"KMK" (space) message & send to 7575

ضروری نہیں کہ ہر بات کھول کر بیان کی جائے

اول تو الحمد للہ سرکار ہی سوئی رہتی ہے اور بفرضِ محال وہ جاگ بھی جائے تو پھر اس کے اور عوام کے درمیان ایک ملاکھڑا( سندھ کی روایتی کُشتی) شروع ہو جاتا ہے۔ عوام نے بھی ٹھان رکھی ہے کہ اگر سرکار نے غلطی سے بھی کوئی بھلا کام کر دیا تو ہم نے اس کو حتی المقدور برباد کرنا ہے۔ اس ملک میں ناجائز تجاوزات قریب قریب جائز کے درجے تک پہنچ چکی ہیں۔ جس دکاندار کا دل کرتا ہے اپنا فریزر‘ اپنے ریک یا بوتلوں کے کریٹ دروازے کے آگے سرکاری زمین یا فٹ پاتھ پر رکھ دیتاہے۔ پیدل چلنے والے جائیں بھاڑ میں۔اوپرسے اس علاقے کے لوگ اس دکاندار سے سودا سلف خریدتے وقت فٹ پاتھ پر رکاوٹ ڈالنے پر اس کو شرمندہ کرنا تو کجا اس کا تذکرہ تک نہیں کرتے۔ راہگیر فٹ پاتھ پر پڑے سامان کا مکمل احترام کرتے ہوئے خود نیچے سڑک پر اتر کر گزر جاتے ہیں مگر دکاندار کو شکایت لگانے یا اس کا بائیکاٹ کرنے کا تصور بھی نہیں کرتے۔
گاڑیوں کو پنکچر لگانے والا اپنی ہوا بھرنے والی مشین‘ پنکچر چیک کرنے والا پانی سے بھرا ہوا ٹب اور ورکشاپ والا موٹرسائیکل سڑک پر کھول کر بیٹھا ہوتا ہے۔ برتنوں والے نے آدھے برتن سڑک پر سجائے ہوتے ہیں اور سبزی والے کی آدھی سبزیاں اور مرغی کا گوشت فروخت کرنے والے کی مرغیوں کا لوہے والا پنجرہ مستقل فٹ پاتھ پر ہوتا ہے۔ اپنے اس قبضے کو مستحکم اور اپنے سامان کی حفاظت کی غرض سے اس دور اندیش نے اسے زنجیر سے باندھا ہوتا ہے۔ کوئی محلے دار‘ کوئی ہمسایہ‘ کوئی متاثرہ راہگیر اس سلسلے میں نہ تو آواز اٹھاتا ہے اور نہ ہی بطور ذمہ دار شہری لوگ اپنا فرض ادا کرتے ہیں‘ تاہم ہمہ وقت وہ اس پر سرکار کی نااہلی کے بارے میں تبرّا کرتے رہتے ہیں۔
اول تو سرکار ہی کو ہوش نہیں آتا۔ اگر کبھی غلطی سے جوش آ جائے اور انسدادِ تجاوزات والے آکر آپریشن کریں تو انجمنِ تاجران سے لے کر انسانی حقوق کے علمبرداروں تک سب کے سب یک زبان ہو کر اس ظالمانہ آپریشن کے خلاف آواز بلند کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ آپریشن کے اگلے روز متاثرہ دکاندار یا ریڑھی والا عین اسی جگہ دوبارہ اپنا سامان پھیلا لیتا ہے یا ریڑھی لگا لیتا ہے۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ حکومت سارا سال ہر گلی محلے میں ہمہ وقت صرف اسی کام میں مصروف رہے۔ لہٰذا ایک غلغلہ مچتا ہے اور دوچار دن کے بعد سب کچھ اسی پرانی ڈگر پر رواں ہو جاتا ہے۔ میرے جیسے نقاد فٹ پاتھ پر پڑے ہوئے سامان سے بچ کر نہایت احتیاط کے ساتھ نیچے اتر کر گزرتے ہیں اور سرکار کی شان میں قصیدہ پڑھتے ہیں۔ بطور شہری مجھ سمیت کسی کو توفیق نہیں ہوتی کہ وہ تجاوزات والی دکان کا خود بائیکاٹ کرے اور علاقے میں رہنے والے دیگر لوگوں کو بھی اس پر آمادہ کرے۔ اگر سول سوسائٹی ایسے لوگوں کا بائیکاٹ کر دے جو اپنا سامان دکان کے سامنے فٹ پاتھ پریا راستے پر رکھتے ہیں تو یہ معاملہ سرکاری محکموں کی مداخلت اور مک مکا سے کہیں جلدی حل ہو سکتا ہے۔
ملتان ہائیکورٹ کی دیوار کا قصہ بڑا مزیدار ہے۔ اچھی بھلی دیوار تھی اور بظاہر پرانی بھی نہیں تھی مگر اچھی بھلی دیوار کو مزید اچھا اور خوبصورت کر لینے میں کیا حرج تھا؟ لہٰذا اس دیوار پر سرخ رنگ کا گٹکا لگا دیا گیا۔ دیوار مزید خوبصورت ہو گئی۔ اب اس خوبصورت دیوار کی شامت آئی ہوئی ہے۔ پنجاب بار کونسل کا الیکشن تھا اور اس دیوار پر روزانہ کی بنیاد پر امیدواروں کے پوسٹر لگ رہے تھے۔روزانہ لگ بھی رہے تھے اور روزانہ اتر بھی رہے تھے۔ نتیجتاً دیوار روز گندی ہوتی اور روز صاف ہوتی تھی۔ تاہم دیوار کو صاف کرنے کی ایک حد ہوتی ہے۔ آدھا پچادھا پوسٹر لگا بھی رہ جاتا تھا۔ تھوڑا تھوڑا کاغذ اور تھوڑی تھوڑی لگی رہ جانے والی لئی نے اچھی خاصی خوبصورتی کو بدصورتی میں بدل کر رکھ دیا تھا۔ ایک صاحبِ دانش سے پوچھا کہ آخر اس کا کوئی حل ہے؟ وہ کہنے لگے: اس کا آسان حل ہے کہ اندر بیٹھے ہوئے جج صاحبان ایسے وکلا کو ریلیف دینا بند کر دیں تو کل سے ہی دیوار ایسی صاف دکھائی دے گی کہ آپ کا دل خوش ہو جائے گا۔خدا جانے الیکشن لڑنے والوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ ان کے ووٹروں کی کم از کم تعلیم بی اے‘ ایل ایل بی ہے اور وہ اپنا ووٹ دینے سے پہلے یہ ہرگز نہیں گنیں گے کہ دیوار پر کس امیدوار نے زیادہ پوسٹر تھوپے تھے۔
اسی سڑک کے اختتام پر ایک چوک ہے۔ اس چوک کے ایک کارنر پر ملتان پولیس کے ضلعی سربراہ کی رہائشگاہ ہے۔ پہلے یہ ضلعی سربراہ ایس پی ہوتا تھا لہٰذا یہ چوک ایس پی چوک کہلاتا ہے۔ ہائیکورٹ کی یہ شمالی سڑک جہاں ایس پی چوک سے ملتی ہے وہاں ایک عدد بیریئر لگا کر آدھی سڑک بند کردی گئی ہے۔ اب سارا دن ساری ٹریفک خواہ اس نے ادھر سے سیدھا جانا ہو‘ بائیں مڑنا ہو یا دائیں طرف جانا ہو‘ چوک میں جانے کے بجائے پہلے سلپ لین سے بائیں مڑتی ہے۔ دونوں جانب سے آنے والی ٹریفک سڑک کو عموداً کاٹتے ہوئے‘ یوٹرن لے کر سیدھی یا بائیں طرف مڑتی ہے۔ اس دوران دونوں اطراف سے سیدھی آنے والی ٹریفک رک جاتی ہے۔یہ پھس پھسا والی صورتحال کئی سال سے جاری و ساری ہے۔ اس چوک کے عین اوپر ضلعی پولیس آفیسر کی رہائش گاہ ہے‘اس سے متصل ڈپٹی کمشنر کی وسیع و عریض کوٹھی ہے اور ہر دو افسران روزانہ اس چوک سے گزرتے ہوئے ٹریفک انجینئرنگ کی اس انوکھی ایجاد سے پہلو بچا کر نکل جاتے ہیں۔ پہلو بچا کر نکلنے سے مراد ہے کہ انہیں بہرحال سیدھا یا دائیں جانب نہیں مڑنا پڑتا اس لیے انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ مخلوقِ خدا کو کیا دقت ہو رہی ہے۔ یہ عاجز گزشتہ تین چار برسوں کے دوران کم از کم تین سٹی ٹریفک آفیسرز‘دو عدد ڈپٹی کمشنر حضرات اور تین عدد کمشنر صاحبان سے دنیائے ٹریفک کے اس عجیب و غریب‘ حیرت انگیز اور انوکھے شاہکار کا عقلی جواز‘ تکنیکی وجوہات اور ٹریفک انجینئرنگ کے حوالے سے کوئی معقول وجہ دریافت کر چکا ہے مگر ہر شخص نے اس بیریئر کی موجودگی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کے بارے میں معلوم کرکے ہٹانے کا وعدہ کیا جو آج تک پورا نہیں ہوا۔ یہ بیریئر آج بھی موجود ہے اور ٹریفک انجینئرنگ کی نالائقی اور ضلعی انتظامیہ کی کسمپرسی پر لطف لے رہا ہے۔ گمان ہے کہ یہ کسی کی فرمائش پر لگایا گیا تھا بعد ازاں سب نے اس فرمائش کو تعمیل کے درجے پر رکھا اور پھر بھول گئے۔اس قسم کے بھولنے سے ایک تمثیل یاد آ گئی۔ سنائی تو کسی نے اور ملک کے بارے میں تھی مگر احتیاطاً نام مقام بدل دیے ہیں۔ یوگوسلاویہ کا حکمران( سابقہ) مارشل ٹیٹو ایک روز اپنی پرانی یونٹ کا دورہ کرنے کیلئے بلغراد کے نواح میں واقع چھاؤنی میں گیا۔ وہاں دورے کے دوران اس نے دیکھا کہ دو عدد گارڈز ایک پتھر کی برجی کے پاس پہرہ دے رہے ہیں۔ اس نے کمانڈنٹ سے ان کی یہاں موجودگی کا جواز پوچھا تو جواب ملا کہ وجہ تو معلوم نہیں لیکن اتنا علم ہے کہ اس برجی پر برسوں سے دو عدد گارڈز کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے۔ مارشل ٹیٹو نے کہا کہ ریکارڈ دیکھ کر بتاؤ کہ ان گارڈز کی ڈیوٹی یہاں کب سے ہے اور کس نے لگائی تھی۔ پرانی فائلیں کھولی گئیں تو علم ہوا کہ ان دو گارڈز کو خود مارشل ٹیٹو نے پچیس برس قبل جب وہ میجر تھا‘ ادھر کھڑا کیا تھا۔ مارشل ٹیٹو کو یہ بات بتائی گئی تو اس نے کہا: احمقو! تب یہ برجی نئی بنی تھی اور اس کے فرش کا سیمنٹ گیلا تھا۔ تب میں نے دو دن کیلئے یہ گارڈز کھڑے کیے تھے کہ کوئی آتے جاتے گیلے فرش پر نہ چڑھ جائے۔ اگلے روز میرا وہاں سے ٹرانسفر ہو گیا اور یہ دو گارڈز تب سے یہاں کھڑے ہیں۔ قارئین! باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر بات کھول کر بیان کی جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں