرک کیے بغیر سیدھا ایم اے کی ڈگری کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ لف کر دی۔ یہ ''شہادت العالمیہ العلوم العربیہ والاسلامیہ‘‘ کی ڈگری تھی جسے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے 17 نومبر 1982ء کو ایم اے عربی واسلامیات کے مساوی تسلیم کیا تھا۔یہ ڈگری دہری جعلی اس طرح تھی کہ اول تو موصوف اس ڈگری کے حصول کیلئے کبھی مدرسے ہی نہ گئے اور ان کی تعلیمی قابلیت کا پول سپریم کورٹ میں کھل گیا۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے جس مدرسہ کی سند لگائی وہ مدرسہ بذاتِ خود وفاق المدارس کے ان مدرسوں میں شامل ہی نہ تھا جو یہ ڈگری جاری کرنے کے مُجاز تھے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ یہ ایک ایسی سند تھی جسے کوئی بھی شخص کسی پرنٹنگ پریس سے چھپوائے اور اپنی تعلیمی قابلیت کا جواز بنا لے۔ تاہم فی الوقت صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ عجلت میں یہی کچھ کیا جا سکتا تھا جو اس نے کیا مگر آفرین ہے ہمارے نظام انصاف اور اس کی پھرتیوں پر کہ اس نے یہ فیصلہ کرنے میں پورے سترہ سال لگا دیے۔ یہ ایسا کیس تھا جو محض ایک یا زیادہ سے زیادہ دو پیشیوں کی مار تھا۔ عدالت کو صرف ایک خط لکھ کر وفاق المدارس سے دریافت کرنا تھا کہ کیا یہ ڈگری اصلی ہے اور یہ ان کی جاری کردہ ہے یا نہیں؟ لیکن ہمارے نظام عدل کو اس عظیم الشان کیس کا فیصلہ کرنے میں پورے سترہ سال لگے۔ میں صرف اس کیس کا فیصلہ ہونے کی مدت لکھ رہا ہوں۔ اس دوران کتنی پیشیاں پڑیں اور کتنے جج تبدیل ہوئے‘ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب میں نے درجن بھر دوستوں سے بشمول شاہ جی دریافت کیا مگر سب نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ سترہ سال بعد انصاف کیا بھی تو اس طرح کہ ہر سال کی تاخیر کے عوض جو عدالتی سستی اور نظام انصاف کی نالائقی کے علاوہ اور کچھ نہیں‘ عدالت نے موصوف کو مجموعی طور پر سترہ سال قید کی سزا سنا دی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ عدالت نے اس کیس کا فیصلہ سترہ سال میں کرتے ہوئے جمشید دستی کو سترہ سال قید کی سزا سنا دی۔ اگر یہ فیصلہ مزید تاخیر سے بیس سال بعد ہوتا تو گمان ہے عدالت تاخیر سے ہونے والے انصاف کا حساب برابر کرنے کیلئے ملزم کو بیس سال سزا دیتی۔
ویسے حیرانی کی بات ہے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی زد میں آ کر سزائے قید سے سرفراز ہونے کا اعزاز بھی جمشید دستی نے حاصل کیا۔ اس سے قبل آئین کے ان دو آرٹیکلز کی خلاف ورزی پر اسمبلی یا سینیٹ کی رکنیت سے فراغت تو ہوتی رہی ہے لیکن سزائے قید کا کوئی واقعہ کم از کم اس عاجز کو یاد نہیں آ رہا۔ یہ نظرِ کرم صرف انہی پر ہوئی ہے اور فی الحال اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ 'راندہ درگاہ ‘جماعت کی ٹکٹ پر زور آوروں کے لے پالک فارم 47 کو پچھاڑ کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوا تھا۔
دوسری طرف اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنی عدالت میں زیر سماعت ایک کیس میں وکیل کی جانب سے التوا کی درخواست پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں افسوس ہوتا ہے جب کوئی وکیل آکر سماعت کے التوا کی درخواست کرتے ہوئے تاریخ مانگ لیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سمجھ نہیں آتی کہ جج اور وکیل کام کیوں نہیں کرنا چاہتے‘ انہیں تو اب اپنے آپ پر بھی شرم آتی ہے۔ یہ باتیں انہوں نے اس کیس میں پڑنے والی بیسویں تاریخ میں التوا مانگنے پر کہیں۔ خبر میں واضح نہیں تھا کہ گزشتہ بیس تاریخوں کے دوران کتنی تاریخوں پر صرف التوا کی کارروائی ہوئی تھی‘ تاہم اس عاجز کا گمان ہے کہ کم از کم دس تاریخوں پر تو صرف التوا ہی مانگا گیا ہو گا‘ وگرنہ جج صاحب پہلے یا دوسرے التوا پر اس طرح برہمی کا اظہار ہرگز نہ کرتے۔تاہم اس خبر کا آخری حصہ کافی مزیدار ہے۔ قارئین! میں آپ سے پیشگی معذرت خواہ ہوں کہ میں نے اس آخری حصے کو‘ جو آپ کو بتانے لگا ہوں‘ مزیدار لکھ دیا ہے حالانکہ یہ ہرگز مزیدار نہیں مگر میں جو ایک قانون پسند اور ذمہ داری شہری ہوں‘ عدالت کے بارے میں کوئی ایسا لفظ استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا جس میں معزز عدالت کیلئے توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ اس لیے الفاظ کا بہتر چنائو کرتے ہوئے خبر کے آخری حصے کو مزیدار لکھ رہا ہوں اور وہ مزیدار حصہ یہ ہے کہ عدالت نے ڈانٹ ڈپٹ اور برہمی کا اظہار کرنے کے بعد اس وکیل کی التوا کی درخواست قبول کرتے ہوئے اسے اگلی تاریخ عطا فرما دی۔
یہ بات طے ہے کہ یہ ملک زور آوروں کو خوش کرنے‘ رعایتیں دینے‘ آسانیاں فراہم کرنے اور انکی منہ مانگی فرمائشیں پوری کرنے کیلئے بنا ہے۔ یہ فقیر عدالت کی اس دریا دلی‘ نیک دلی‘ نرم دلی اور سخاوت پر خوش ہونے یا افسوس کرنے کے سلسلے میں اسی طرح پریشان ہے جس طرح مولوی صاحب مرغ اور حلوے میں سے کسی ایک چیز کے انتخاب کے بارے میں پریشان تھے۔ گزشتہ دو تین روز سے یہ ایک اور نئی پریشانی ہے جو اس عاجز کو لاحق ہے۔ کیا عجب ریاست ہے جہاں ہر روز کوئی نہ کوئی نئی پریشانی بندے کو گھیر لیتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں