"KMK" (space) message & send to 7575

باقی دنیا جائے بھاڑ میں

امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسیوں اور ان کے نتیجے میں جاری ہونے والے دھڑا دھڑ قسم کے ایگزیکٹو آرڈرز کے بارے میں دنیا بھر میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے لوگ‘ خواہ وہ ان احکامات سے خود متاثر ہوئے ہیں یا نہیں‘ ان کے ناقد ضرور ہیں۔ دنیا پر ہی کیا موقوف‘ خود امریکہ کے اندر صدر ٹرمپ کی جانب سے جاری ہونے والے اندھا دھند احکامات از قسم امیگریشن پر سختی‘ پیدائشی حقِ شہریت کا خاتمہ‘ ٹیرف کا نفاذ‘ پیشہ ورانہ ویزہ H-1B کی فیس میں سو گنا اضافہ‘ تعلیمی اداروں کی امداد میں کٹوتی‘ عالمی اداروں کی مالی معاونت میں کمی اور سرکاری اداروں میں ڈاؤن سائزنگ وغیرہ پر بے چینی پائی جاتی ہے۔
تارکین ِوطن کی بہت بڑی تعداد صدر ٹرمپ کے ان احکامات کے نتیجے میں حکومتی سختی سے متاثر ہوئی ہے۔ ان میں غالب تعداد جنوبی اور وسطی امریکہ کے ممالک سے امریکہ آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ہے۔ ان غیر قانونی تارکین وطن پر لاگو ہونے والے ان احکامات کے باعث ان لوگوں کو تو جو مشکل اور مصیبت پیش آئی ہے وہ ایک طرف‘ خود امریکیوں کو ان احکامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث خاصی مصیبت کا سامنا ہے۔ خاص طور پر جنوبی علاقوں والی امریکی ریاستوں میں لوگوں کے کاروبار بہت متاثر ہوئے ہیں۔ ان علاقوں کے اکثر گیس سٹیشنوں‘ سروس سٹیشنوں‘ دکانوں‘ گھریلو کام کاج اور تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں کی غالب اکثریت جنوبی اور وسطی امریکہ سے آنے والے تارکین وطن پر مشتمل تھی‘ جو حالیہ حکومتی سختی کے باعث ڈی پورٹ ہوئے ہیں‘ بھاگ گئے ہیں یا وقتی طور پر چھپ گئے ہیں۔ ان سب کا اثر مقامی افراد کے کاروبار پر پڑا ہے اور وہ اپنے صدر کی پالیسیوں پر ناراض ہیں۔ تاہم بہت سے امریکی اسے صدر کی قوم پرستی اور ان صدارتی اقدامات کو وقتی سختی قرار دیتے ہوئے اسے امریکہ کیلئے دور رس نتائج کا حامل قرار دیتے ہیں۔ ان کے حساب سے یہ وقتی مشکلات امریکہ اور امریکیوں کیلئے وہی سنہرا دور واپس لائیں گی جو کبھی امریکہ کی پہچان ہوا کرتا تھا۔
ایک طرف کچھ امریکی دانشور اور ماہرین معاشیات ٹیرف اور امیگریشن پالیسیوں میں سختی کو امریکہ کی معیشت اور امریکیوں کیلئے بہتر قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں ان سختیوں کے نتیجے میں امریکیوں کیلئے بہتر نوکریوں کا حصول آسان ہو جائے گا‘ مہنگی مزدوری کے باعث سستی مزدوری والے ممالک میں منتقل ہونے والی امریکی صنعتیں اور مصنوعات ٹیرف کے باعث امریکہ میں واپس آ جائیں گی اور امریکہ میں صنعتی کارکنوں کی نہ صرف کھپت بڑھ جائے گی اور بیروزگاری کم ہو گی بلکہ ان کی فی گھنٹہ مزدوری میں بہت اضافہ ہو جائے گا۔ دوسری طرف ان اقدامات کے ناقد یہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی ساری ترقی دنیا بھر سے آنے والے ان ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین اور ہنر مندوں کی بدولت ہوئی ہے جو اس ملک کو مواقع کی سرزمین سمجھ کر آئے اور اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ اور تجربہ ڈالا۔ انہی غیر معمولی ذہانت اور اعلیٰ تعلیم سے آراستہ لوگوں نے امریکہ کو نئی شکل اور امریکی صنعتی ترقی کو نئی جہت بخشی۔ اس کیلئے تازہ ترین مثالوں میں ٹیسلا اور سپیس ایکس کے بانی ایلون مسک ہیں‘ جن کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے۔ یہ 1990ء میں پہلے کینیڈا اور پھر 1995ء میں امریکہ منتقل ہو گئے۔ یعنی ایلون مسک کو امریکہ آئے محض تیس سال ہوئے ہیں۔ اسی طرح ایپل کمپنی کے شریک بانی سٹیو جابز کے شامی نژاد والد عبدالفتاح جندلی1950ء کی دہائی میں امریکہ گئے۔ آج امریکہ کی معیشت میں یہ دونوں کمپنیاں کسی دیو کی حیثیت کی حامل ہیں۔ اس وقت ٹیسلا اور سپیس ایکس کی کل مالیت دو ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ایپل کمپنی کے کاروبار کی قدر ٹیسلا اور سپیس ایکس کی مجموعی قدر سے بھی زیادہ ہے اور اس کے اثاثوں کی ملکیت اندازاً ساڑھے تین ٹریلین ڈالر ہے۔ ان تینوں کمپنیوں کی مجموعی مارکیٹ قدر امریکی معیشت کا تقریباً 18 فیصد ہے۔
