"KMK" (space) message & send to 7575

فارم 47 صحتمندی کا جادوئی ٹوٹکا

قارئین! آپ کو اب یہ بتانا محض وقت کا ضیاع ہوگا کہ شاہ جی ایک شرپسند آدمی ہیں۔ آپ ان سے بخوبی واقف ہو چکے ہوں گے۔ وہ جب بھی ملتے ہیں کوئی نہ کوئی ایسی درفطنی چھوڑتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر خامہ فرسائی کو دل بے چین ہو جاتا ہے۔ اگر وہ مارکیٹنگ کے شعبہ میں ہوتے تو ٹکے کی پراڈکٹ کو سونے کے بھاؤ فروخت کرنے پر قادر ہوتے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ اس کام میں نہیں پڑے وگرنہ مخلوقِ خدا چیز خریدنے کے بعد ان کو تلاش کرتی رہ جاتی۔ میں بذاتِ خود اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ وہ دوسروں کو اوپر چڑھانے کے بعد نیچے سے سیڑھی کھینچ لینے کے فن میں یدطولیٰ رکھتے ہیں اور کسی بھی شخص کو بہلا پھسلا کر آگے لگانے کے معاملے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ لیکن بندہ کیا کرے‘وہ بات میں ایسا تجسس‘ تحیر اور دلچسپی پیدا کر دیتے ہیں کہ بندہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ اور بات کہ ان کی بات سے متاثر ہونے یا اس پر عمل کرنے کے باعث سر پر پڑنے والی افتاد کے بعد بندہ سوچتا ہے کہ میں ایک بار پھر شاہ جی سے غچہ کھا کر پھنس گیا ہوں مگر اگلی بار پھر وہ اپنا آئیڈیا یا تھیسس اس خوبی اور مہارت سے آپ کے سر منڈھ دیتے ہیں کہ بندہ ان کے چکر میں آئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ جیسا کہ آج میرے ساتھ ہوا۔
خدا کا شکر ہے کہ ہمیں ایسے رہنما‘ سیاستدان‘ سرکاری مشینری‘ حکمران اور شاہ جی جیسے دوست میسر ہیں جس کی بنا پر ہمارے لیے ہفتے میں تین دن لکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اگر یہ سہولتیں میسر نہ ہوتیں تو ایک پنجابی محاورے کے مطابق ''نانی سکھنے‘‘ آ جاتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا کرنے والا ہے۔ جو رازق پتھر میں کیڑے کیلئے رزق کا بندوبست کرتا ہے اس کیلئے ہم جیسے لکھنے والوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنا کون سی بڑی بات ہے۔ سو ہمارا کام چل رہا ہے۔
بات شاہ جی کی ہو رہی تھی اور کہیں اور چلی گئی۔ کل ملے تو خاصی فارم میں تھے۔ چھوٹتے ہی کہنے لگے کہ میں گزشتہ کئی روز کے غوروخوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس ملک کے بہت سے مسائل کا حل فارم 47 میں پوشیدہ ہے۔ میں نے حیرانی سے شاہ جی کی طرف دیکھا اور ان سے جان کی امان طلب کرنے کے بعد عرض کی کہ آپ بالکل الٹ بات کہہ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس ملک کے بہت سے مسائل کی وجہ فارم 47 ہے اور بہت سے مصائب ہم پر اسی کی وجہ سے مسلط ہوئے ہیں۔ بجائے اس کے کہ آپ حق سچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس شہرہ آفاق فارم کی مذمت کریں یا اس کو فی الوقت اس ملک پر غیر منتخب افراد بذریعہ انتخاب مسلط کرنے کا باعث قرار دیتے ہوئے منہ سے نہ بھی سہی تو دل سے ضرور برا سمجھیں مگر آپ اس راندۂ درگاہ فارم 47 کو اس ملک کے مسائل کا حل قرار دے رہے ہیں۔ یہ ایسی حرکت ہے جس سے خدائے سخن اور امیرالشعرا حضرت میر تقی میر کا وہی شعر یاد آ جاتا ہے جو ایسے ہی مواقع پر ہر بار نیا مفہوم اور لطف لے کر آتا ہے کہ:
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
