"KMK" (space) message & send to 7575

ملک اٹکل پچو پر چل رہا ہے

تضادات‘ مفادات‘ مصلحت پسندی اور منافقت کے درمیان عرصہ دراز سے پھنسی ہوئی یہ ریاست نہ تو اپنے نام کے پہلے حصے کی لاج رکھتے ہوئے اسلامی بن سکی اور نہ ہی اپنے نام کے دوسرے حصے کا پاس کرتے ہوئے جمہوری ہی بن سکی۔ اسلامی بننے کی پہلی شرط کردار میں بہتری سے جڑی ہوئی ہے اور جمہوریت کی بنیادیں دستور پر عمل کرنے سے مشروط ہیں۔ میں کیا کہوں‘ سب کچھ آپ کے سامنے ہے اور صاف دکھائی دے رہا ہے۔
ملک فی الوقت اٹکل پچو پر چل رہا ہے۔ یہ اٹکل پچو کیا ہوتا ہے؟ اس کا مفہوم سمجھنے کیلئے صرف یہی کافی ہے کہ جس طرح ملک چل رہا ہے اسے اٹکل پچو سے چلانا کہتے ہیں۔ میں آج سے چار روز قبل لاہور سے ملتان کیلئے روانہ ہونے لگا تو موٹروے پر جانے کیلئے بابو صابو اور ٹھوکر کا راستہ بند تھا۔ معلوم ہوا کہ ایک مذہبی جماعت فلسطین کے مسئلے پر حکومتی بے حسی کو جواز بنا کر اسلام آباد پر چڑھائی کرنے میں مصروف ہے اور اس حکومت نے بھی‘ ہر حکومت کی طرح‘ اس کا حل یہ نکالا ہے کہ جی ٹی روڈ‘ موٹروے‘ موبائل سروس‘ میٹرو اور اورنج ٹرین کو بند کر دیا جائے۔ یعنی جن کو بند کرنا ہے وہ تو کھلے پھریں اور جن کو مذہب اور آئین آزادی سے نقل وحرکت کی ضمانت دیتا ہے ان کو بند کر دیا جائے۔
حیرانی کی بات یہ تھی کہ یہ احتجاج عین اس وقت ہو رہا تھا جب خود فلسطینی دو سال کی ابتلا سے گزر کر جنگ بندی تک پہنچ گئے تھے اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے والی فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم حماس جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کر چکی تھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ سارے سرفروش اور فلسطین کیلئے مر مٹنے کے دعویدار عوام کو تنگ وپریشان کرنے کے بجائے صمود فلوٹیلا میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر فلسطینیوں کیلئے ضروریاتِ زندگی اور خوراک پہنچانے کی کوشش کرتے۔ کیا لطف کی بات ہے کہ فلسطینیوں کی مدد کیلئے صمود فلوٹیلا میں شریک رضاکاروں کی غالب اکثریت غیر مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے کفار پر مشتمل تھی اور اہلِ ایمان اسلام آباد پر چڑھائی کرکے دیگر اہلِ ایمان کیلئے باعثِ پریشانی بن رہے تھے۔ اس سارے عمل سے اسرائیل کو رتی برابر نہ تو نقصان پہنچا اور نہ ہی مجبور اور مقہور فلسطینیوں کو کوئی فائدہ ہوا۔ ہاں البتہ ہزاروں لاکھوں اُن پاکستانیوں کو تکلیف ضرور ہوئی ہے جن کے دل فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
میں نے کہا کہ یہ ملک نہ اسلامی شکل میں ڈھل سکا اور نہ ہی جمہوری دستوری ملک کی شرائط پر پورا اتر سکا۔ اب صورتحال آپ کے سامنے ہے‘ جس جتھے کا دل کرتا ہے وہ سڑکیں بند کردیتا ہے جس گروہ کے جی میں آتی ہے وہ دھرنا دے کر شہریوں کو گھروں میں پابند کر دیتا ہے‘ جس زورآور کا زور چلتا ہے وہ شہر کی زندگی مفلوج کر دیتا ہے۔ سرکار پہلے بڑھکیں مارتی رہتی ہے اور جب موقع آتا ہے تو سڑکوں پر کنٹینرز لگا کر پہلے سے تنگ وپریشان عوام کو پریشانی کی آخری حد تک پہنچا دیتی ہے۔ دو تین دن کی ذلت ورسوائی کے بعد وزارتِ داخلہ سے لے کر مرکزی اور صوبائی حکومتیں ان سے کسی قسم کا سمجھوتا کرنے یا گروہی طاقت سے بلیک میل ہو کر ان کے سامنے نہ جھکنے کے دعووں کے فوراً بعد احتجاج کرنے والوں سے مذاکرات کے نتیجے میں ان کے وہ مطالبات بھی تسلیم کر لیتی ہے جنہیں کوئی معقول ریاست ماننے یا پورا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ تاہم سرکار مطالبات تسلیم کر لیتی ہے اور احتجاج کرنے والے چار چھ روز کا ایڈونچر کرکے اپنے مطالبات تسلیم کروانے کی خوشی میں واپس آ جاتے ہیں۔ بعد میں کسی کو یاد نہیں رہتا کہ ان مطالبات کا کیا بنا۔ ہاں البتہ ان چار چھ دن مسلسل ذلیل وخوار ہونے والے عوام کو ضرور یاد رہتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا بیتی تھی۔
عام آدمی کا کیا ذکر کریں؟ ادھر مذہب کی نام لیوا دینی جماعتوں کو بھی احساس نہیں کہ ہمارا دین اس سلسلے میں کیا کہتا ہے اور راستوں کی بندش کے بارے میں رسول اکرمﷺ کا کیا فرمان ہے۔ ایک غزوہ کے سلسلے میں لشکر روانہ ہوا تو راستے میں بعض اصحاب نے خیمے لگاتے ہوئے گزرگاہ کو بھی استعمال کر لیا۔ حضور اکرمﷺ تک جب یہ بات پہنچی کہ تو آپﷺ نے ایک صحابی کو یہ ہدایت کی کہ وہ اس جگہ پر جا کر اللہ کے رسول کی طرف سے اعلان کریں کہ راستے میں بندش کا باعث بننے والے خیموں کو اکھاڑ کر راستے کو کشادہ کر دیں۔ جو لوگ مسافروں اور گزرنے والوں کیلئے باعثِ آزار بن رہے ہیں اللہ کی راہ میں ان کا جہاد قبول نہیں ہوگا۔ اندازہ کریں کہ جہاد کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے میدانِ جنگ کی جانب گامزن مجاہدین کو وارننگ دی گئی کہ وہ لوگوں کے راستے بند نہیں کر سکتے اور اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کا جہاد قبول نہیں کرے گا۔ ادھر یہ عالم ہے کہ محض لوگوں کو جہاد پر اُکسانے والے کئی کئی دن تک عوام کی آمدورفت کو مکمل بند کرکے‘ شہریوں کی زندگی مفلوج کرکے اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ان کا یہ اقدام اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی کا موجب ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ''راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا بھی صدقہ ہے‘‘ (بخاری ومسلم)۔ حضور کریمﷺ نے مزید فرمایا ''راستوں پر مت بیٹھو‘‘۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! ہم تو بیٹھنے کے بغیر بات نہیں کر سکتے۔ آپﷺ نے فرمایا ''اگر تمہیں بیٹھنا ہی ہے تو راستے کا حق ادا کرو‘‘۔ قرآن مجید میں سورۃ البقرہ آیت: 114 میں ہے کہ ''اور اللہ کے راستے روکنے والے ظالم ہیں‘‘۔ اس آیت کا مفہوم بہت وسیع ہے اور ہر وہ عمل جو لوگوں کو خیر‘ امن‘ بھلائی‘ عبادت یا روز مرہ کی ضرورت تک پہنچنے سے روکے ظلم ہے۔ اس دوران مریض‘ بیمار‘ دیہاڑی دار اور ضرورت مندوں کو جس تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
لاہور سے ملتان پہنچنا بھی ایک عذاب لگ رہا تھا۔ مانگا منڈی تک پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔ راستے میں پھولنگر کے ٹول پلازے پر ایک غدر مچا ہوا تھا۔ کئی فرلانگ لمبی قطاروں نے ساری ٹریفک بلاک کر رکھی تھی۔ اصل مصیبت میاں چنوں ٹول پلازے سے شروع ہوئی۔ ملتان سے لاہور جانے والی بھاری ٹریفک کو میاں چنوں ٹول پلازے پر روک رکھا تھا۔ بلامبالغہ سینکڑوں ٹرکوں کی تین رویہ قطاروں نے چھ سات کلومیٹر تک سڑک کو پارکنگ میں تبدیل کر دیا تھا اور سارے ٹرک وٹرالر ساکت تھے اور ان کے ڈرائیور اور دوسرا عملہ سڑک پر چادریں بچھائے بیٹھا تھا۔ اس مصیبت سے نکلنے میں دو گھنٹے لگ گئے تو شکر ادا کیا‘ مگر ابھی ایک اور آزمائش باقی تھی۔ کچا کھوہ سے COD خانیوال تک کئی کلومیٹر تک ایک اور عظیم الشان ٹریفک بلاک تھا اور عقل یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ لاہور سے اڑھائی سو کلومیٹر دور راستے بند کرنے کی کیا تُک تھی؟
اسلامی حوالوں سے ہٹ کر اگر اس ریاست کی جمہوری اساس یعنی آئین کو دیکھیں تو آئین پاکستان کا آرٹیکل 15 اس ریاست کے شہریوں کو آزادانہ نقل وحرکت کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت ہر شہری کو پاکستان کے اندر آزادانہ نقل وحرکت کرنے‘ کسی بھی مقام پر رہنے اور آباد ہونے کا حق حاصل ہے‘‘۔ مجھے اور دیگر لاکھوں شہریوں کو آئین میں دیے گئے حق سے محروم کرنا آئین کی خلاف ورزی اور روگردانی ہے۔ آئین میں دیے گئے حقوق کو غصب کرنا آئین سے انکار کے مترادف ہے۔ میرے آئینی حقوق کی پامالی غداری نہ سہی تو بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے۔ ریاست میرے اس حق کی ضامن ہے مگر صرف آئین میں تحریر کی حد تک۔ نہ اس ملک میں اسلامی اقدار اور احکامات کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی آئین کی۔ ریاست تضادات‘ مفادات‘ مصلحت پسندی اور منافقت کے بیچوں بیچ پھنسی ہوئی ہے اور ملک اٹکل پچو سے چل رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں