طبیعت چند روز سے مکدر ہے۔کچھ دن قبل اخبار میں خبر دیکھی کہ گورنمنٹ گریجوایٹ کالج کھاریاں کے پرنسپل کو ڈائریکٹر کالجز نے ایک عدد شو کاز یعنی اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ بیچارے بھولے پرنسپل کا قصور یہ تھا کہ اس نے پنجاب حکومت کی کارکردگی سے متاثر ہو کر بالکل مفت‘ بلا معاوضہ اور رضاکارانہ جذبے سے معمور ہو کر کالج کی سرکاری عمارت پر قومی پرچم کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب کی تصویر والا ایک پرچم لہرا دیا تھا۔میں نے بعد ازاں اس 'جرم‘ پر مبنی حرکت کی تصویر دیکھی تو مجھے پرنسپل کی اس حرکت پر غصہ یا افسوس آنے کے بجائے الٹا اس کی دانائی اور پرچموں کے بارے میں طے کردہ ترجیحات پر خوشی ہوئی کہ موصوف نے پاکستان کا قومی پرچم نہایت عزت واحترام کے ساتھ درمیان میں جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی تصویر پر مشتمل پرچم اس کے ایک جانب ضمنی پرچم کے طور پر لگایا تھا۔ حالانکہ اس کے مقابلے میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے مبینہ طور پر اپنے غیر سرکاری دفتر میں قائداعظم کی تصویر سائیڈ میں جبکہ قائد عوام کی تصویر درمیان میں مرکزی حیثیت سے لگا رکھی ہے۔ اس حوالے سے پرنسپل گریجوایٹ کالج کھاریاں کی قومی ترجیحات بہرحال صدرِ پاکستان سے کہیں بہتر تھیں۔ بجائے اس کے کہ انہیں کسی تمغے وغیرہ سے نوازا جاتا محض سوشل میڈیا پر تصویر وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا دیکھنے والے فارغ البال قسم کے لوگوں کے تبصروں سے گھبرا کر سرکار نے شو کاز نوٹس پکڑا دیا ہے۔
ساری دنیا کو معلوم ہے کہ فی الوقت پاکستانی سوشل میڈیا پر کس کس کے خلاف کیا کچھ چل رہا ہے اور یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اس وقت پاکستانی سوشل میڈیا پر کس پارٹی کے ہمہ وقت مصروفِ عمل سوشل میڈیا ایکٹوسٹ لوگوں کا غلبہ اور کنٹرول ہے۔ اب ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لیا گیا تو پھر وزیراعظم سے لے کر وزیر اطلاعات تک اور حوالدار سے آئی جی تک کو بھی کم از کم شو کاز نوٹس تو جاری کرنا پڑ جائے گا۔ ویسے تو کئی عہدے مذکورہ عہدوں سے کہیں زیادہ زد میں آئے ہوئے ہیں مگر آپ سمجھدار ہیں اس لیے عقلمند کو اشارہ ہی کافی ہے۔ جس طرح کسی زمانے میں لکھا جاتا تھا کہ خط کو تار سمجھیں، تو آپ بھی اس خط کو بس تار ہی سمجھیں۔
اب بندہ سوشل میڈیا کی خبروں پر کیا اعتبار کرے؟ آج سے قریب پونے دو سو سال قبل نہایت زیرک، مستقبل بین اور دور اندیش شاعر غالب نے جو شعر لکھا وہ گویا کہ قدرت کی وزارتِ اطلاعات، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ریگولیٹری اتھارٹیوں پر سیدھا سیدھا عدم اعتماد تھا۔ پہلے شعر دیکھیں:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
بقول ایک غالب شناس انقلابی دوست کے‘ دراصل غالب فرشتوں کی آڑ لے کر ہندوستان میں گورا راج کے مخبروں، انگریزوں کے پھٹوؤں، دربارِ دہلی کے جاسوسوں اور اپنے حاسدوں کی جانب سے ادھر ادھر کی لگائی بجھائی کے بارے میں اس شعر میں اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ چچا غالب دراصل اس شعر میں فرشتوں کو بطور استعارہ یا ڈھال استعمال کر رہے ہیں، اُن کا اصل مخاطب وہ سارا نظامِ مخبری و جاسوسی ہے جس کی بنیاد پر یکطرفہ احتساب اور سزا و جزا کا سلسلہ چل رہا تھا۔ آپ یوں سمجھیں کہ اس شعر میں انہوں نے مستقبل کے سارے سسٹم کو بے نقاب کرتے ہوئے اس پر نشتر زنی کی ہے۔ پونے دو سو سالہ قدیم یہ شعر آج کے سوشل میڈیا‘ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ‘ پیمرا‘پیکا ایکٹ‘ سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی اور تحریر و تقریر میں بغاوت اور شر پسندی کی بُو سونگھنے پر مامور اداروں اور محکموں کے بارے میں غالب کی پیش بینی‘ دور اندیشی‘ بصیرت مندی‘ وسیع النظری اور مستقبل کو اندر کی آنکھ سے دیکھنے کی صلاحیت کو واضح کرتا ہے۔
شاہ جی کا خیال ہے کہ ڈائریکٹر کالجز نے پرنسپل موصوف کو صرف اس بنا پر شوکاز نوٹس بھیجا ہے کہ اس کے ماتحت کے ذہن رسا کو ایسا نادر و نایاب خیال کیسے آ گیا جو اس کے اپنے ذہن میں نہیں آیا تھا۔ وگرنہ وہ ڈائریکٹریٹ آف کالجز کی عمارت پر یہ پرچم لہرا کر اپنے نمبر بنا لیتا۔ یہ شو کاز نوٹس دراصل اس حسد اور بغض کی نشاندہی کرتا ہے جو خود ڈائریکٹر کالجز کے ذہن میں ایسا خیال نہ آنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ وگرنہ بھلا سرکاری عمارت پر وزیراعلیٰ کی تصویر والا پرچم لہرانا کون سا انوکھا جرم ہے جس کی بنیاد پر پرنسپل کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے؟ ہاں! البتہ پرنسپل کا یہ جرم ضرور قابلِ مواخذہ ہے کہ انہوں نے یہ کام بالکل مفت میں کردیا۔
میں خوش گمان آدمی ہوں اور پرنسپل صاحب کے بارے میں بھی اپنے اسی مثبت جذبے کے پیش نظر خیال کرتا ہوں کہ انہوں نے ہزار پانچ سو روپے کی قیمت والا یہ پرچم پنجاب حکومت سے اپنی محبت کے طفیل پلے سے خرید کر لگایا ہوگا۔ بفرضِ محال اگر انہوں نے یہ پرچم سرکاری خرچے سے بھی خرید لیا تو کون سا اس پر اپنے کسی بزرگ یا عزیز کی تصویر لگائی تھی۔ اور یہ تصویر بھی بھلا کسی سرکاری دفتر یا عمارت پر کون سی پہلی مرتبہ لگی ہے؟ ادھر ملتان میں سستے بازار کے سرکاری سٹالوں سے لے کر ہر بنیادی مرکز صحت تک اور کوڑا اٹھانے والے محکمے کے دفتر سے لے کر کمشنر کے دفتر تک ہر جگہ وزیراعلیٰ پنجاب کی تصویریں جگمگا رہی ہیں۔ کالج کی عمارت پر کون سا مارشل لاء لگا ہوا تھا کہ وہاں اس تصویر والا پرچم نہیں لہرایا جا سکتا؟
عالم یہ ہے کہ جب سے مریم نوازشریف نے وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالا ہے پنجاب میں ہر منصوبے پر ان کی یا ان کے والد گرامی کی تصویر اور نام چسپاں ہو رہا ہے۔ صوبے میں صحت کے بنیادی مراکز جو پہلے بیسک ہیلتھ یونٹ یعنی BHUکہلاتے تھے ان کا نام بتدریج تبدیل کرکے مریم نواز ہیلتھ کلینکس(MNHCs) کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ مراکز ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے قائم تھے۔ صوبے میں کل 971 کے لگ بھگ ان بنیادی مراکز صحت میں سے 150 کے لگ بھگ کے نام تبدیل کرکے ان پر وزیراعلیٰ پنجاب کی تصویریں لگا دی گئی ہیں۔ سرکاری عمارات پر یہ تصویریں کیونکہ خود ان کے حکم سے لگی ہیں اس لیے ان کو کسی نے شو کاز نوٹس نہیں بھجوایا۔بقول شاہ جی دراصل ان کے اوپر کوئی ڈائریکٹر وزرائے اعلیٰ ٹائپ سپر باس موجود نہیں‘ وگرنہ وزیراعلیٰ کو سرکاری عمارات پر اپنی تصویریں لگوانے، نام تبدیل کرنے اور ہر نئے منصوبے کو اپنے یا اپنے والد گرامی کے نام معنون کرنے پر ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ شوکاز نوٹس جاری ہو چکے ہوتے۔
شاہ جی بار بار اس بات پر زور دے رہے تھے کہ پرنسپل صاحب کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے یہ کام مفت میں یا سستا کر دیا ہے اس لیے ان پر عتاب نازل ہو رہا ہے وگرنہ یہی پرچم والی تصویر وہ اخبار میں چھپوا دیتا تو اس کی بہہ جا، بہہ جا ہو جاتی۔ جب سے مریم نواز نے پنجاب کی وزارتِ علیہ سنبھالی ہے ہر طرف کمپنی کی مشہوری چل رہی ہے۔ حکمرانوں کی ترجیحات میں عوام کے حقیقی مسائل اور ان کے حل ہونے کی باہمی نسبت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ انور مسعود صاحب کا ایک قطعہ اس کی مکمل عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ انور مسعود صاحب کا قطعہ پڑھیں اور لطف لیں:
ہیر نکلی جس گھڑی رانجھے کے سنگ
اس کا ماما آن ٹپکا خواہ مخواہ
چل رہے تھے اشتہار اچھے بھلے
اک ڈرامہ آن ٹپکا خواہ مخواہ