یعنی جس فارم کے طفیل یہ سارا غیر منتخب بندوبست ہمارے کندھوں پر پیر تسمہ پاکی طرح مسلط ہے آپ اسے اس ملک کے مسائل کا حل قرار دے رہے ہیں؟ شاہ جی نہایت تمسخرانہ انداز میں مسکرائے اور پھر مجھ سے نہایت نرمی سے پوچھنے لگے کہ تم میرے دو تین سوالات کا جواب دینا پسند کرو گے؟ میں نے کہا: بھلا میری ایسی مجال کہاں کہ آپ سوال کریں اور میں جواب نہ دینے کی گستاخی کروں۔ شاہ جی پوچھنے لگے کہ صدر زرداری اس وقت کہاں ہیں؟ میں نے کہا: مجھے کیا معلوم کہ وہ کہاں ہیں۔ وہ مورخہ 12ستمبر کو دس روزہ دورے پر چین گئے تھے‘ پھر وہ پلٹ کر کب واپس آئے اور پھر کہاں گئے اور اب وہ کہاں ہیں اس عاجز کو کوئی خبر نہیں۔ ہاں! البتہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ پاکستان میں ہوتے تو قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق اس وقت قائم مقام صدر کے فرائض سرانجام نہ دے رہے ہوتے۔ زرداری صاحب کے بعد چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے قائم قام صدر کے فرائض سرانجام دینا شروع کردیے تھے‘ وہ مورخہ 4 اکتوبر سے برطانیہ اور یورپ کے دورے پر روانہ ہوئے تو سپیکر ایاز صادق نے قائم مقام در قائم مقام صدرِ پاکستان کے فرائض سنبھال لیے۔
شاہ جی کہنے لگے: تمہیں یاد ہے الیکشن سے پہلے زرداری صاحب کی صحت کی کیا حالت تھی؟ اس بارے میں تو متعدد نامناسب قسم کی افواہیں بھی اڑی تھیں‘ وہ وہیل چیئر نشین ہو چکے تھے‘ حالت خراب تھی اور معاملہ دعاؤں تک پہنچ چکا تھا۔ جب سے وہ فارم 47 کی برکتوں اور کرامتوں کے طفیل منتخب ہونے والے نمائندوں کے ذریعے صدرِ پاکستان بنے ہیں راوی ان کی صحت کے بارے میں چین سے بھی بڑھ کر لکھتا ہے۔ وہ گزشتہ ساڑھے تین ہفتوں سے مسلسل سفر میں ہیں اور تم سے زیادہ کون جانتا ہوگا کہ سفر مشقت کا نام ہے‘ خواہ کتنا ہی آرام دہ کیوں نہ ہو۔ وہ ادھر سے اُدھر جا رہے ہیں اور بھلے چنگے ہیں۔ یہ سب فارم 47 کی برکت ہے۔
اچھا بتاؤ اپنے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ جناب اسحاق ڈار نے جب سے عہدہ سنبھالا ہے کتنے ممالک کا دورہ کر چکے ہیں؟ میں نے کہا کہ مجھ کم علم کو اتنے مشکل سوالات پر مشتمل پرچہ پکڑانا نہایت زیادتی ہے۔ میرے ناقص علم کے مطابق وہ صرف گزشتہ چند ماہ کے دوران بنگلہ دیش‘ چین‘ برطانیہ‘ بلجیم وغیرہ کے علاوہ وزیراعظم کے دورۂ سعودی عرب میں بھی ان کے ساتھ تھے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ بھی گئے تھے۔ شاہ جی مسکرا کر کہنے لگے: الیکشن سے پہلے وہ اتنے علیل تھے کہ پاکستان تک کا سفر کرنے سے عاری تھے۔ اب وہ جہاز سے صرف اس وقت نکلتے ہیں جب انہوں نے دوسرے جہاز میں بیٹھنا ہوتا ہے‘ یعنی وہ مسلسل سفر کر رہے ہیں بلکہ یوں کہو کہ وہ سفر کے علاوہ اور کچھ کر ہی نہیں رہے۔ اب نہ ان کی کمر میں درد ہے اور نہ ہی ڈاکٹروں نے انہیں سفر سے منع کیا ہے۔ یہ بھی سب فارم 47 والی حکومت کے طفیل ممکن ہوا جس کے وہ ماورائے آئین نائب وزیراعظم ہیں۔
اچھا چلو یہ بتاؤ کیا میاں نوازشریف کے پلیٹ لیٹس کا کوئی مسئلہ اب آپ کے علم میں آیا ہے؟ میں نے کہا کم از کم میرے علم میں تو نہیں ہے۔ شاہ جی کہنے لگے کہ یہ کرشمہ کس دوا کے طفیل معرض وجود میں آیا ہے؟ میں نے کہا: مجھے کیا پتا۔ فرمانے لگے: یہ بھی فارم 47 کی برکت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ جب سے فارم 47 کا جادو چلا ہے اور لاہور سے لے کر اسلام آباد تک ان کے خاندان کی حکمرانی کے ڈنکے بجنے شروع ہوئے ہیں وہ ہشاش بشاش ہیں اور مزے کر رہے ہیں۔
اب آخری سوال یہ ہے کہ میاں شہبازشریف کی کمر کا مسئلہ بجلی کے سرکلر ڈیٹ سے بھی زیادہ پرانا اورگمبھیر تھا۔ اب نہ صحت کے مسائل ہیں اور نہ کمر کی تکلیف ہے۔ ملائیشیا‘ تاجکستان‘ بیلاروس‘ متحدہ عرب امارات‘ امریکہ اور سعودی عرب تو مجھے یاد ہیں‘ باقی بھول چوک معاف۔ یہ بھی صرف فارم 47 کا کمال ہے۔ میری تحقیق کا نچوڑ یہ ہے کہ فارم 47 نہ صرف سیاسی اسمِ اعظم ہے بلکہ صحت کے معاملے میں بھی امرت دھارا ہے۔ اگر سرکار اس ملک کے ہر بندے کو فارم 47 جاری کر دے تو کم از کم اس کی صحت کے مسائل ضرور حل ہو جائیں گے۔ صحت کارڈ وغیرہ پر خرچہ کرنے کے بجائے ایک بار پچیس کروڑ فارم 47 چھاپ کر ہر پاکستانی کو جاری کر دیے جائیں‘ صحت وغیرہ کے سلسلے میں ہر طرف '' ستّے خیراں‘‘ ہو جائیں گی۔
اب آپ بتائیں بندہ شاہ جی کی تحقیق کو خواہ وہ کتنی ہی شرپسندانہ کیوں نہ ہو‘ کیسے رد کر سکتا ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں