قارئین اس کالم کے آغاز ہی میں آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ میں اس کالم میں پہلے سے لکھا ہوا ایک قصہ دہرانے لگا ہوں اور اس کی واحد اور معقول وجہ یہ ہے کہ کسی بھی موقع کی مناسبت سے درست صورتحال کے مطابق واقعے کو ایک سے زائد بار لکھا اور دہرایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم وہی پرانے محاورے لاتعداد بار استعمال کرنے کے باوجود دوبارہ دوبارہ استعمال کر سکتے ہیں تو بھلا کوئی واقعہ کسی نئی صورتحال کے حوالے سے دوبارہ کیوں نہیں لکھا جا سکتا؟ پرانی صورتحال پر نیا واقعہ یا نئی صورتحال پر پرانا واقعہ بیان کرنے کا بالکل جواز بنتا ہے‘ سو اسی جواز کو جواز بنا کر میں ایک پرانا واقعہ لکھ رہا ہوں۔
کسی گائوں میں ایک تھیٹر آیا ہوا تھا۔ ویسے تو اب تھیٹر وغیرہ از خود متروک شے ہو چکے ہیں مگر میری جنریشن کے لوگوں کو کم از کم تھیٹر کے نام اور اس کی ثقافتی حیثیت کے بارے میں سمجھانے کی نوبت نہیں آئی۔ ہاں! البتہ نئی نسل کو اس سے درست قسم کی آگاہی نہیں ہے۔ نئی نسل کے نزدیک تھیٹر سے مراد شہروں کے مختلف ہالز میں ذومعنی جگتوں اور واہیات قسم کے ڈانس پر مشتمل ایسا شو‘ جسے آپ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہ دیکھ سکیں اور جسے سرکار کی طرف سے متعین کردہ مانیٹرنگ ٹیم بھی درست راستے پر نہ ڈال سکے‘ تھیٹر کہلاتا ہے مگر بھلے زمانے میں یہ تفریح فراہم کرنے کا ایک موبائل ذریعہ تھا جس میں تھیٹر کی ٹیم شہر شہر‘ قصبہ قصبہ‘ گائوں گائوں تقریباً سارا سال گھومتی رہتی تھی۔ یہ تھیٹر گانوں‘ ڈراموں اور تمثیلی خاکوں پر مشتمل ایسی تفریح کا ذریعہ تھے جو آپ اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے تھے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ تھیٹر بنیادی چیز ہوتا اور اس کے ساتھ اضافی تفریح کی غرض سے موت کا کنواں وغیرہ بھی لگ جاتا تھا اور کبھی تھیٹر کسی میلے کا حصہ ہوتا تھا اور میلے کی ساری رونقوں میں اس کا اہم کردار ہوتا تھا۔ تاہم اکثر اوقات یہ تھیٹر سولو پرفارمنس یعنی صرف اور صرف تھیٹر پر مشتمل ہوتے تھے اور یہ زیادہ تر دیہی وقصباتی علاقوں میں لوگوں کیلئے سستی تفریح کا باعث بنتے رہتے تھے۔
لمبی تفصیل میں جانے کی معذرت! لیکن خیال آیا کہ ممکن ہے قارئین میں نئی نسل کے وہ لوگ بھی ہوں جو اس متروک ثقافتی ورثے سے ناآشنا ہیں تو اس لیے مناسب سمجھا کہ ان کی معلومات میں اضافے کی غرض سے تھوڑی تفصیل بتا دوں۔ بہرحال اس تفصیل اور تمہید کیلئے اُن قارئین سے ایک بار پھر معذرت جو پرانے تھیٹر کی ثقافتی حیثیت سے آگاہ ہیں۔
کسی دیہات میں ایک تھیٹر آیا اور اس میں اور کئی چیزوں کے علاوہ ایک گلوکار کے گانے بھی تھے۔ تب تھیٹر کا کلچر اتنا مضبوط اور مقبول تھا کہ طفیل نیازی اور عالم لوہار جیسے مشہور اور مقبول لوک فنکار اس کا حصہ ہوتے تھے۔ طفیل نیازی مرحوم نے انہی تھیٹروں سے مقبولیت حاصل کی اور انہی تھیٹروں میں اپنے مقبول عام اور مشہور گانے: ساڈا چڑیاں دا چنبہ‘ میں نئیں جانا کھیڑیاں دے نال‘ ماہی وے تیرے ویکھن لئی چُک چرخہ گلی دے وچ ڈاہواں وغیرہ گا کر عالمی شہرت حاصل کی۔ اس دیہاتی تھیٹر میں ایک نوآموز گلوکار بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کیلئے موجود تھا۔ اس گلوکار نے اپنی پرفارمنس شروع کرتے ہوئے اس زمانے کا ایک مشہور گانا 'ٹانگے والا خیر منگدا‘ گانا شروع کیا۔ جب گانا ختم ہوا تو ایک پُرجوش دیہاتی نے اٹھ کر فرمائش داغ دی کہ وہ یہ گانا دوبارہ سنائے۔ فخر سے گلوکار کا سینہ پھول گیا۔ اس نے بخوشی یہ گانا دوبارہ گانا شروع کر دیا۔ جونہی گانا ختم ہوا‘ اسی شخص نے اٹھ کر یہی گانا ایک بار پھر گانے کی فرمائش کر دی۔گلوکار ابھی شش وپنج میں ہی تھا کہ اس شخص کے ساتھ بیٹھے ہوئے دو چار اور لوگوں نے بھی اس گانے کیلئے شور مچانا شروع کر دیا۔ بادل نخواستہ اس گلوکار نے یہ گانا تیسری بار سنایا لیکن جونہی اس نے یہ گانا ختم کیا‘ وہی لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور چوتھی بار سنانے کیلئے غل مچانے لگے۔ گلوکار اب تقریباً رونے والا ہو گیا اور بڑی منت وزاری والے لہجے میں کہنے لگا کہ اس نے کچھ اور گانے بھی تیار کیے ہیں وہ سن لیے جائیں‘ جس پر وہی پہلا شخص اٹھا اور کہنے لگے: ہم تمہارے باقی گانے بھی سن لیں گے لیکن پہلے یہ والا گانا تو ٹھیک سے گا کر سنائو۔ آیا بڑا نئے گانے سنانے والا۔ مجھے یہ بات آج اس لیے یاد آئی کہ ہمارے وزیراعظم نے ملک بھر میں نئے گیس کنکشن دینے کا اعلان فرمایا ہے۔ اس دیہاتی سامع کی طرح میری بھی وزیراعظم صاحب سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ پہلے وہ پرانے کنکشن یافتہ صارفین کو تو گیس کی فراہمی شروع کروائیں‘ ان کے بعد نئے والے کنکشنز کو بھی دیکھ لیں گے۔
آپ یقین کریں کہ میں یہ بات صرف کالم کا پیٹ بھرنے اور محض اپنی تحریر میں زور پیدا کرنے یا اپنے مؤقف کو تقویت فراہم کرنے کیلئے نہیں لکھ رہا۔ آج صبح (مورخہ27 اکتوبر بروز سوموار) یہ ہوا کہ میں شوکت گجر کی فرمائش پر اپنے طے شدہ سالانہ شیڈول سے بیس بائیس دن قبل کشمیری چائے بنانے کیلئے علی الصبح باورچی خانے میں چلا گیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ ہمارے علاقے میں گیس کے آنے کے اوقات بڑے محدود اور ناقابلِ اعتبار ہیں۔ صبح گیس کے آنے کا وقت عموماً ساڑھے چھ بجے سے ساڑھے آٹھ بجے تک ہے۔ دوپہر بارہ بجے سے دو بجے اور رات کو چھ بجے سے آٹھ بجے والے دو گھنٹوں کے دوران ایک ایک گھنٹے کے لیے گیس آتی ہے۔ لیکن گیس کا یہ ٹائم بھی ٹرین کا ٹائم ہی سمجھیں کہ ریلوے کا ٹائم ٹیبل کچھ اور ہوتا ہے اور اصل میں ٹرین کی آمد اور روانگی کا وقت اپنی مرضی کا ہوتا ہے۔ تاہم تجربہ یہی بتاتا تھا کہ صبح سات بجے کے لگ بھگ گیس کے آنے کے امکانات سب سے زیادہ ہوتے ہیں‘ لہٰذا میں سات بجے باورچی خانے میں تھا۔ چولہا کھولا تو گیس ندارد۔ ملازم سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ گیس صبح سے آئی ہی نہیں۔ اس نے اطلاع دی کہ صبح گیزر بھی آن نہیں ہو سکا۔ اپنے ایل پی جی سلنڈر پر چائے بنانے کی کوشش کی تو علم ہوا کہ یہاں بھی گیس ختم ہے۔ چار وناچار کمرے میں جا کر اخبار پڑھنا شروع کردیا کہ شاید اس دوران بھول کر کہیں سے گیس آ جائے مگر گیس شوکت گجر کی فرمائش کے ساتھ وہی سلوک کرنے پر اتری ہوئی تھی جس طرح کا سلوک آج کل سی سی ڈی مشکوک ملزمان کے ساتھ کر رہی ہے۔ ساڑھے آٹھ بجے تک چھ‘ سات بار چولہے کو چیک کیا مگر ہر بار چولہا کسی قسم کی شوں شاں سے محروم رہا۔
میں نے اس دوران گیس کے انتظار میں آج ہی کے اخبار میں چھپنے والی گیس کے نئے کنکشنوں پر عائد پابندی ختم کرنے اور نئے کنکشن جاری کرنے سے متعلق وزیراعظم کی تین کالم پر مشتمل خوشخبری‘ جو اخبار میں سپر لیڈ کے طور پر شائع ہوئی تھی‘ تین چار بار پڑھی کہ شاید اس خوشخبری میں ہم جیسے پرانے کنکشن یافتہ متاثرین کے بارے کوئی خبر ہو کہ نئے کنکشن کے ساتھ ساتھ پرانے کنکشنوں والے صارفین کو بھی گیس فراہم کرنے بارے میں کچھ لکھا ہو لیکن ہر بار ناکامی نے منہ چڑایا۔
ساری خبر پڑھنے کے بعد مجھے یہ بات سمجھ آئی ہے کہ یہ خوشخبری صرف ان کیلئے ہے جن کے پاس فی الحال گیس کنکشن نہیں ہیں۔ وزیراعظم نے پرانے کنکشن والے صارفین کے بارے میں کچھ ارشاد نہیں فرمایا۔ مطلب یہ کہ وہ سب لوگ جن کے پاس پہلے سے گیس کی فراہمی سے محروم والے کنکشن ہیں وہ فی الحال صبر سے کام لیں۔ وہی تھیٹر کے گلوکار والا معاملہ ہے کہ اس سے اگلا گانا تب سنا جائے گا جب وہ پہلا گانا درست طریقے سے گائے گا۔ کالم ہٰذا کے ذریعے وزیراعظم محمد شہباز شریف سے درخواست ہے کہ وہ اس کالم کو میرے نئے گیس کنکشن کی درخواست سمجھیں کیونکہ پہلے والے گیس کنکشن سے تو گیس نہیں آ رہی‘ نئے کنکشن کی درخواست جمع کروانے میں کیا حرج ہے؟