گزشتہ کالم میں کچھووں کے موٹروے پر سفر اور اسے پار کرنے کی کوشش سے قدرت کے اس نظام کا خیال آیا جس کے تحت جانور حیرت انگیز ہجرت کرتے ہیں۔ مجھے علم نہیں کہ یہ کچھوے قدرت کی عطا کردہ کس حس یا جبلت کے تحت موٹروے پار کرنے کی مشکل اور جان لیوا ہجرت پر روانہ ہوتے ہیں لیکن دنیا میں بہت سے جانور سالانہ‘ موسمی یا جغرافیائی حالات کے باعث ہجرت کرتے ہیں اور ان کی صدیوں سے جاری یہ ہجرت اپنے اندر ایسے اسرار رکھتی ہے کہ جوں جوں غور کرتے جائیں آنکھیں حیرت سے پھٹ جاتی ہیں اور عقل بے بس پڑ جاتی ہے کہ کس طرح گوگل‘ جی پی ایس اور ستاروں کی گردش سے لاعلم یہ جانور کس درستی کیساتھ اپنا سفر کرتے اور اس سارے سفر میں نہ وہ گم ہوتے ہیں اور نہ ہی راستہ بھولتے ہیں‘ حتیٰ کہ اگلے سال ان کے وہ ہم نسل جانور جو گزشتہ سال کے سفر میں ابھی اس دنیا میں ہی نہیں آئے تھے‘ وہ بھی اَن دیکھی زمینوں کی طرف اسی طرح رواں ہو جاتے ہیں جس طرح ان کے آباؤ اجداد صدیوں سے اس نہ ختم ہونے والی ہجرت میں مصروف ہیں۔
روس کے برف زاروں سے نسبتاً گرم پانی کی طرف سالانہ ہجرت کرنے والے آبی پرندے از قسم مرغابیاں‘ کونجیں‘ مگھ‘ سرخاب اور اسی طرح کے دیگر پرندے دریائے سندھ کے بہاؤ کے ساتھ ہزاروں کلومیٹر کا سفر کر کے سندھ کی آخری جھیل تک پہنچ جاتے ہیں۔ سب سے لمبی ہجرت کا تمغہ محض آدھا کلوگرام سے بھی کم وزن رکھنے والے پرندے بارٹیلڈ گوڈوِٹ (Bar-tailed godwit) کو جاتا ہے۔ عام حالات میں تقریباً تین سو گرام وزن کا یہ پرندہ اپنا سفر شروع کرنے سے قبل اپنے اندر زائد چربی جمع کرتا ہے‘ جس سے اس کا وزن چھ سو گرام تک بڑھ جاتا ہے۔ پھر یہ پرندہ الاسکا یا ٹنڈرا کے سرد میدانوں سے اپنا سفر کرتا ہے اور بغیر رکے مسلسل دس گیارہ روز تک اڑتا ہوا نیوزی لینڈ یا اس سے بھی آگے تک سفر کرتا ہے۔ اس پرندے کی بغیر رکے طویل ترین پرواز کا ریکارڈ 11ہزار 360 کلومیٹر ہے جو گیارہ دن ایک گھنٹے میں طے ہوا۔ سفر کے انجام پر اس پرندے کا وزن تقریباً نصف رہ جاتا ہے۔ اس سفر کے دوران نہ یہ پرندہ کہیں رکتا ہے‘ نہ کھاتا ہے اور نہ ہی سوتا ہے۔ یہ پرندہ اس ناممکن کو ممکن اس طرح بنا لیتا ہے کہ قدرت نے اسے بیک وقت دو دماغ عطا کیے ہیں۔ دورانِ سفر تھک کر جب اس کا ایک دماغ آرام کرنے کیلئے سوتا ہے تو اس کا دوسرا دماغ جاگ جاتا ہے اور اس طرح یہ پرندہ جس کی طویل ترین پرواز کا روٹ امریکی ریاست الاسکا سے شروع ہو کر آسٹریلیا کے دور افتادہ جزیرے تسمانیہ پر ختم ہوتا ہے‘ اپنا سفر مکمل کرتا ہے۔ یہ پرندے ہر سال ہزاروں میل کا سفر کرکے اپنی ہجرت مکمل کرتے ہیں اور ان کی یہ ہجرت صدیوں سے جاری ہے۔
سب سے بڑی تعداد میں ہجرت کرنے والے جاندار کا ذکر کریں تو وہ میکسیکو سے ہر سال ہجرت کرنے والی چھوٹی سی مونارک تتلی ہے۔ یہ شمالی امریکہ سے میکسیکو اور پھر وہاں سے کیلیفورنیا تک ہر سال ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہیں تاکہ سردیوں کے دوران اپنی سہولت اور پسند کے رہنے کے مقام تک پہنچ سکیں۔ موسم خزاں میں یہ تتلیاں جنوب کی جانب اور موسم بہار میں شمال کی جانب سفر کرتی ہیں اور سب سے حیرت انگیز بات ہے کہ ہجرت کرنے والی کسی بھی تتلی نے اپنی زندگی میں یہ سفر پہلے نہیں کیا ہوتا۔ کسی بھی تتلی کو اس راستے پر سفر کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ مونارک تتلیوں کی یہ گریٹ مائیگریشن تقریباً تین ماہ کے دورانیے پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ تتلی کی اپنی عمر محض چند ہفتے ہوتی ہے۔ یعنی اس مائیگریشن کے دوران تتلیوں کی کئی نسلیں پیدا بھی ہوتی ہیں اور راستے میں ختم بھی ہو جاتی ہیں۔ ہر پیدا ہونے والی تتلی اپنا سفر وہیں سے آگے شروع کر دیتی ہے۔ اگست سے نومبر کے دوران تین ماہ میں بعض تتلیاں 4800 کلومیٹر تک کا سفر کرتی ہیں۔ بہار میں ان تتلیوں کی ہجرت مارچ میں شروع ہوتی ہے اور جون میں مکمل ہوتی ہے۔ یہ تتلیاں راستے میں انڈے دیتی جاتی ہیں جن سے جنم لینے والی تتلیاں اُسی جانب سفر شروع کر دیتی ہیں جس طرف ان کی پہلی نسل جا چکی ہوتی ہے۔ اس ہجرت میں یہ تتلیاں راستہ تلاش کرنے اور اپنا سفر مکمل کرنے کیلئے مقناطیسی قوت‘ سورج کا رخ اور غریزی نظام کے تابع رہتے ہوئے اپنا مشن مکمل کرتی ہیں۔ اندازاً ہر سال دس کروڑ کے لگ بھگ مونارک تتلیاں اس ہجرت میں حصہ لیتی ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں یہ تعداد چالیس سے پچاس کروڑ ہوا کرتی تھی۔ یہ مسافر قدرت کے مظاہر میں سے ایک اس مظہر کو آنکھوں سے دیکھنے کا متمنی بھی ہے اور اپنے مالک کی سدا سے میسر مہربانی کے طفیل پُریقین ہے کہ کسی روز وہ اس حیران کن ہجرت کو دیکھے گا۔
اسی قسم کی ہجرتوں میں دو اور ہجرتیں بھی ہیں جن میں لاکھوں جانور ہر سال ہزاروں کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے اپنے آپ کو موسم کی سختیوں سے بچانے اور خوراک کے حصول کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہیں۔ برفانی علاقوں یعنی سائبیریا‘ کینیڈا اور الاسکا میں ہجرت کرنے والے caribou (رینڈیئر)کی ہجرت بھی ہزاروں کلو میٹر پر مشتمل ہوتی اور کئی بڑے بڑے گلے‘ جن کی تعداد ہزاروں سے لے کر لاکھوں تک ہوتی ہے‘ اس میں مختلف مقامات سے شامل ہوتے ہیں۔ اس ہجرت کے دوران وہ دنیا میں کسی چوپائے کی طویل ترین ہجرت کا ریکارڈ بناتے ہوئے 5000 کلومیٹر تک کا سفر کرتے ہیں۔ کبھی ہجرت کرنے والے کیری بو کی کل تعداد کروڑوں میں تھی‘ جو اَب کم ہوتے ہوئے پچیس تیس لاکھ کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔ ان کی ہجرت کے دوران راستے میں منتظر شکاری بھیڑیے بھی اپنی خوراک کا بندوبست کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف راستے ہی میں نئے بچے جنم لیتے ہیں جو نظام قدرت میں اس جانور کی تعداد کو متوازن رکھتے ہیں تاہم ان کی تعداد میں مسلسل کمی کا باعث برفانی بھیڑیے نہیں بلکہ حضرت انسان ہے جس نے ان جانوروں کے رہنے کا قدرتی ماحول برباد کر دیا ہے۔ ان کی خوراک کی پیداوار کے علاقے کم ہو رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی نے ایسی تباہی پھیری ہے کہ خدا کی پناہ۔ ابھی اس سے جانور متاثر ہو رہے ہیں اور انسان مطمئن ہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب اس کا براہِ راست اثر خود انسانوں کو بھوک اور قحط کی جانب لے جائے گا۔ خصوصاً ان ملکوں اور قوموں کو جن کو اس کا احساس ہی نہیں اور انہوں نے اس کو ابھی تک سنجیدگی سے بھی نہیں لیا۔ ہم ایسی ہی قوموں میں شمار ہوتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے ہماری فصلوں کا سارا پیٹرن‘ پیداوار اور معیار برباد ہو رہا ہے مگر تبدیل شدہ موسموں کے مطابق بیجوں کی تیاری اور آنے والے وقت میں پانی کی کمی سے نپٹنے کی کوئی سنجیدہ کوشش دور دور دکھائی نہیں دے رہی۔
دنیا میں خطروں سے بھری ہوئی جو ہجرت سب سے زیادہ شہرت یافتہ ہے وہ تنزانیہ اور کینیا کے درمیان سرنگیٹی سے مسائی مارا والی ہجرت ہے‘ جس میں وائلڈ بیسٹ‘ زیبرے‘ گرانٹ غزیل اور ایلینڈ شامل ہوتے ہیں۔ اس ہجرت کو دیکھنے کیلئے دنیا بھر سے لاکھوں سیاح جگہ جگہ اس کا نظارہ کرتے ہیں۔ اس ہجرت کا سب سے خطرناک حصہ وہ ہے جب لاکھوں کی تعداد میں رواں یہ جانور راستے میں دریائے مارا اور دریائے گرومیٹی کو عبور کرتے ہیں اور ان دونوں دریاؤں میں ہزاروں بھوکے مگرمچھ ان کا شکار کرتے ہیں۔ راستے میں دوسرے شکاری جانورجیسے ببر شیر‘ لگڑبگے‘ افریقی جنگلی کتے اور چیتے ان کے علاوہ ہیں۔ یہ شکار اور شکاری کی ایسی داستان ہے جو اس دنیا میں ازل سے جاری ہے اور ابد تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ رہے نام اللہ کا!
دعا کیجئے کہ یہ مسافر آئندہ سال اس تجربے کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور آپ کو اس میں اپنا حصہ دار بنائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: قل سیروا فی الارض فانظروا (العنکبوت: 20) ان سے کہو کہ زمین پر چلو پھرو اور دیکھو۔