کیااس ملک میں مسلکِ دیوبند کے وابستگان کی حُبّ الوطنی ، اس بنا پرہمیشہ معرضِ شک میں رہے گی کہ ان کے دادا اور پردادا نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی؟کیا اے این پی کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا کہ وہ باچا خان کا نام لیتے ہیں اورانہیں سرحدی گاندھی کہا جا تا تھا؟کیا ہم پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دینا چاہتے ہیں؟ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی‘ عوامی لیگ کے انتقام کا شکار ہے۔عدالتیں سزائے موت کے احکامات اس طرح جاری کر رہی ہیں جیسے یہ انسانی معاشرہ نہیں،بھیڑ بکریوں کا گلّہ ہے۔جماعت اسلامی والوں کا جُرم یہ تھا کہ انہوں نے قیامِ بنگلہ دیش کی مخالفت کی تھی اور عوامی لیگ کی تعبیر کے مطابق ،قابض پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔بنگلہ دیش بننے کے بعد ان سے کوئی جرم سرزد نہیں ہوا۔ انہوں نے ملک کے قانون کی مخالفت نہیں کی۔اس کے باوصف ان کا’ تاریخی جرم‘ ناقابلِ معافی ہے۔ عوامی لیگ نے خود کو اس طرح تاریخ کا اسیر بنا لیا ہے کہ وہ اس حصار سے نکلنے پر آمادہ نہیں۔عوامی لیگ کی تنگ نظری نے بنگلہ دیش کو بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی جو اپنی توانائیاں ملک کی تعمیر کے لیے صرف کر سکتی تھی، اب عدالتوں، میڈیا اور عوام کے سامنے اپنی وفاداری ثابت کر تی پھرتی ہے۔کیااب پاکستان میں بھی جو خاندان مسلم لیگی پس منظر نہیں رکھتا،اس کی ہر نسل کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا ہوگا؟ جمعیت علمائے ہند تقسیم کے حق میں نہیں تھی۔یہ مسلم لیگ کی مخالف تھی۔یہ تاریخی حقیقت ہے۔میں اسے ایک نقطہ نظر سمجھتا ہوں، کوئی جُرم نہیں۔ نقطہ نظرغلط ہوتا ہے اور درست بھی۔ برصغیر کی مسلم اکثریت نے اسے غلط سمجھا۔ان کی مخالفت کے باوصف پاکستان بن گیا۔اس واقعے کو اب پینسٹھ برس ہوگئے۔وہ نسل اللہ کو پیاری ہو چکی جس نے یہ موقف اختیار کیا۔اب ان کی تیسری نسل پروان چڑھ چکی۔وہ پاکستان میں پیدا ہوئی اور تقسیمِ ہند ان کے لیے ایک تاریخی واقعہ ہے۔ان کے مفادات اورجذبات دونوں پاکستان سے وابستہ ہیں۔وہ اسی طرح محب ِ وطن ہیں جس طرح کوئی دوسرا پاکستانی ہو سکتا ہے۔اب آئے دن انہیں یہ یاد دلانے میں کیاحکمت ہے کہ ان کے آبا ئو اجداد پاکستان بنانے کے مخالف تھے؟ میرے علم کی حد تک،آج دیوبندی مسلک کے کچھ افرادمیں یہ نقطہ نظر مو جود ہے کہ قیامِ پاکستان کے باب میں مو لانا حسین احمد مدنی ہی بر حق تھے۔تاہم یہ اقلیتی رائے ہے۔میرے نزدیک اس سے کوئی عملی فرق واقع نہیں ہوتا ۔عملاً سب پاکستان کو ایک حقیقت مانتے اور اس کی بقا چاہتے ہیں۔میں کسی ایسی دیوبندی شخصیت کو نہیں جانتا جو یہ خواہش رکھتا ہوکہ ہندوستان کو ایک بار پھر متحد ہو جا نا چاہیے۔مو لانا فضل الرحمٰن سب سے زیادہ مطعون ہوتے ہیں کہ ان کے والدِ گرامی سے ایک جملہ منسوب ہے : ’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کیاخود کبھی انہوں نے کوئی ایسا جملہ کہا؟یہی نہیں، کیا مفتی محمود صاحب بھی کبھی کسی خلافِ پاکستان سرگرمی کا حصہ رہے؟ اگر کوئی ایسی شہادت مو جود نہیں تو پھرآئے دن اس جملے کا اعادہ کیوں؟ اگر یہ بات بطور مفروضہ مان لی جائے کہ یہاں کچھ لوگ پاکستان کے خلاف جذبات رکھتے ہیں توہمیں کیا کر نا چاہیے؟ انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کر نی چاہیے یا آئے دن انہیں طعنہ دینا چاہیے کہ تم وہ ہو جن کے آبائو اجداد پاکستان کے مخالف تھے؟لوگوں کو اپنے بزرگوں سے محبت ہوتی ہے۔وہ ان سے اختلاف کرتے ہیں لیکن یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کی تذلیل کی جائے۔ان کی غلطیوں کو مسلسل دہرایا جا تا رہے۔یہی سبب ہے کہ عہدِ رسالتؐ میں اسلام قبول کرنے والوں کو اس سے منع کیا گیا کہ وہ نومسلموں کے آبائو اجداد کو بُرے لفظوں سے یاد کریں جو اسلام کے مخالف تھے۔ اگر کوئی دیوبندی آج بھی یہ رائے رکھتا ہے کہ یہ فیصلہ بدل جا نا چاہیے تو ہمیں اسے قومی دھارے میں لانا چاہیے۔ زبانِ حال سے اُسے یہ پیغام دینا چا ہیے کہ یہی درست فیصلہ تھا۔اگر ہم کسی پاکستانی کو جان و مال کا تحفظ نہیں دے سکتے‘ اسے مذہبی آزادی حاصل نہیں‘ وہ مسلسل حالتِ خوف میں زندہ ہے اور اس کے ساتھ ہم اسے طعنہ بھی دیتے ہیں کہ تمہارا داداپاکستان بنانے کا مخالف تھاتواس طرزِ عمل سے جیسی حُبّ الوطنی جنم لے گی،اُسے سمجھنا مشکل نہیں۔یہ سلوک ایک دورمیں جماعت اسلامی کے ساتھ بھی روا رکھا گیا۔ اس کی صدائے بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے لیکن اس کی آواز مدھم ہو چکی۔ جماعت اسلامی عقل مند رہی۔ اس نے آگے بڑھ کر محمد علی جناح کو اپنا ’’قائداعظم‘‘ مان لیا اور بڑی مہارت سے یہ باور کرادیا کہ مسلم قومیت کی فکری جنگ تو دراصل مولانا مو دودی نے لڑی تھی۔یہی نہیں، اپنے تئیں یہ بھی ثابت کردیا کہ علامہ اقبال اور قائداعظم تنظیمی اعتبار سے نہ سہی، عملاً جماعت اسلامی ہی کے رکن تھے اور یہ کہ قائد اعظم کے پیش نظر اسلامی ریاست کا وہی تصور تھا جو جماعت اسلامی پیش کر رہی تھی۔ جماعت اسلامی کا یہ مقدمہ دواسباب سے چیلنج نہ ہوسکا۔ایک اس کے ناقدین میں پڑھے لکھے لوگوں کی کمی اور دوسرا اسلامی ریاست کے باب میں دعووں کے باوجود مسلم لیگ کی علمی بے مائیگی۔ اہلِ دیوبند نے پاکستان کو مان لیا لیکن وہ قائداعظم کو اپنا رہنما ماننے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے اور آج بھی ہیں۔ان کے نزدیک پاکستان سے وفاداری کا یہ ناگزیر تقاضا نہیں ہے کہ محمد علی جناح کو اپنا سیاسی،فکری یا مذہبی رہنما مانا جائے۔ہمارے ہاں دونوں باتیں لازم و ملزوم شمار ہو تی ہیں ۔یوں اہلِ دیوبند کی حُبّ الوطنی کے سامنے ایک سوالیہ نشان ہے جو مٹنے کو نہیں آرہا۔ اے این پی بھی اسی المیے سے دوچار ہے۔میں لاہور میں اسفندیار ولی کی ایک تقریر کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔غالباً یہ اعتزازاحسن کی کتاب’’سندھ ساگر‘‘ کی تقریبِ رونمائی تھی۔ انہوں نے اپنے گھر کا ایک واقعہ سنا یا۔ ایک مرتبہ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ جاری تھا ،وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے ۔میچ فیصلہ کن مر حلے میں تھا اور مقابلہ کانٹے دار تھا۔انہوں نے دیکھا کہ ٹی وی پر میچ دکھایا جا رہا ہے لیکن ان کی بیٹی کمرے کے کونے میں دیوار کی طرف منہ کیے بیٹھی ہے۔انہوں نے بیٹی کو مخاطب کیا تو پتہ چلا کہ وہ رو رہی ہے اور آنسوئوں کے ساتھ پاکستان کی کامیابی کے لیے دُعا کر رہی ہے۔ یہ واقعہ سنا نے کے بعد انہوں نے یہی سوال اُٹھایاکہ ہماری نئی نسل کی ملک سے وفاداری کو کب تک مشکوک قرار دیا جا تا رہے گا؟ اہلِ دیوبند کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔اس وقت کشمیر میں جو لوگ مسلّح جدو جہد کررہے ہیں، ان میں بہت سے لوگ دیوبندی پس منظر رکھتے ہیں۔ میں مسلّح جدوجہد کے حق میں کبھی نہیں رہا۔ میں اس کے شرعی استدلال کا قائل ہو سکا اورنہ اخلاقی و سیاسی جواز کا۔اس کے قائل مو لانا فضل الرحمٰن بھی نہیں ہیں۔لیکن بطور امرِ واقعہ اس کا کیسے انکار ہو سکتا ہے کہ یہ پاکستان کی دوستی اور بھارت کے ساتھ دشمنی کا اظہار ہے۔ تاریخی قضیوں کا علمی اسلوب میں ذکر اوربرائے تحقیق بیان کبھی معیوب نہیں سمجھا گیا لیکن سوچ کا یہ انداز نظرثانی کا محتاج ہے کہ لوگوں کو مسلسل تاریخ کا اسیر رکھا جائے اور ایک فرد کے طرزِ عمل کی بنیاداس کے داداکے خیالات اور اعمال میں تلاش کی جائے۔ تاریخِ اسلام کے مطالعے میں ہم یہی سلوک بنو امیّہ سے کر چکے۔ اہلِ دیوبند کا احتساب کرتے وقت ، اس تاریخی مطالعے کے نتائج ہمارے پیش نظر رہیں تو اچھا ہے۔ ورنہ بنگلہ دیش کے مو جودہ حالات پر ایک نگاہ ضرورڈال لی جائے۔