مجھے یہ باتیں آج اس لیے یاد آئیں کہ کل کے اخبار میں خبر تھی کہ ایک امریکی سفارتکار کو ایک چینی خاتون سے رومانی تعلقات کی وجہ سے نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔ یہ برطرفی صدرِ ٹرمپ کے اس ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ہوئی جس کی رُو سے چین میں موجود ایسے امریکی حکومتی اہلکار جن کے پاس سکیورٹی کلیئرنس ہے‘ وہ کسی چینی شہری کیساتھ رومانی تعلق نہیں بنا سکتے۔ یہ اس سلسلے کی پہلی برطرفی ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اس سلسلے میں اپنا مؤقف دیا ہے کہ یہ قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے خلاف ورزی تھی اور جو اہلکار ایسی خلاف ورزی کرے گا اس کے خلاف ''زیروٹالرنس پالیسی‘‘ اپنائی جائے گی۔ اس سلسلے میں کسی حکومتی اہلکار کو کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ امریکی صدر کا حکم نامہ کہتا ہے کہ اگر پہلے سے کوئی تعلق ہو تو اسے رپورٹ کرنا ہوگا یا استثنا حاصل کرنا ہوگا۔ اگر اجازت نہ ملے تو تعلق ختم کرنا پڑے گا یا عہدہ چھوڑنا ہوگا۔
امریکی صدر کے احکامات اور امریکی سفارتی آفیسر کی برطرفی سے مجھے یاد آیا کہ گزشتہ سال سینیٹ آف پاکستان کے ایک افسر کو جنیوا میں ہونے والی بین الاقوامی پارلیمانی یونین کے اجلاس میں شرکت کیلئے نامزد کیا گیا۔ اس افسر نے اس اجلاس میں شرکت کیلئے وزارتِ خارجہ سے اپنے لیے نوٹ وربل جبکہ اپنی اہلیہ اور بچوں کیلئے وزارتِ خارجہ سے تعارفی خط حاصل کیا اور اپنے اہلِ خانہ سمیت مارچ 2024ء میں اجلاس میں شرکت کیلئے روانہ ہو گیا۔ موصوف خود تو واپس آ گئے مگر ان کے اہلِ خانہ نے ایک یورپی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست دے دی اور واپس نہیں آئے۔
وزارتِ خارجہ نے اس افسر کی تیسری بیوی‘ جو سینیٹ ہی میں آپریٹر کے طور پر ملازم تھی‘ کی سیاسی پناہ حاصل کرنے کی تصدیق کر دی۔ وہ افسر سینیٹ کے سابق چیئرمین صادق سنجرانی کا قریبی دوست بتایا جاتا ہے۔ سیاسی پناہ حاصل کرنے کیلئے ظاہر ہے کوئی معقول یا نامعقول جواز تو دینا پڑتا ہے جو حکومتِ وقت کے خلاف ایک چارج شیٹ کی صورت میں ہوتا ہے جس کے مطابق درخواست گزار کو اپنے ملک میں جان اور عزت و آبرو کا خطرہ لاحق ہوتا ہے اور اس کیلئے وہاں رہنا مکن نہیں ہوتا۔ خاوند اعلیٰ سرکاری افسر ہے اور اسکی بیوی اور بچے سرکاری وفد میں شامل اپنے شوہر اور والد کے سرکاری پروٹوکول میں یورپ پہنچنے کے بعد کہتے ہیں کہ پاکستان میں انکی جان کو خطرہ ہے اور انہیں جان بچانے کیلئے اس ملک میں پناہ دی جائے۔ مذکورہ افسر کا ''ٹبر‘‘ یورپ میں پناہ گزین ہو گیا۔ وہ خود واپس آکر اپنی عزت دار نوکری میں مصروف ہو گیا تاکہ بعد از ریٹائرمنٹ اپنے سارے سرکاری مالی فوائد بمعہ پنشن و پراویڈنٹ فنڈ وغیرہ حاصل کر سکے اور پھر یورپ میں اپنے بچھڑے ہوئے خاندان کیساتھ ری یونین کے مزے لے سکے۔ ہماری وزارتِ خارجہ نے ریاست کی اس ذلت کا حل یہ نکالا کہ آئندہ کیلئے اس قسم کا سفارتی سفارشی خط جاری کرنے پر پابندی لگا دی۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
اگلی بار کوئی نیا افسر کوئی نیا ٹوٹکا نکال کر اپنے اہلِ خانہ کو باہر نکال کر لے جائے گا۔ وزارتِ خارجہ کوئی نیا تنبیہی خط جاری کر دے گی۔ وہ افسر واپس آکر اپنی باعزت نوکری شروع کر دے گا تاکہ ریٹائر ہو کر اپنے خاندان سے ری یونین کی مسرت حاصل کرے۔ جب میں گریڈ سترہ سے گریڈ بائیس کے 2200 کے لگ بھگ اعلیٰ سرکاری افسروں کی دہری شہریت کے ساتھ ریاست پاکستان کے مفادات کی نگرانی میں مصروف پاتا ہوں تو مجھے امریکی صدر ٹرمپ نہ صرف یاد آتا ہے بلکہ اچھا بھی لگتا ہے اور دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی کوئی ٹرمپ عطا کرے جو اس ملک کے بارے میں سوچے۔ باقی دنیا جائے بھاڑ میں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں