"KMK" (space) message & send to 7575

حساب برابر کرنے کا آسان نسخہ

اس ملک میں ٹریفک کا نظام عملی طور پر تو وفات پا چکا ہے‘ تاہم سرکار کے کھاتے میں جرمانوں کی وصولی کی حد تک نہ صرف زندہ ہے بلکہ تابندہ و پائندہ بھی ہے۔ مثلاً ملتان میں کسی چوک پر پھنسی ہوئی ٹریفک کو کھلوانے کیلئے‘ کسی یوٹرن پر قواعد کی کھلی خلاف ورزی روکنے کیلئے‘ کسی سڑک پر کھلے عام ون وے کے قانون کو توڑنے والوں کو پکڑنے کیلئے اور دو چار چوکوں پر لگے ہوئے برقی اشاروں کی پابندی کروانے کیلئے ٹریفک پولیس کوئی عملی کردار سرانجام دے یا نہ دے‘ دوہزار روپے کا چالان کرنے والے لفٹر آپ کو ہر جگہ دکھائی دیں گے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ یہ خدائی فوجدار قسم کے لفٹر مبینہ طور پر پولیس ویلفیئر نامی فنڈ کی آڑ میں جرمانوں کا ٹارگٹ پورا کرنے پر مجبور ہیں۔
ملتان کے ایک سرکاری افسر سے روزانہ لاکھوں روپے کے چالانوں اور جرمانوں کی رقم ایک غیر سرکاری فنڈ میں جمع کروانے کی قانونی حیثیت دریافت کی تو اس نے اس کے مصارف اور جواز کا دفاع شروع کردیا۔ میں نے ڈھیٹ بن کر کئی بار پوچھا کہ کیا ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی‘ جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے‘ کو بنیاد بنا کر ریاستی قانون کے نام وصول ہونے والا جرمانہ سرکاری کھاتے کے بجائے کہیں اور جمع کرایا جا سکتا ہے؟ باقی ہر محکمے کی طبیعت صاف کرنے پر قادر اُس افسر کا جان چھڑوانے والا جواب سن کر مجھے بخوبی اندازہ ہو گیا کہ جب سے پولیس کو خودمختاری ملی ہے کم درجے کی وردی والے بھی بغیر وردی افسر کو پکڑائی نہیں دیتے۔
ملتان تو ایک تمثیل کے طور پر استعمال ہوا ہے‘ باقی سارا پاکستان بھی ایسا ہی ہے۔ ٹریفک کے معاملات میں کم و بیش ہر جگہ ایک جیسا حال ہے۔ اب سڑکوں پر ون وے کی خلاف ورزی اتنی عام ہو چکی ہے کہ ون وے کی خلاف ورزی کرنے والے اسے اپنا قانونی اور اخلاقی حق سمجھ کر سرانجام دیتے ہیں۔ ان کو اگر اس پر روکا جائے‘ کوئی اشارہ کیا جائے یا سوال ہی کیا جائے تو وہ جواباً ایسی بدتمیزی اور جارحانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ بندہ سوچتا ہے کہ میں نے شاید غلط باز پرس کی ہے۔ ملتان کے جو دو تین معروف اور مصروف ترین چوک ہیں وہاں اول تو ٹریفک پولیس کے اہلکار موجود ہی نہیں ہوتے‘ اگر غلطی سے موجود بھی ہوں تو کم از کم اس عاجز نے انہیں عموماً اپنے موبائل فون پر کسی نہایت ہی ضروری کام میں ایسا مصروف پایا کہ وہ دنیا وما فیہا سے یکسر غافل اور بے فکر ہو کر اپنے فون کی سکرین کے علاوہ باقی ہر شے سے لا تعلق دکھائی دیے۔
قانون کی کسمپرسی ویسے تو اس ملک میں چپے چپے پر بکھری پڑی ہے لیکن جو کسمپرسی‘ لاچاری اور بے بسی خود قانون کی ناک کے نیچے دکھائی دیتی ہے اس پر حیرت ہوتی ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میں نے قانون کی ''ناک کے نیچے‘‘ والے الفاظ بھی صرف محاورے کی درستی کو مدنظر رکھ کر لکھے ہیں وگرنہ صورتحال یہ ہے کہ قانون کی دھجیاں میں نے جس طرح اس ملک میں قانون کی ناک کے اوپر اڑتی دیکھی ہیں‘ دنیا میں کہیں اور اس کا دیکھنا تو رہا ایک طرف‘ سوچنا بھی ممکن نہیں۔ کم از کم ملتان شہر کی حد تک صبح سے لے کر شام تک سب سے زیادہ ٹریفک جام بوجہ غیر قانونی پارکنگ ضلع کچہری اور ہائیکورٹ کی عدالتوں کے سامنے ہوتی ہے۔ ملتان میں ننانوے فیصد غلط پارکنگ قانون کے رکھوالے اداروں کے سامنے ہوتی ہے اور قانون نافذ کرنے والوں کو ایکشن لینے کی ہمت نہیں ہوتی۔ چند روز قبل اس فہرست میں سے ضلع کچہری ملتان کے باہر ہونے والی غیر قانونی اور بے ہنگم پارکنگ سے جان چھوٹ گئی‘ اللہ مجھے بدگمانی سے محفوظ رکھے مگر مجھے یہ معاملہ زیادہ دن چلتا دکھائی نہیں دے رہا۔
ملتان ہائیکورٹ کے باہر اس کی مشرقی جانب والی سڑک صبح نو بجے سے شام چار پانچ بجے تک عملی طور پر پارکنگ لاٹ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ہائیکورٹ کی یہ مشرقی سڑک دن میں پانچ چھ گھنٹوں کیلئے گزر گاہ کے طور پر نہیں‘ پارکنگ لاٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ یہ شہر کی مرکزی سڑکوں میں سے ایک ہے جو وکلا کے قبضہ قدرت میں ہے اور کسی مائی کے لعل میں یہ ہمت نہیں کہ وہ اس سڑک کو دن کے وقت عوام الناس کی سہولت یا تکلیف کے حوالے سے رواں رکھنے کی جرأت کر سکے۔ چند روز قبل تک ضلع کچہری ملتان کے اطراف میں بھی یہی حال تھا اور زیادہ خرابی یہ تھی کہ ہائیکورٹ والی پارکنگ کے برعکس ضلع کچہری کی سڑک کی بندش یا رکاوٹ کے باعث ٹریفک کو درپیش مشکل کے حل کیلئے کوئی فوری متبادل سڑک بھی موجود نہ ہے جس کے باعث ادھر صورتحال زیادہ خراب تھی۔
کچہری کو شہر سے باہر منتقل کرنے کا منصوبہ بنا‘ ایک عدد جوڈیشل کمپلیکس بھی بن گیا مگر وکلا نے ادھر سے کہیں اور جانے سے انکار کر دیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے تب کے چیف جسٹس نے بھی وکلا کے مطالبے کا ساتھ دیا اور اس مجوزہ منتقلی کو یکسر مسترد کردیا اور پولیس لائن سے زمین لے کر اس پر ایک کثیر المنزلہ کمپلیکس اور ایک عدد پارکنگ پلازہ بنوانے کیلئے حکومت سے فنڈ لے کر کچہری کو شہر سے باہر لے جانے کا باب ہمیشہ کیلئے بند کردیا۔ چار پانچ روز قبل اس پارکنگ پلازہ کا ایک ہی دن میں دوبار افتتاح ہوا اور خدا خدا کرکے یہ پارکنگ پلازہ چالو ہو گیا۔ علی الصبح خاموشی سے اس پلازے کا پہلا افتتاح ملتان میں ہائیکورٹ کے سینئر جج نے اور دوپہر کو اس کا افتتاح ملتان کی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے کرکے شہریوں کی مشکل کو فی الوقت حل کر دیا ہے۔
فی الوقت میں نے اس لیے لکھا ہے کہ پارکنگ پلازے کی استعداد دوسو دس گاڑیوں پر مشتمل ہے جبکہ ملتان میں وکلا کی تعداد اس سے پانچ گنا ہے۔ جو وکلا فی الحال پارکنگ مسائل کی وجہ سے اپنی گاڑی نہیں لا رہے تھے جگہ میسر ہونے کی صورت میں اپنی گاڑیاں لانی شروع کر دیں گے اور اللہ نہ کرے میرا گمان سچ ثابت ہو‘ مگر ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے میری بدگمانی مستقبل کے بارے میں کوئی اچھی تصویر نہیں دکھا رہی۔ البتہ فی الوقت اس مسئلے کے حل میں جہاں ملتان کی ضلعی انتظامیہ خصوصاً کمشنر ملتان کی کاوشیں شامل ہیں وہیں موجودہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی بڑے مثبت طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا۔ اندازہ لگائیں کہ ابھی پلازہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ کاریگروں نے اس پارکنگ پلازہ کی بالائی منزل کو وکلا چیمبرز کیلئے الاٹ کرنا شروع کردیا اور امیدوار وکلا سے الاٹ کردہ چیمبرز کے عوض رقم بھی وصول کرلی۔ موجودہ بار ایسوسی ایشن نے وہ ساری الاٹمنٹ ختم کی‘ وصول کردہ رقم واپس کی اور پلازے کو پارکنگ کیلئے ہی استعمال کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے عملی ثبوت بھی فراہم کیا۔
گزشتہ چار پانچ روز سے اس سڑک پر ٹریفک کا نظام اور بہاؤ ٹھیک ہے۔ تمام تر پارکنگ فلائی اوور کے نیچے لگی ہوئی پیلی لائن کے اندر ہو رہی ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے بھی اس معاملے میں خوب نگرانی رکھی ہوئی ہے مگر ڈر ہے کہ کچھ عرصہ بعد پہلے والی صورتحال نہ ہو جائے کہ ہمارے ملک میں اس قسم کی ساری خرابیوں کی دو تین وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ حکومتی محکمے چیزوں کو خرابی کے آغاز میں پکڑنے کے بجائے تب توجہ دیتے ہیں جب پانی سر سے گزر جاتا ہے‘دوسری یہ کہ پہلے چند دن نگرانی کے بعد سرکار دوبارہ ستو پی کر سو جاتی ہے اور تیسری یہ کہ عوام ایسی خرابیوں کا یا تو خود حصہ ہیں یا خاموش رہ کر انہیں تقویت پہنچاتے ہیں۔ نہ سرکار اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے اور نہ عوام۔ تاہم اس ساری صورتحال میں نقصان صرف اور صرف عوام کا ہوتا ہے اور جواباً عوام سرکار کو گالیاں دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے حساب برابر کر دیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں